Topics
یاد
گار حسین ، کر چی۔۔۔
۲۹۔
اکتوبر : مراقبہ میں کچھ دیر کے لئے نور کی بارش کا تصور بند ھا اور پھر بدن کو
جھٹکے لگنے لگے ۔ا یسا محسوس ہو ا جیسے دن نکلا ہوا ہے اور چا روں طر ف رو
شنی پھیلی ہو ئی ہے ۔
۳۰۔
اکتو بر ایک روشن دائرہ آیا ۔ اس کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسےکہ نگا ہوں کے سامنے سے پردے ہٹتے جارہے ہیں
۔ رو شن دائرے میں مختلف منا ظر متحرک نظر آئے مشق کے بعد لیٹا تو محسوس ہوا
آسمان پر با دل چھا ئے ہو ئے ہیں ۔ کا لے سیاہ بادل اور سفید رنگ بادل آکر ان
میں شامل ہو رہے ہیں ۔ ان با دلوںمیں سے سفید شعاعیں نکلنے لگیں ۔اور ان کا رنگ تبدیل
ہو کر سنہری ہو گیا اگلے دن نیو کراچی گیا تو مغرب سے پہلےوہ ہی منظر دیکھا کہ
آسمان پر بادل چھا ئے ہو ئے ہیں ۔اور سورج ان کے پیچھے چھپا ہوا ہے اور سورج کی
کر نوں کی وجہ سے با دلوں میں سنہری شعاعیں نکل رہی ہیں۔
۴ نومبر : دیکھا کہ ایک مزار ہے جس کا گنبد سفید ہے اور
نور اس پر دھا رے کی صورت میں بر س رہا ہے خانہ کعبہ کی جھلک بھی نظر آئی پھر اس
کے بعد دیکھا کہ دور ایک چراغ جل رہا ہے یہ منظر آہستہ آہستہ قریب آتا گیا اور
میں نے دیکھا کہ ایک موم بتی جل رہی ہے ۔ایک عما رت نظر آئی اور پھر ایک
میناردکھا ئی دیا ۔کچھ لوگ نظر آئے ان میں سے ایک شخص نے ایک عصا میری طر ف بڑھا
یا لیکن مجھے اسے لینے میں جھجک ہو رہی تھی اور پھر وہ عصا لے لیا ۔
۵ ۔ نو مبر : سانس
کی مشق کے دو ران رو شنی کی ایک پٹی قوس قزح کی شکل میں نظر آئی اور پھر کئی رنگ
کی پٹیاں نظر آتی رہیں زرد ، سرخ اور نیلگوں پھر ایسا محسوس ہوا کہ نور کا دھا راا
ٓنکھوں کے سامنے آنے والا ہے ۔
۶۔
نومبر : مشق کے دو ران جسم کو کئی جھٹکے لگے اور اتنی تیز رو
شنی پیدا ہو ئی جیسے دن نکل آیا ہو میں نے اس رو شنی میں دیکھا کہ ایک قطار میں
کچھ بزرگ حضرات بیٹھے ہو ئے ہیں ۔ پھر میں
نے خود کو ایک نہا یت خوبصورت باغ میں پا یا ۔اور باغ میں ہرے بھرے پو دے اور پھل
دار درخت لگے ہو ئے تھے ۔کسی نامعلوم شخص نے مو تیاکا ایک پو دا جڑ سے اکھاڑ کر
میری طر ف بڑھا یا اور کہا کہ اسے سونگھو ۔ میں نے اسے سونگھاتو ایک عجیب قسم کی
خوشبو محسوس کی ۔ وہ خوشبو نہا یت تیز تھی او راس کا اثر حیرت انگیز تھا ۔ چند
لمحوں پہلے میرے دماغ پر جو بو جھ تھا وہ یکلخت ختم ہو گیا اور میں نے خود کو پر
سکون محسوس کیا ۔
۱۲۔
نو مبر ٹیلی پیتھی کی مشق کے بعد لیٹا تو جسم کی حرکت ساکت ہو گئی ۔ دوسرے لمحے
میں نے خود کو خلا میں موجود پا یا ۔ رنگ و روشنی کی با رش ہو رہی تھی اورمیں اس
بارش کی زد میں تھا ۔ میں نے رنگ و رو شنی کی اس بارش کی چوٹ کو اپنے جسم پر محسوس
کی ۔ میں نے نیچے کی جانب دیکھا تو نظر آیا کہ با رش ایک نہر میں جمع ہو رہی ہے
۔اس وقت تیز ہوا چلنے لگی اور کہیں دور سے گھنٹیو ں کی آواز سنائی دی جو کانوںکو
بہت بھلی لگ رہی تھی ۔
بند
آنکھوں کے سامنے رو شنی کی لکیروں کا جال پھیل گیااور دل کی طرح ایک بڑی ڈبیا نظر
آئی جس میں کھڑکی کی جگہ دروازہ بنا ہوا تھا یہ دروازہ با ر بار کھلتا اور طر ح
طر ح کے منا ظر دکھائی دیتے ۔ دیکھا کہ ایک تا لا ب ہے اس میں ایک مچھلی تڑپ رہی
ہے ۔ مچھلی کو تڑپتے دیکھ کر یہ بات ذہن میں آئی کہ پا نی کم ہے جس کی وجہ سے
مچھلی غوطہ لگا تی ہے اور فر ش سے ٹکرا جاتی ہے ۔تالاب کے اندر دیواروں پر
بیل بو ٹے بنے ہوئے تھے ۔
۱۵۔
نومبر : ایک رو شن دائرے میں خانہ کعبہ نظر آیا ۔ اس کے چاروں
طر ف لوگ کھڑے ہو ئے تھے اور آسمان سے باران ِ رحمت کی طر ح نور چا روں طر ف لوگ کھڑے ہوئے تھے اور آسمان سے بارانِ رحمت کی
طرح نور چاروں طرف پھیل رہا تھا۔
محمد
صفدر تابانی ، شیخو پورہ۔
مراقبہ
میں دیکھا کہ واقعتاً میں بارش میں بھیک
رہا ہوں۔پھر یہ بوندیں اولوں کی طرح سفید موتی بن کر گرنے لگیں ۔ جب یہ موتی میرے
جسم سے ٹکرانے لگے ، محسوس ہوتاتھا حیسے ان کا مادی وجود نہیں ہے۔بلکہ یہ رو شنیوں
سے بنے ہو ئے ہیں ۔ لیکن میں نے نور کے ان قطروں کا لمس ضرور محسوس کیا ہے ۔ایک
اور فر ق تھا اور وہ یہ کہ پا نی کے قطروں سے ٹھنڈک محسوس ہو تی ہے لیکن ان بوندوں
کے گر نے سے مستی و سر ور کا احساس جا گ جا گ جا تا تھا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔