Topics
ایک دن واکی شریف کے جنگل میں پہاڑی ٹبّے پر چند
لوگوں کے ہمراہ چڑھتے چلے گئے۔ نانا رحمۃ اﷲعلیہ مسکرا کر کہنے لگے۔"میاں جس کو
شیر کا ڈرہو وہ چلاجائے، میں تو یہاں ذراسی دیر آرام کروں گا۔ خیال ہے کہ شیر ضرور
آئے گا۔ جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی ۔ تم لوگ خواہ مخواہ انتظار میں مبتلا نہ رہو۔
جاؤ کھاؤ پیو اور مزہ کرو۔"
بعض لوگ اِدھر اُدھر
چھپ گئے اورزیادہ چلے گئے۔ میں نےحیات خاں
سے کہا ۔ کیا ارادہ ہے ۔ پہلے تو حیات خاں سو چتارہا۔ پھر زیرِ لب مسکرا کرخاموش ہوگیا۔تھوڑی
دیربعد میں نے پھر سوال کیا۔ "چلتاہے یا تماشا دیکھناہے۔"
"بھلا باباصاحب
کوچھوڑکے میں کہاں جاؤں گا!" حیات خاں بولا
گرمی کا موسم تھا۔ درختوں
کا سایہ اور ٹھنڈی ہو ا خمار کے طوفان اٹھا رہی تھی۔
تھوڑی دور ہٹ کر میں
ایک گھنی جھاڑی کے نیچے لیٹ گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر حیات خاں اس طرح بیٹھ گیا کہ
نانا تاج الدینؒ کو کن انکھیوں سے دیکھتا رہے۔
اب وہ دبیز گھاس پر
لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں بندتھیں۔ فضا میں بالکل سنّاٹا چھایا ہواتھا۔
چند منٹ گزرے تھے کہ
جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا۔ آدھ گھنٹہ پھر ایک گھنٹہ ۔ اس کے بعد بھی کچھ وقفہ ایسے
گزر گیا جیسے شدید انتظار ہو۔ یہ انتظار کسی سادھو، کسی جوگی ، کسی ولی ، کسی انسان
کا نہیں تھا بلکہ درندہ کا تھا جو کم ازکم میرے ذہن میں قدم بقدم حرکت کر رہاتھا۔ یکایک
نانا رحمۃاﷲعلیہ کی طرف نگاہیں متوجہ ہوگئیں۔ ان کے پیروں کی طرف ایک طویل القامت شیر
ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا ۔ بڑی آہستہ خرامی سے بڑے ادب کے ساتھ۔
شیر نیم واکی آنکھوں
سے نانا تاج الدینؒ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آگیا۔
نانا گہری نیند میں
بے خبر تھے۔ شیر زبان سے تلوے چھورہاتھا۔ چند منٹ بعد اس کی آنکھیں مستانہ واری سے
بند ہوگئیں۔ سرزمین پر رکھ دیا۔
نانا تاج الدینؒ ابھی
تک سورہے تھے۔
شیر نے اب زیادہ جرأت
کرکے تلوے چاٹنا شروع کردیئے۔ اس حرکت سے نانا کی آنکھ کھل گئی۔ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ شیر
کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
کہنے لگے تو آگیا۔ اب
تیری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ اچھا اب جاؤ۔شیر بڑی
ممنونیت سے دم ہلائی اور چلا گیا۔
میں نے واقعات پر بہت
غور کیا ۔یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ شیر ان کے پاس آیا تھا۔ مجبوراًاس امر کا یقین
کرنا پڑتاہے ، نانا اور شیر پہلے سے ذہنی طور پر روشناس تھے۔ روشناسی کا طریقہ ایک
ہی ہو سکتاہے۔ انا کی جو لہریں نانا او رشیر کے درمیان ردوبدل ہوتی تھیں وہ آپس کی
اطلاعات کا باعث بنتی تھیں۔ عارفین میں کشف کی عام روش یہی ہوتی ہے۔ لیکن اس واقعہ
سے معلوم ہوا کہ جانور وں میں بھی کشف اسی طرح ہوتاہے۔ کشف کے معاملے میں انسان اور
دوسری مخلوق یکساں ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔