Topics

ارتکاز توجہ


شک اور یقین کا درمیانی فا صلہ سو سال پر مشتمل ہے اور ہر فا صلہ زیادہ سے زیادہ ایک ثانیہ کے برابر ہے ۔اللہ تعالیٰ اس معمہ کو خود حل کر دیتا ہے ۔ "لا ریب ہے یہ کتاب اور اس کو ہدا یت دیتی ہے جس کا یقین غیب پر ہو تا ہے ۔ "یہاں اللہ تعالیٰ نے دو با تیں کہیں ہیں ‘’لا ریب کہہ کر ریب یعنی شک کی نفی کر دی اب صرف غیب با قی رہ گیا جس کو یقین کا درجہ حاصل ہے اس کے معنی یہ ہو ئے اللہ تعالیٰ دماغ میں شک کو جگہ دینے کی  اجازت نہیں دیتے ۔ صرف یقین کو اس بات کی اجا زت ہے کہ آدمی کے ذہن میں د اخل ہو جا ئے ۔ اس کا نام ایمان بالغیب ہے جو ہدا یت دیتا ہے ۔ ہدا یت کا منشاہ بہت اہم ہے وہ یہ کہ کو ئی چیز کسی آدمی نے خواہ نہ دیکھی ہو ، نہ سمجھی ہو ، نہ جا نی ہو ، نہ پہچانی ہو مگر اس پر یقین حاصل ہو ۔ یہاں ہدا یت کی ایک کا ئنات بن جا تی ہے اور یہ سلسلہ آنکھوں کے سامنے سے آدمی کے چا روں طر ف سے اسے محیط کر لیتا ہے ۔

مسلسل ارتکاز توجہ اور مشق سے کسی ایک نقطہ پر خیالات کی رو شنیاں اس حد تک مر کو زر ہیں کہ شک اور بے یقینی یقین کی رو شنیوں کا درجہ حاصل کر لیں تو خیال اور ارادے کے تحت اس کا مظہر بننا ضروری ہو جا تا ہے حضرت غوث علی شاہ ؒ کے واقعہ میں ارتکاز توجہ سے یقین کا عملی مظاہرہ آپ پڑھ چکے ہیں اس قسم کا ایک اور واقعہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے ۔

ایک نامی گرامی تا جر  کی بیٹی جب پندرہ سولہ کے سن کو پہنچی تو اس کے ساتھ جمعرات کی رات کو ایک عجیب واقعہ ہو ا وہ سو کر اٹھی تو اس کے ہا تھ مہندی سے رنگے ہو ئے تھے ۔ جیسے ہی سورج نصف النہار کو پہنچا اس پر اچا نک بے ہو شی کا دور پڑا اور اس کے بعد ہر جمعرات کو وقت مقررہ پر بے ہوش ہو نے لگی ۔ ڈاکٹروں نے ہسٹریا کا علاج کیا لیکن جب کو ئی فا ئدہ نہیں ہو ا تو عامل حضرات کے پاس لیجا یا گیا انہوں نے بتا یا کہ لڑکی کے اوپر جن یا آسیب کا اثر ہے۔ تعویز ، گنڈوں ، جھاڑ پھو نک اور فلیتے جلانے سے بھی مقصد حاصل نہیں ہو اتو حاذق حکیموں سے رجوع کیا گیا اور مسلسل چار سال تک علاج ہو تا رہا۔ پھر یہ ہو نے لگا جس روز لڑکی پر بیہو شی کا دورہ  پڑتا اس روز وہ بہت خوش اور آسودہ نظر آتی نیند سے بیدار ہو کر غسل کر تی ریشمی جو ڑا زیب تن کرتی ۔خوب بناؤ سنگھارکر تی ، آنکھوں میں کا جل لگا تی اور چہرے پر غازہ ملتی ۔ اس کے لباس سے بھینی بھینی خوشبو پھو ٹتی رہتی اورحسن ایسا نکھر آتا جیسا کہ  نئی نویلی دلہن پر حیا اور آسودگی کی نشاندہی کر تا ہے جب کو ئی اس اہتمام کا سبب پو چھتا تو حیا کی ایک سرخی اس کے چہرے پر بکھر جا تی اور زیر لب اتنا بتا تی کہ وہ آرہے ہیں۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو وہ نا راض ہو جا ئیں گے ۔ “سنگھار کے بعد وہ اپنے کمرے میں جا تی اور کمرے میں ہر چیز قرینے سے سجا کر بستر پر بیٹھ جا تی جیسے کسی کے انتظار میں ہو۔ ٹھیک سورج کے زوال کے وقت اس پر بے خودی کا دورہ پڑتا جو رات گئے تک جا ری رہتا ۔

ڈاکٹروں اور حکیموں کا ایک بورڈ بیٹھا سب نے متفقہ فیصلہ دیا کہ لڑکی کی شادی کر دی جا ئے تو ہسٹریا کے دورے ختم ہو جا ئیں گے ۔ لڑکی کو جب معلوم ہو اتو اس نے شدید مخالفت کی۔ لیکن ماں نے اس کی مخالفت کی پر واہ نہیں کی اور خاندان کے ایک صحت مند نوجوان سے شادی کر دی گئی ۔شادی کے دو سرے ہی روز لڑکی نے اپنے شوہر کو سخت وسست کہہ کر کمرے سے با ہر نکا ل دیا ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آئندہ اس کے پا س آنے کی کو شش کی تو وہ اس کا" راز" فا ش کر دیگی ۔اور وہ خاندان میں منہ دکھا نے کے قابل نہیں رہے گا ۔بڑے بوڑھوں نے صلاح صفا ئی کی کوشش کی اورجب مسئلے کا کو ئی حل سامنے نہیں آیا تو عزت بچا نے کے خا طر عدالت سے رجوع کر نا چا ہا لیکن لڑکے نے انہیں ایسا کر نے سے روک دیا ۔ اور بیوی کو طلاق دے دی ۔دونوں خاندانوں میں لڑائی جھگڑے کا ایک  طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔جب خاندان کے بڑے بو ڑھے اکھٹے ہو ئے اور جب لڑکے کو بلایا گیا تو اس نے کہا ۔" سچ بات یہ ہے کہ اس کے سامنے جا تے ہی میری ساری طا قت سلب ہو جا تی ہے ۔ لڑکے کے بیان کو سب نے غلط جانا اور اس پر لعنت طعن کر نے لگے اوربالآخر اس نے دو سرے دن خود خوشی کر لی۔

تا جر نے بہت کو شش کی کہ بیٹی کی دو سری شادی ہو جا ئے مگر جب کسی طر ح بھی کا میابی نہیں ہو ئی تو دو با رہ علاج کی طر ف متوجہ ہو ا ۔کسی دوست نے ایک حکیم صاحب کا تذکرہ کیا جو کئی سو میل فا صلے پر کسی گاؤں میں مطب کر تے تھے ۔ خدا نے ان کے ہا تھ میں اتنی شفاء دی تھی کہ دور دراز سے لوگ آتے تھے اور شفا یاب ہو کر جا تے تھے ۔ وہ کسی سے کو ئی معاوضہ بھی نہیں لیتے تھے ۔

پرو گرام یہ بنا کہ جمعہ کے دن مریضہ کو ساتھ لیکر روانہ ہوں اور چا ر روز تک مذکو رہ گا ؤں پہنچ جا ئیں تا کہ جمعرات کو بے ہو شی کادورہ حکیم صاحب خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اس طر ح مرض کی تشخص میں آسانی ہو گی ۔گا ؤں پہنچے تو حکیم صاحب کے مطب کے سامنے مر یضوں کا ہجوم تھا ۔ دریافت کر نے پر معلوم ہوا کہ آج اور کل حکیم صاحب کمرے میں بند ہو کر عبا دت کر تے ہیں اور وہ پر سوں جمعہ کے روز ملا قات کر یں گے ،دوسرے دن لڑکی کے اوپر معمول کے مطا بق دورہ پڑا اور رات گئے حالت سنبھلی ۔

تا جر کو لوگوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حکیم صاحب نے ادھیڑ عمر ہو نے کے با وجود شادی نہیں کی ہے ۔ جب کو ئی ان سے شادی کا تذکرہ کر تا ہے تو عموما ً ٹال جا تے ہیں ۔ جب زیادہ اصرار ہو تا ہے تو کہتے ہیں میری شادی ہو چکی ہے ۔اور کمرہ میں لٹکے ہو ئے ایک فوٹو کی جا نب اشارہ کر کے کہتے ہیں یہ تصویر جو آپ دیکھ رہے ہیں میری بیوی کی تصویر ہے لوگوں نے یہ بھی بتا یا کہ بدھ جمعرات کو حکیم صاحب اپنے دو سرے کمرے میں اندرسے دروازہ بند کر کے عبا دت کر تے ہیں اور ان دنوں وہ کسی سے ملا قات نہیں کر تے یہ بات ان کا معمول بن گئی ہے ۔

قصہ کو تا ہ تیسرے دن جمعہ کو تا جر صبح سویرے ہی قطار میں جا کر بیٹھا تا کہ جلدی سے جلدی با ری آجائے گھڑی نے آٹھ بجا ئے ،پھر نو بجے لیکن دروازہ نہ کھلا اب لوگوں نے دروازہ   پیٹنا شروع کر دیا ۔ لیکن کمرے کے اندر سے کو ئی آواز سنا ئی نہیں دی۔ اس طر ح انتظار کر تے کر تے شام ہو گئی لیکن دروازہ نہ کھلنا تھا نہ کھلا ۔ یہ دیکھ کر حکیم صاحب کے گا ؤں کے معزز لوگ جمع ہو گئے ہر شخص پر یشا ن تھا کیوں کہ آٹھ سال میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ حکیم صاحب جمعہ کے دن بھی کمرہ بند کر کے عبا دت کر یں ۔ جمعہ کے روز تو وہ نماز جمعہ با جماعت ادا کرنے کا خاص اہتمام کر تے تھے ۔جب شام تک دروازہ نہ کھلا تو گا ؤں والوں کو یقین ہو گیا کہ حکیم صاحب کمرے میں کسی حا دثہ کا شکار ہو گئے ہیں ۔ آخر دروازہ توڑنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پھر یہ خیال کر کے شاید وہ عبا دت میں مصروف ہوں ایک دن اور انتظار کیا گیا ۔ ہفتہ کے دن تا لا توڑ کر اندر داخل ہوئے تو دیکھا کی کمرہ خالی ہے ۔اور کمرے کا عقبی دروازہ کھلا ہوا ہے ۔کمرہ کا سارا سامان جوں کا توں موجود تھا ۔البتہ ان کی بیگم کی تصویر نیچے چاندنی کے فر ش پر پڑی ہو ئی تھی ۔ جب اسے اٹھا یا گیا تو نیچے سے ایک لفا فہ نکلا جس میں تحریر تھا کہ اس لفافہ کو ان صاحب کے سپر د کر دیا جا ئے جوصوبہ ء بہار سے اپنی لڑکی ساتھ لا ئے ہیں ۔ تا جر نے جب یہ لفافہ چاک کیا تو اندر سے ایک خط برآمد ہوا جس پر لکھا تھا کہ ‘’میں نے آپ کی لڑکی کو جمعہ کے دن طلاق دے دی ہے اب وہ کبھی بے ہوش نہیں ہو گی ۔بہتر ہے آپ آج ہی پٹنہ لوٹ جا ئیں ۔ یہاں کے قیام میں آپ کو پریشانی ہو گی ۔جا تے وقت اپنی صاحب زادی کی تصویر بھی لیتے جا ئیں “ تصویر دیکھی تو انہیں سخت حیرت ہو ئی یہ ان کی لڑکی کی تصویر تھی۔ گا ؤں والے بھی حیران تھے کہ یہ کیامعاملہ ہے ہر شخص ایک دو سرے سے سوال کر تا مگر جواب کسی کے پاس نہ تھا تا جر اپنی بیٹی کی تصویر اور بیٹی کو لیکر گھر لوٹ گئے اس کے بعد ان کی بیٹی پر کبھی بے ہو شی کا دورہ نہیں پڑا۔ 

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔