Topics
فا
روق مصطفی ۔بہا ول پور۔۔۔
۳۔
اگست : مراقبہ نور کی مشق شروع کر نے کے تھوڑی دیر بعد دریا کا
تصور کچھ قائم ہوا ۔ مراقبہ ہوتے وقت میرا رخ شمال کی طر ف تھا مگر دریا کا تصور
مشرق سے مغرب کی طر ف قائم ہوا ۔دیکھا کہ ایک نور کا دریا ہے سفید رنگ نورانی رو
شنی میں ہلکی سے پیلا ہٹ ہے سامنے زمین سے بہت دور ایک کنا رہ ہے دو سرا کنا رہ
بھی زمین سے بہت دور ہے۔ زمین وسط میں
ڈوبی ہوئی ہے۔دائیں طرف بہت دور سے دریا آرہا ہے اور بائیں طرف کو کہیں دور جا
رہا ہے ۔
تصورقائم
ہو تے ہی یوں محسوس ہوا کہ جیسے چہرے پر سفید روشنی پڑ رہی ہو مشق کے شروع میں خو
ف سا محسوس ہو ا تھا لیکن پھر فو را ً ہی ختم ہو گیا ۔
۱۱ ۔ اگست : ایک
طویل راہ داری نظر آئی جس کی دو سری طر ف سر سبز درخت رو شنی سے نہائے ہو ئے
موجود تھے ۔ روشنی بعض اوقات سفید ٹیوب لا ئٹ جیسی نظر آتی ۔ اور بعض اوقات دھو پ
جیسی محسوس ہو تی ہے ۔
۱۴اگست : مشق شروع کر نے کے کچھ دیر بعد جب تصور نور میں ڈوبا
ہوا تھا ایک دم آنکھوں کے سامنے روشن چمکیلی سفید لہر آئی اورمعدوم ہو گئی اور
سارے جسم میں سنسنی سی دوڑگئی۔
۱۵۔
اگست : ایک موم بتی نظر آئی ۔شعلہ سبز رنگ کا تھا اور شعلے کے درمیانی جگہ سیاہ
تھی پھر کئی موم بتیاں نظر آئیں ۔
۱۷۔ اگست : مشق شروع کر تے ہی نور کے دریا میں ڈوب گیا اور اس کے
ساتھ میرے اوپر غنودگی سی چھا گئی ۔ نہیں معلوم غنو دگی میں کیا کیا نظر آیا ۔
تھوڑی دیر بعد نیند کا جھٹکا لگا اور بیدار ہو گیا۔ پھر تصور قائم ہو تے ہی
غنو دگی میں چلا گیا کافی دیر تک یہ چکر
چلتا رہا جھٹکے لگتے رہے اور غنو دگی چھا تی رہی ۔
۲۲۔
اگست : اب کیفیت یہ ہے کہ میں آنکھیں بند کر کے کسی بھی وقت جس چیز کا بھی تصور
کر تا ہوں ایسا محسوس ہو تا ہے جیسے وہ چیز میری آنکھوں کے سامنے ہے ۔
۱۷۔
ستمبر : حسب معمول شمال کی طر ف منہ مشق شروع کی ۔لیکن فو را ً خیال آیا کہ مغرب
کی طر ف منہ کر نا چا ہئے یوں لگا جیسے میرا جسم مغرب کی جا نب گھوم رہا ہے ۔یہ
خیال اتنا طا قتور تھا کہ واقعتا مغرب کی طر ف منہ کر نے پر مجبور ہوگیا ۔پھر تصور
قائم ہو تے ہی غنو دگی میں چلا گیا اس کے بعد ذہنی سکون ہو گیا ۔جسم کے مختلف حصوں
میں سوئیاں چھبتی رہیں ۔پھر یوں لگا جیسے سینا اور پیٹ کے درمیان ایک لمبا سا شگا
ف پڑ گیا ہے اور پھر اوپروالا حصہ لباس کی طرح جسم سے اتر نا چا ہتا ہے۔
۲۳۔
ستمبر : آج مراقبہ شروع کر نے کے تھوڑی ہی دیر بعد یہ محسوس ہو اکہ میری پیشانی
کے عین درمیان میں ایک آنکھ موجود ہے اور
آنکھ اس نور کو دیکھ رہی ہے جس نور کے اندر میں خود اور زمین ڈوبی ہو ئی ہیں سو
ئیاں چبھنے کا احساس آج بھی ہو تا رہا ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔