Topics
پہلے
سبق میں یہ بات پو ری طرح واضح کر دی گئی ہے کہ ٹیلی پیتھی سیکھنے کے لئے ضروری ہے
کہ منتشر خیالات سے نجات حاصل کر کے صرف ایک خیال کو اپنا ہدف بنالیا جا ئے ، ذہنی
یکسوئی اور مر کزیت حاصل کر نے کے لئے دو سرا سبق یہ ہے ۔
داہنے
ہا تھ کے انگوٹھے سے سیدھے نتھنے کو بند کر لیں ۔اور با ئیں نتھنے سے پا نچ سیکنڈ
تک سانس کھنچ کر سیدھا نتھنا چھنگلیا سے بند کر لیں ۔اور پانچ سیکنڈ تک سانس کو رو
ک لیں ۔ دس سیکنڈ کے بعد الٹے نتھنے سے پانچ سیکنڈ تک سانس با ہر نکا لیں۔ یہ ایک چکر
ہو گیا یعنی پا نچ سیکنڈ سانس لینا ،دس سیکنڈ رو کنا اور پا نچ سیکنڈ با ہر نکالنا
ہے۔ اس طر ح دس مر تبہ اس عمل کو دہرا ئیں ۔سانس کی یہ مشق صبح سورج نکلنے سے پہلے
خلوئے معدہ اور رات کو سونے سے پہلے خالی پیٹ کر نی چا ہئے ۔ سانس کی اس مشق کے
بعد آنکھیں بند کر لیں اور یہ تصور کر یں کہ آسمان پر نیلے رنگ کے با دل چھا ئے
ہو ئے ہیں اور آپ کے اوپر نور کی بارش ہو رہی ہے۔شروع شروع میں اس مراقبہ کے
دوران شعور پر مزاحمت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ
بوجھل اور ماؤف ہونے لگتا ہے۔ دماغ کا ماؤف ہونا دراصل مشق کی کامیابی کی
طرف اشارہ ہے۔ ابتدائی چند دنوں میں یا تو تصور بالکل قائم نہیں ہوتا یا صرف آسمان
اور بادل کا تصور دماغ کی سطح پر نمودار ہوتا ہے۔
جب
اس تصور میں گہرائی واقع ہوجاتی ہے تو پہلے سر کے اوپر بارش کے قطرے گرنے کا احساس
ہوتا ہے ۔تصور اور زیادہ گہرا ہو جاتا ہے تو فی الواقع بارش ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور جسم پر اس
نورانی بارش کی بڑی بڑی بوندوں کا وہی اثر مرتب ہوتا ہے جو پانی کی بارش سے ہوتا
ہے۔ یعنی نورانی بارش کی بوندیں گرنے سے جسم پرچوٹ پڑتی ہے اور پھر پورے ما حول پر
بر کھا رُت کا سماں پیدا ہو جا تا ہے جب بند آنکھوں سے با رش کا تصور قائم ہو
جائے اور جسم پر بوندوں کی چوٹ محسوس ہونے لگے تو اس مشق کو کھلی آنکھوں سے کیا
جا ئے اور تیسری آنکھ سے یہ دیکھا جا ئے کہ ہر طر ف نور کی بارش ہو رہی ہے
اور پورا ما حول ا س نو را نی با رش میں ڈو با ہوا ہے ۔ جب یہ تصور
پو را ہو جائے تو یہ سمجھ لیجئے گا کہ اس مشق کی تکمیل ہو گئی ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔