Topics
حضرت
سلیمان علیہ السلام کے عظیم الشان اور بے مثال دربار میں انسانوں کے علاوہ جن اور
حیوانات بھی درباری خدمات کے لئے حاضر رہتے تھے اور اپنے مراتب اور سپر د کر دہ
خدمات پر بے چوں و چرا عمل کر تے تھے ۔
دربار
سلیمان ؑ پورے جا وہ حشم کے ساتھ منعقد تھا ۔ حضرت سلیمان ؑ نے جا ئزہ لیا تو ہد
ہد کو غیر حاضر پا یا ۔ ارشاد فر ما یا :
"میں ہد ہد کو موجود نہیں پا تا ۔ کیا وہ واقعی غیر حاضرہے ؟
اگر اس کی غیرحاضری بے وجہ ہے تو میں اس کو سخت سزا دوں گا ۔یا ذبح کر ڈالوں گا
۔یا وہ اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بتا ئے ۔" ابھی زیادہ دیر نہیں ہو ئی تھی
کہ ہد ہد حاضر ہو گیا۔ اور حضرت سلیمانؑ کی بازپرس پر اس نے کہا ۔
"میں
ایک ایسی یقینی خبر لا یا ہوں جس کی اطلاع آپ کو نہیں ہے ۔وہ یہ ہے کہ یمن کے
علاقے میں سبا کی ملکہ رہتی ہے اور خدا نے اسے سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کا تخت
سلطنت اپنی خوبیوں کے اعتبار سے عظیم الشان ہے ملکہ اور اس کی قوم آفتاب پر ست ہے
۔شیطان نے انہیں گمراہ کر دیا ہےاور وہ
خدا ئے لا شریک کی پر ستش نہیں کر تے ۔ "
حضرت
سلیمانؑ نے کہا ۔
"تیرے
جھوٹ اور سچ کا امتحان ابھی ہو جا ئے گا تو اگر سچا ہے تو میرا یہ خط لے جااور اس کو ان تک پہنچا دے اور انتظار کر کہ
وہ اس کے متعلق کیا گفتگو کر تے ہیں ۔ "
ہدہد
جب یہ خط لے کر پہنچا تو ملکہ سبا سورج دیوتا
کی پر ستش کے لئے جا رہی تھی ۔ ہدہد نے راستے میں ہی یہ خط ملکہ کے سامنے یہ خط ڈال دیا ۔
جب
یہ خط گرا تو ملکہ نے اٹھا کر پڑھا اور اپنے درباریوں سے کہا ۔
"ابھی
میرے پاس ایک مکتوب آیا ہے جس میں یہ درج
ہے کہ یہ خط سلیمان کی جانب سے اور اللہ کے نام سے شروع ہےجو بڑا مہربان اور رحم والا ہے ۔ تم کو ہم سے
سر کشی اور سر بلندی کا اظہار نہ کر نا چا ہئے اور تم میرے پاس خدا کے فرماں بردار
بن کر آؤ "۔
ملکہ
سبا نے خط کی عبا رت پڑھ کر نہیں کہا ۔" اے میرے اراکین سلطنت ! تم جا نتے ہو
کہ میں اہم معاملات میں تمہارے مشورے کے بغیر کبھی کوئی اقدام نہیں کر تی
اس لئے اب تم مشورہ دوکہ مجھے کیا کر نا
چا ہئے ۔"
ارکان
حکومت نے عرض کیا ۔ـ"جہاں تک مر عو ب ہو نے کا تعلق ہے اس
کی قطعاًضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہم زبر دست طا قت ، اور جنگی قوت کے مالک ہیں رہا
مشورے کا معاملہ تو آپ جو چا ہیں فیصلہ کر یں ،۔ ہم آپ کے فر ماں بردار ہیں ۔
"
ملکہ
نے کہا ۔"جس عجیب طر یقے سے سلیمانؑ کا پیغام ہم تک پہنچا ہے وہ ہمیں اس بات
کا سبق دیتا ہے کہ سلیمان کے معاملے میں سوچ سمجھ کر کو ئی قدم اٹھا یا جا ئے ۔
میرا ارادہ یہ ہے کہ چند قاصد روانہ کروں اور وہ سلیمان کے لئے عمدہ اور بیش قیمت
تحائف لے جا ئیں ۔"
جب
ملکہ سبا کے قاصد تحا ئف لیکر حضرت سلیمان ؑ کی خد مت میں حاضر ہو ئے تو انہوں نے
فر ما یا۔" تم اپنے ہدایاواپس لے جا ؤ
اور اپنی ملکہ سے کہو اگر اس نے میرےپیغام کی تعمیل نہیں کی تو میں ایسے عظیم الشان لشکر کے ساتھ
سبا والوں تک پہنچو ں گا کہ تم اس کی
مدافعت اور مقابلے سے عاجز رہو گے اور پھر میں تم کو ذلیل اور رسوا کرکے شہر بدر
کر دوں گا۔"
قاصد
نے واپس آکر ملکہ سبا کے سامنے تمام صورت حال بیان کی اور حضرت سلیمان ؑ کی عظمت و شوکت کا جو حال
دیکھا تھا حرف بہ حرف کہہ سنایا اور بتا یا کہ ان کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہیں
بلکہ جن اورحیوانات بھی ان کے تابع فر مان
اور مسخر ہیں ۔
ملکہ
نے جب یہ سنا تو اس نے طے کر لیا کہ حضرت سلیمان ؑ کی آواز پر لبیک کہا جا ئے ۔
لہذا اس نے سفر شروع کر دیا اورحضرت سلیمانؑ کی خدمت میں روانہ ہو گئی ۔
حضرت
سلیمانؑ کو معلوم ہو گیا کہ ملکہ سبا حاضر خدمت ہو رہی ہیں ۔ آپ نے اپنے درباریوں
کو مخاطب کر کے کہا ۔" میں چاہتا ہوں
کہ ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت شاہی اس دربار میں موجود ہو ۔"
ایک
دیو پیکر جن نے کہا ـــ"آپ کے دربار برخاست کر نے سے پہلے
ہی میں تخت لا سکتا ہوں "۔
جن
کا یہ دعویٰ سن کر ایک انسان نے جس کے پاس
کتاب کا علم تھا یہ کہا "اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے یہ تخت میں آپ کی
خدمت پیش کر سکتا ہوں ۔ "
حضرت
سلیمان ؑ نے رخ پھیر کر دیکھا تو دربار میں ملکہ سبا کا تخت موجود تھا۔
ٹائم
اسپیس کی حد بندیوں میں جکڑے ہو ئے شعور کے لئے یہ امر قابل غور ہے کہ سینکڑوں میل
کی مسافت طے کر ملکہ سبا کا تخت شاہی خیال کی رفتار سے پلک جھپکتے ہی حضرت سلیمان
ؑ کے دربار میں پہنچ گیا ۔ یعنی بندے کے خیال کی لہریں تخت کے اندر کام کر نے والی
لہروں میں جذب ہو کر تخت کو منتقل کر نے کا ذریعہ بن گئیں ۔
انسانوں
کے درمیان ابتدائے آفر نیش سے بات کر نے کا طر یقہ رائج ہے ۔ آواز کی لہریں جن
کے معنی متعین کر لئے جا تے ہیں سننے والوں کو مطلع کر تی ہے ۔ یہ طر یقہ اس ہی
تبا دلہ خیال کی نقل ہے جو انا کی لہروں کے درمیان ہو تا ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ
گونگا آدمی اپنے ہو نٹوں کی خفیف سی جنبش
سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں ۔ یہ طر یقہ بھی پہلے طر یقے کا
عکس ہے جانور آواز کے بغیر ایک دو سرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں ۔یہاں بھی
انا کی لہریں خیالات کی منتقلی کاکام کر تی ہیں درخت بھی آپس میں گفتگو کر تے
ہیں یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں ہی نہیں ہو تی بلکہ دور دراز ایسے
درختوں میں بھی ہو تی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں یہی قانون جمادات میں
بھی رائج ہے ۔ کنکروں ، پتھروں مٹی کے ذرات میں من و عن اسی طر ح تبا دلہ خیال
ہو تا ہے ۔
روحانی
طا قت رکھنے والے کتنے ہی انسانوں کےکتنے ہی واقعات اس کے شاہد ہیں ساری کا ئنات
میں ایک ہی شعور کا ر فر ما ہے ۔ اس کے ذریعے غیب وشہود کی ہر لہر دوسرےکے معنی سمجھتی ہے چا ہے یہ دونوں لہریں کائنات کے دوکنا روںپر واقع ہو ں ۔ غیب
وشہود کی فرا ست اور معنویت کا ئنات کا رگ جاں ہے جو خود ہماری
اپنی رگ جاں بھی ہے۔ تفکر اورتو جہ کر کے ہم اپنے سیا ر ے اور دو سرے سیا
رو ں کے آثارو احوال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ انسانوں ، حیوانوں ، جنات اور فرشتوں کی حر کا ت و سکنات ، نبا تات
و جمادات کی اندرو نی تحر یکات بھی معلوم کر سکتے ہیں ۔مسلسل مشق اور ارتکاز توجہ
سے ذہن کا ئناتی لا شعور میں تحلیل ہو جا تا ہے اور ہمارے سراپا کا معین پرت انا
کی گر فت سے آزاد ہو کر ضرورت کے مطابق ہرچیزدیکھتا ہے سمجھتا اور شعور میں محفوظ کر
دیتا ہے ۔
یہی
روحانیت ہے اور یہی ٹیلی پیتھی (TELEPATHY) ہے فر ق صرف اتنا
ہے کہ روحانیت اپنے اند رایک وسعت رکھتی ہے اور ٹیلی پیتھی صرف خیالات کے تبادے کا
نام ہے ۔
حضرت
غوث علی شاہ ؒ کی کتاب ‘’تذکرہ غو ثیہ “
میں مو لا نا گل حسن صاحب فر ما تے ہیں کہ ایک روز راقم نے غرض کیا ۔ ‘’حضرت کبھی
آپ کو عشق بھی ہوا ہے ؟ “۔
حضرت
نے فر مایا :
جب
ہم گھر سے چل کر بنارس پہنچے تو وہاں ہمارے بھا ئی فیض الحسن تھا نیدار تھے ۔ ان
سے مل کر طبیعت بہت خوش ہو ئی ۔ بھا ئی نے اصرار کیا کہ گھر پر ٹھہرو ۔ مگر ہم کو
سوائے مسجد کے آرام کہاں تھا گنگا کے کنا رے ایک مسجد تھی ۔اس میں ٹھہر گئے ۔مسجد
کے ایک طر ف گھاٹ تھا اور دو سری طر ف شارع عام تھی ۔بھائی صاحب بھی روزمرہ وہاں تشریف لا تے تھے ۔کھا نا بھی وہی بھجتے تھے ۔ایک روز عصر کی نماز کے بعد مسجد کی
دیوار پر بیٹھے ہو ئے ہم سیر کر رہے تھے کہ یکا یک ایک نا زنیں ، مہ جبیں غارت
ایمان ودیں ،چو دہ پندرہ کا سن و سال قیامت کی چال ڈھا ل قوم سے کشمیری بر ہمن نے اپنی ہمجولیوں کے جلو میں
آفتاب عالمتاب کی طر ح نظر کو خیرہ کر تی ہو ئی ہمارے سامنے آگئی نظر چار ہو تے
ہی ہو ش و حواس کھو بیٹھے ۔ لیکن ابھی اتنی عقل با قی تھی کہ ہم نے مسجدکے مولوی
سے کہہ دیا کہ ہمارے بھا ئی آئیں یا کھا نا بھجوائیں تو تم ان سے یہ کہہ دینا کہ ہم چلے میں بیٹھے ہیں اور
سب سامان مجھ کو دے دیا ہے اور جس وقت ضرورت ہو گی میں کھا نا تیار کر کے دے دوںگا
۔ملا کو یہ بات سمجھا کر ہم نے حجرے کا دروازہ بند کر لیا ۔ اور اس پر ی ر و کا
تصور قائم کر کے عالم خیال میں گم ہو گئے اس عرصے میں کھا نا ،پینا ،نماز ،رو زہ
سب با لائے طاق رکھ دیا ۔آٹھویں دن وہ تصویر مجسم ہو کرسامنے آکھڑی ہوئی اسی دن
وہ نا زنین دل رُبا اپنے شوہر کے ساتھ تھالی میں شیرنی رکھے مسجد میں آموجود ہو
ئیں ۔ اس نے حجرہ کی زنجیر کھڑکا ئی ۔کان میں آواز پڑی تو دل نے کہا مطلوب
آپہنچا ۔ ہم نے کنڈی کھول دی وہ دو نوں حجرے کے اندر آگئے ۔ دیکھا کہ اس کا شوہر
بھی حسن و جمال میں یکتا وبے مثال تھا ۔
ہم
نے پو چھا ‘’تم دونوں کس لئے آئے ہو ؟ “
بولے
۔ ‘’ہم کو اولاد کی تمنا ہے ۔ “
ہم
سمجھ گئے کہ یہ سب فساد حضرت عشق کا ہے ورنہ ابھی تو ان کے دن کھیلنے کودنے اور سیر تما شے
کے ہیں کیسی اولاد اور کیسی تمنا ! اس حسین قتالہ نے ہماری طر ف ٹکٹکی باندھ لی ۔
اس کے شو ہر سے ہم نے کہا ۔’’ذرا تم با ہر جا کر زنجیر لگا دو ۔ ہم کو تمہاری بیوی
سے ایک پر دے کی بات پو چھنی ہے۔ “
وہ
غر یب دروازہ بند کر کے با ہر ہو گیا۔ اس زمانے میں ہماری عمر پنتا لیس سال کی تھی
، ہم نے اپنے دل سے کہا ۔ بولو حضرت ! کیا ارادہ ہے ۔ا گر اس کو جو رو بنانا چا
ہتے ہو تو میاں بیوی دونوں راضی ہیں بہن بنانا چا ہتے ہیں تو پھر اپنی ماں اور بہن کو کیوں چھو ڑا ۔ جس کے لئے آٹھ دن
سے بے تابی اور بے قراری تھی ۔ وہ موجود ہے ۔ کہہ کیا کہتا ہے ۔
دل
نے جواب دیا ۔ یہ بھی ایک کھیل کھیلنا تھا تو کھیل چکے بس اب کو ئی خواہش با قی نہ
رہی ۔
اس
کے بعد ہم نے اس سے ایک دو با تیں پو چھ کر اس کے خاوند کو بلالیا اور ایک تعویز
لکھ کر ان کے حوالے کیا اور کہا جا ؤ ، خدا حافظ ! “
ان
کے جانے کے بعد یہ خیال آیاکہ عشق ضرور
کچھ رنگ لا ئے گا اور طرف ثانی کو بھی ستا ئے گا یہاں سے چل دینا ہی بہتر ہے ۔ یہ
سوچ کر ہم آدھی رات گزرنے پر وہاں سے چل دئیے اور بیس کوس دور جا کر دم لیا ۔
دوسرے
دن وہ نیک بخت بھی شوہر کے ہمراہ یکہ میں بیٹھی عصر کے وقت اسی مقام پر آپہنچی ۔
بال پریشاں، طبیعت اداس ، چہرہ پژمردہ ، دل افسردہ اور یاس زدہ ۔ میرے قریب آکر
زارو قطار رو تے ہو ئے التجا کی کہ آپ بنا رس تشریف لے چلیں ۔جب دونوں نے بہت
اصرار کیا تو ہمیں مجبو راً کہنا پڑا کہ ہم یہاں ضروری کام سے آئیں ہیں وہ ہو
جائے گا تو ہم دو چار دن میں خود ہی بنا رس چلے جا ئیں گے ۔ غرض تسلی و تشفی دے کر
ان کو بنارس کی طر ف روانہ کیا ہم نے لکھنو کی راہ لی ۔ نہیں معلوم بعد میں اس پر
کیا گزری۔
حضرت
غوث علی شاہ ؒ کے واقعہ میں یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خیالات مسلسل ایک
نقطہ پر مر کوز ہو جا ئیں یا کر دئیے جا ئیں معمول خواہ ان خیالات سے متفق نہ ہوں
لیکن وہ عامل کے خیال کی قوت سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہتا ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔