Topics

دماغی کشمکش



ہمارے اسلاف میں ایک بزرگ شاہ ولی اللہ ؒ گزرے ہیں ۔ ان کے ہاتھ اس جرم میں توڑ دئیے گئے تھے کہ انہوں نے قرآن پاک کا تر جمہ کیا تھا ۔ شاہ ولی اللہ نے بتا یا کہ جسم انسانی کے اوپر ایک اورانسان ہے جو رو شنیوں کی لہروں سے مر کب ہے جس کا اصطلا حی کا نام انہوں نے نسمہ رکھا ہے ۔

شاہ ولی اللہ نے یہ بات واضح دلیل کے ساتھ بتا ئی ہے کہ اصل انسان نسمہ یعنی AURA ہے ۔ جتنی بیماریاں ، الجھنیں ، پر یشانیاں انسان کے اوپر آتی ہیں وہ نسمہ میں ہو تی ہیں۔ گوشت پو ست سے مر کب خالی جسم میں نہیں ہو تیں ۔ البتہ نسمہ کے اند ر موجود کسی بیماری یا پریشانی کا مظاہرہ جسم پر ہو تا ہے یعنی جسم درا صل ایک اسکرین ہے اور نسمہ فلم ہے فلم میں سے اگر داغ دھبوں کو دور کر دیا جا ئے تو اسکرین پر تصویر واضح اور صاف نظر آتی ہے باالفاظ دیگر اگر نسمہ کے اندر سے بیماری کو نکال دیا جا ئے تو جسم خود بخود صحت مند ہو جائے گا ۔

شاہ ولی اللہ نے اس بات کی بھی تشریح کی ہے کہ آدمی اطلا عات ، انفا رمیشن اور خیالات کا مجمو عہ ہے ۔صحت مند خیالات پر سکون زندگی کا پیش خیمہ ہیں ۔اس کے بر عکس اضمحلال ، پریشانی ،اعصابی کشاکش ، دماغی کشمکش اور نت نئی بیماریاں خیالات میں پیچیدگی پر اگند گی اور تخریب کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں ٹیلی پیتھی چوں کہ انفارمیشن ، خیالات یا اطلاع کو جاننے کا نام ہے اس لئے یہ علم سیکھ کر کو ئی بندہ خود بھی الجھنوں اور پر یشانیوں سے محفوظ رہتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کر نے کے قابل ہو جا تا ہے ۔

ٹیلی پیتھی کی علمی تو جیہہ کے سلسلے میں ہم نے اس بات کی وضا حت کی ہے کہ کا ئنات میں موجود ہر شئے  کا قیام لہروں پر ہے۔ بالفاظ دیگر کائنات میں موجود ہرشے کی  زندگی  لہروں پر  رواں دواں ہے ۔اورا ن لہروں کی معین مقدارو ں سے الگ الگ مخلو ق تخلیق پا تی ہے ۔معین مقداروں کے ساتھ کہیں یہ لہریں لکڑی بن جا تی ہیں کہیں لو ہا ، کہیں پا نی ۔

مثال : ہم پا نی کو دیکھتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ یہ پا نی ہے جبکہ ہمارے جسم پر یا ہمارے دما غ پر پا نی کا کو ئی اثر مر تب نہیں ہو تا یعنی ہمارا دماغ بھیگتا نہیں  ہے۔اسی طر ح ہم پتھر کو پتھر کہتے ہیں جب کہ پتھر کا وزن ہما را دماغ محسوس نہیں کر تا ۔ بات وہی ہے کہ پا نی کے اندر کا م کر نے والی لہریں ٹیلی پیتھی کے اصول پر جب ہمارے دماغ پر محسوس ہو تی ہیں تو ہم اس کو پانی کہتے ہیں ۔

کسی چیز سے فا ئدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر کام کر نے والے اوصاف اس کی حقیقت اور اس کی ما ہئیت سے وقوف حاصل ہو اور وقوف سے مراد یہ ہے کہ ہمیں صر ف لہروں کے علم سے واقفیت ہو بلکہ ہم یہ بھی جا نتے ہوں کہ لہریں منجمد نہیں ہو تیں وہ متحرک ہو تی ہیں اور ان کی ہر حر کت زندگی کے اندر کام کر نے والاایک تقاضا ہے اور ان تقاضوں سے زندگی کے اجزاء مر تب ہو تے ہیں ہر لہر اپنے اندر ایک وصف رکھتی ہے اوراس وصف کا نام ہم طاقت(FREQUENCY) رکھتے ہیں۔ کسی طا قت سے فا ئدہ اٹھا نا اس وقت ممکن ہے جب ہم اس کے استعمال سے واقف ہوں اسی وقوف کو اللہ تعالیٰ نے حکمت کا نام دیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

‘’اور ہم نے لقمان کو حکمت دی تا کہ وہ اسے استعمال کر ے اور جو لو گ اس سے استفا دہ کرتے ہیں انہیں اس سے فا ئدہ پہنچتا ہے اور جو لوگ کفران کر تےہیں وہ خسارے میں رہتے ہیں۔"

قرآن پاک پو ری نو ع انسانی کے لئے منبع ہدا یت ہے ،جو لو گ حکمت کے قانون میں تفکرکر تے ہیں اس کی ما ہیئت میں اپنی تمام ذہنی صلا حیت مر کو ز کر دیتے ہیں ۔ ان کے اوپر طاقت کے استعمال کا قانون منکشف ہو جا تا ہے ۔ اور نئی سے نئی ایجادات مظا ہر بن کر سامنے آتی رہتی ہیں۔کبھی استعمال کا یہ قانون ایٹم بن جا تا ہے اور کبھی ریڈیو ، ٹی وی کے روپ میں جلوہ گر ہو تا ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

‘’اور ہم نے لو ہا نا زل کیا اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فا ئدے رکھ دئیے ۔  “

غو روفکر کا تقاضا ہے اور اپنی  بےبضا عتی پر آنسو بہا نے کا  مقام ہے کہ مو جو دہ سائنس کی ہر تر قی میں لو ہے کا وجود زیر بحث آتا ہے ۔جن لو گوں نے لو ہے کی خصوصیات اور اس کے اندر کا م کرنے والی لہروں کو تلا ش کر لیا ان کے اوپر یہ راز منکشف ہو گیا کہ بلا شبہ لو ہے میں نو ع انسانی کے لئے بے شمار فوائد مضمر ہیں ۔

المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو محض ایصال ثواب اور حصول بر کت کا ذریعہ بنا لیا اور قرآن پاک میں تسخیر \ کا ئنات سے متعلق  جو فارمولے بیان ہوئے ہیں ان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جن لوگون نے تسخیرِ کائنات سے متعلق فا رمولوں کے رموز نکات پر ریسرچ کی اور اس کوشش میں اپنی زندگی کے ما ہ سا ل صرف کر دئیے انہیں اللہ تعالیٰ نے کا میابی عطا کی    ؎

خرد کے پاس خبر کے سواکچھ اور نہیں             تر اعلاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔