Topics
مرہٹہ راجہ رگھو راؤ
ان سے غیر معمولی عقیدت رکھتاتھا۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کوئی درخواست کرتا
توا س طرح جیسے دیوتاؤں کے حضور میں۔ ایک مرتبہ انہوں نے راجہ کے مندر کا بت توڑ ڈالا
۔ پجاریوں نے شور مچادیا۔ لیکن راجہ صورتِ حال سے بالکل متاثر نہیں ہوا۔ محل والوں
کی شکایت پر راجہ نے مسکراکر فقط ایک جملہ کہا۔" باباصاحبؒ بھی دیوتا ہیں۔ یہ
معاملہ دیوتاؤں کا ہے، آپس میں خود نمٹ لیں گے۔ ہماراتمہارا بولنا بے ادبی ہے۔"
اس جملہ سے محض راجہ کی عقیدت کا ہی نہیں اس طرزِ فکر کا بھی اندازہ ہوتاہے جو روحانی
شخصیتوں کے بارے میں راجہ کے ذہن میں تھی۔ جو لوگ روحانی قدروں سے کچھ بھی مانوس ہیں
وہ اتنا ضرور جا ن سکتے ہیں کہ راجہ مخفی علوم سے مس رکھتاتھا اور اس کے اندرفیضان
حاصل کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ یہاں وہ چند باتیں پیش کر نا بھی ضروری ہیں جو میری
موجودگی میں راجہ اورنانا رحمۃ اﷲعلیہ میں ہو اکرتی تھیں۔ ان اوقات میں کوئی اورصاحب
بھی سوال کرلیا کرتے اور پوری مجلس جواب سے مستفیض ہوتی۔ ایک مرتبہ مہاراجہ نے سوال
کیا۔ " بابا صاحبؒ ! ایسی مخلوق جونظر نہیں آتی مثلاً فرشتہ یا جنات ، خبر متواتر
کی حیثیت رکھتی ہے۔ جتنی آسمانی کتابیں ہیں ان میں اس قسم کی مخلوق کے تذکرے ملتے ہیں۔
ہر مذہب میں بدروحوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے لیکن عقلی اور علمی توجیہات
نہ ہونے سے ذی فہم انسانوں کو سوچنا پڑتاہے۔ وہ یہ کہتے ہوئے رکتے ہیں کہ ہم سمجھ گئے۔
تجربات جو کچھ زبان زد عام ہیں، وہ انفرادی ہیں، اجتماعی نہیں۔ آپ اس مسئلہ پر کچھ
ارشاد فرمائیں۔"
نانا رحمۃاﷲ علیہ نے
اس باب میں جو کچھ فرمایا وہ فقط تبصرہ نہیں بلکہ میرے اندازے میں ایسے الہامات کا
مجموعہ ہے، قدرت نے ان کی ذات کو جن کا مرکز بنایا تھا۔ صاحبِ فراست انسانوں کے لئے
یہ ملفوظات حد درجہ محلِ تفکر ہیں۔ ان کے جواب سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ قدرت اوران
کے ذہن کی سطح قریب قریب ایک ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مسئلہ کی وضاحت جن خیالات
کے ذریعے کی گئی ہے وہ قدرت کے رازوں میں کس طرح سمائے ہوئے ہیں۔ جس وقت یہ سوال کیا
گیا۔ نانا تاج الدینؒ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہ اوپر تھی۔ فرمانے لگے۔ "میاں
رگھو راؤ! ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں، ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں، شاید ہی
کوئی رات ایسی ہوجوکہ ہماری نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھتی ہوں۔بڑے مزے کی بات ہے،
کہنے میں یہی آتا ہے کہ ستارے ہمارے سامنے ہیں، ستاروں کو ہم دیکھ رہے ہیں،ہم آسمانی
دنیاسے روشناس ہیں۔ لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور ماہ وانجم کی کون سی دنیاسے روشناس
ہیں۔ اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں قیاس آرائی سے زیادہ نہیں
ہوتا۔ پھر بھی سمجھتے یہی ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ زیادہ حیرتناک بات یہ ہے کہ انسان
کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو یہ تو یہ قطعاً نہیں سوچتاکہ اس دعوےٰ کے اندر حقیقت ہے یا
نہیں فرمایا۔" جو کچھ میں نے کہا اسے سمجھو، پھر بتاؤ کہ انسان کا علم کس حد تک
مفلوج ہے۔ انسان کچھ نہ جاننے کے باوجود اس کا یقین رکھتاہے کہ میں بہت کچھ جانتاہوں۔
یہ چیزیں دورپرے کی ہیں۔ جو چیزیں ہر وقت انسان کے تجربے میں ہیں۔ ان پر بھی نظر ڈالتے
جاؤ۔ دن طلوع ہوتاہے۔ دن کا طلوع ہونا کیا شئے ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ طلوع ہونے کا مطلب
کیا ہے ہم نہیں جانتے۔ دن رات کیا ہیں؟ اس کے جواب میں اتنی بات کہہ دی جاتی ہے کہ
یہ دن ہے۔ اس کے بعد رات آتی ہے۔ نوعِ انسانی کایہی تجربہ ہے۔
ٍ میاں رگھوراؤ، ذرا
سوچو کیا سنجیدہ طبیعت انسان اس جواب پر مطمئن ہوجائے گا؟ دن رات ، فرشتے نہیں ہیں،
جنات نہیں ہیں، پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فردواحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تم
اتنا کہہ سکتے ہو کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے ، اس لئے قابلِ یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا
بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر بھی کام کرتی ہے۔ اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے
تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی۔ نگاہ اور فکر کا عمل ظاہر ہے۔ دراصل سارے
کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض ایک گونگا ہیولیٰ ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں
آتے ہیں۔ تم نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کرلو۔ سب کے سب گونگے، بہرے اوراندھے ہیں۔ تفکر
ہی حواس کو سماعت اوربصارت دیتاہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ حواس تفکر سے الگ کوئی چیز
ہے حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر
ہے۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہذا لقیاس ہرذی ہوش تفکرہے۔
ٍ فرمایا کہ اس گفتگو
میں ایک ایسا مقام آجاتاہے جہاں کائنات کے کئی رازمنکشف ہوجاتے ہیں۔ غور سے سنو، ہمارے
تفکر میں بہت سی چیزیں ابھرتی رہتی ہیں۔ دراصل وہ باہر سے آتی ہیں۔ انسان کے علاوہ
کائنات میں اور جتنے تفکر ہیں جن کا تذکرہ ابھی کیا گیا ہے۔ فرشتے اورجنات۔ ان سے انسان
کا تفکراسی طرح متاثر ہوتارہتاہے جس طرح انسان خود اپنے تفکر سے متاثر ہوتاہے۔ قدرت
کا چلن یہ ہے کہ وہ لا متناہی تفکر سے تناہی تفکر کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔ پوری کائنات
میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہو تو کائنات کے افراد کا یہ درمیانی رشتہ کٹ جائے
۔ ایک تفکر کا دوسرے تفکر کو متاثر کرنا بھی قدرت کے اس طرزِ عمل کا ایک جزوہے۔ انسان
پابہ گل ہے، جنات پابہ ہیولیٰ ہیں۔ فرشتے پابہ نور۔یہ تفکر تین قسم کے ہیں اور تینوں
کائنات ہیں۔ اگر یہ تینوں مربوط نہ رہیں اور ایک تفکر کی لہریں دوسرے تفکر کو نہ ملیں
توربط ٹو ٹ جائے گا اور کائنات منہدم ہوجائے گی۔
ثبوت یہ ہے کہ ہماراتفکر
ہیولیٰ اورہیولیٰ قسم کے تمام جسموں سے فکری طورپر روشناس ہے۔ ساتھ ہی ہمارا تفکر نور
اور نور کی ہر قسم سے بھی فکری طورپر روشناس ہے حالانکہ ہمارے اپنے تفکر کے تجربات
پابہ گِل ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوگئی کہ ہیولیٰ اورنور کے تجربات اجنبی تفکر سے ملے
ہیں۔
عام زبان میں تفکر کو
انا کا نام دیا جاتاہے اور انا یاتفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتاہے کہ جن کو مجموعی
طورپر فرد کہتے ہیں۔ اس طرح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اورذرے بھی۔ ہمارے شعور میں یہ
بات یاتو بالکل نہیں آتی یابہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ذروں اور تمام مخلوق
سے ہمارا تبادلۂ خیال ہوتا رہتاہے۔ ان کی انا یعنی تفکر کی لہریں بھی بہت کچھ دیتی
ہیں اورہم سے بہت کچھ لیتی بھی ہیں۔ تمام کائنات اس قسم کے تبادلۂ خیال کا ایک خاندان
ہے۔ مخلوق میں فرشتے اور جنات ہمارے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تفکر کے اعتبار سے
ہمارے زیادہ قریب ہیں۔ اورتبادلۂ خیال کے لحاظ سے ہم سے زیادہ مانوس ہیں۔"
نانا تاج الدین اس وقت
ستاروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے کہکشانی نظاموں اورہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ
ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اوران کی آبادیوں سے
ہمیں وصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی
بڑی شعاعیں خیالات کے لاشمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویرخانوں کو ہم اپنی
زبان میں توہّم ، خیال، تصوراورتفکر وغیرہ کانام دیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ
ہماری اپنی اختراعات ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک
نقطۂ مشترک رکھتی ہیں۔ وہی نقطۂ مشترک تصویر خانوں کو جمع کر کے ان کا علم دیتاہے۔
یہ علم نوع اورفرد کے شعور پر منحصر ہے۔ شعور جو اسلوب اپنی انا کی اقدار کے مطابق
قائم کرتاہے تصویرخانے اس ہی اسلوب کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔
اس موقع پر یہ بتا دینا
ضروری ہے کہ تین نوعوں کے طرزِ عمل میں زیادہ اشتراک ہے۔ ان ہی کا تذکرہ قرآنِ پاک
میں انسان، فرشتہ اورجنات کے نام سے کیاگیاہے۔ یہ نوعیں کائنات کے اندر سارے کہکشانی
نظاموں میں پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسا نظام قائم کیاہے جس میں یہ تین نوعیں تخلیق
کا رکن بن گئی ہیں۔ ان ہی کے ذہن سے تخلیق کی لہریں خارج ہوکر کائنات میں منتشر ہوتی
ہیں اور جب یہ لہریں معین مسافت طے کرکے معین نقطہ پر پہنچتی ہیں تو کائناتی مظاہر
کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔