Topics
خیالات کو سمجھنے اور خیالات میں معانی پہنانے
کے لئے الفاظ کا سہارا لیا جا تا ہے لیکن اگر کا ئناتی لاشعور کا مطا لعہ کیا جا
ئے تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ الفا ظ کا سہا را لینا ضروری نہیں ہے ۔ درختوں ، چو پا
یوں ، پر ندوں ، درندوں اور حشرات الارض کی زندگی ہمارے سامنے ہے یہ سب با تیں کر
تے ہیں اور خیالات کو آپس میں ردوبدل کر
تے ہیں لیکن الفاظ کا سہا ر انہیں لیتے مو جو دہ زمانے نے اتنی تر قی کر لی ہے کہ
اب یہ بات پو ری طر ح ثابت ہو چکی ہے کہ درخت میں بھی آپس میں با تیں کر تے ہیں ۔
درخت مو سیقی سے بھی متا ثر ہو تے ہیں اچھے لو گوں کے سائے سے درخت خوش ہو تے ہیں
اور ایسے لو گوں کی قربت جن کے دماغ پیچیدہ اور تخر یب پسند ہیں درخت نہ خوش ہو تے
ہیں۔ یہ بات میں اپنے مشاہدے کی بنا پر لکھ رہا ہوں ۔میں نے ایسے گھر دیکھیں ہیں
کہ اس گھر کے با سی ذہنی طور پر پس ما ندہ اور متعفن خیالات کے حامل تھے ۔اور اس
گھر کے درختوں کے پتوں میں اور درختوں کی شاخوں میں ان کا عکس نظر آتا ہے ۔ان
درختوں کو دیکھ کر طبیعت میں تکدر پیدا ہو تا تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ زبان دراصل
خیالات ہیں اور خیالات ہی اپنے معنی مفہوم کے ساتھ نوع انسانی اور دو سری تمام
نوعوں میں ردوبدل ہو تے رہتے ہیں الفاظ کا سہارا در اصل شعوری کمزوری کی کی علامت ہے۔ اس لئے کہ شعور
الفاظ کا سہارا لئے بغیر کسی چیز کو سمجھ نہیں پا تا ۔ جب کو ئی بندہ ٹیلی پیتھی
کے اصول و ضوابط کے تحت خیالات کی منتقلی کے علم سے وقوف حاصل کر لیتا ہے تو اس کے
لئے دونوں با تیں برابر ہو جا تی ہیں ۔چا ہے کو ئی خیال الفاظ کا سہارا لیکر منتقل
کیا جا ئے یا کسی خیال کو لہروں کے ذریعے منتقل کیا جا ئے ہر آدمی کے اندر ایسا
کمپیو ٹر نصب ہے جو خیالات کومعنی اور مفہوم پہنا کر الگ الگ کر دیتا ہے اورآدمی
اس مفہوم سے با خبر ہو کر اس کو قبول کر تا ہے یا رد کر دیتا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔