Topics
جمشید
احمد دمحمد صفدر ، روالپنڈی ۔۔۔
سوال
: آپ نے ٹیلی پیتھی کی جو مشقیں تجویز کی ہیں ان میں سے تصور کو مر کز ی حیثیت
حاصل ہے ۔تصور سے آپ کی کیا مراد ہے ۔ اور تصور کی صحیح تعریف کیا ہے ؟ کیا مشق
کے دوران خود کو تر غیبات دینا ہے کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ رو شنی اور نور کا
سمندر ہے ساری کا ئنات اس نور میں ڈو بی ہو ئی ہے یا تصور سے کچھ اور مر اد ہے ؟
جواب : روز مر ہ کا مشاہدہ یہ ہے کہ ہم جب کسی چیز کی طرف
متوجہ ہوتے ہیں تو وہ چیز یا اس کے اندر
معنویت ہمارے اوپر آشکار ا ہو جا تی ہے ۔کو ئی چیز ہمارے سامنے ہے لیکن ذہنی طور
پر ہم اس کی طر ف متوجہ نہیں ہیں تو وہ چیز ہمارے لئے بسا اوقات کو ئی حیثیت نہیں
رکھتی ۔اس کی مثال یہ ہے کہ ہم گھر سے دفتر جا نے کے لئے ایک راستہ اختیار کر تے
ہیں جب ہم گھر سے روا نہ ہو تے ہیں تو ہمارے ذہن کی مر کز یت صرف دفتر ہو تا ہے
یعنی یہ کہ ہمیں وقت مقررہ پر دفتر پہنچنا ہے ۔وہاں اپنی ذمہ داریاں پو ری کر نی
ہیں اب راستے میں بے شمار مختلف النوع چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں اور انہیں ہم
دیکھتے ہیں لیکن دفتر پہنچنے کے بعد کو ئی صاحب ہم سے سوال کریں کہ راستے میں آپ
نے کیا کچھ دیکھا تو اس بات کا ہمارے پاس ایک ہی جواب ہوگا کہ ہم نے دھیان نہیں
کیا حالانکہ چیزیں سب نظر کے سامنے ے گزریں لیکن چو نکہ کسی بھی چیز میں ذہنی مر
کز یت قائم نہیں تھی اس لئے حا فظہ پر اس کا نقش مر تب نہ ہو سکا۔
قانون
یہ بناکہ جب ہم کسی چیز کی طر ف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ چیز اوراس چیز کے اندر معنو
یت ہمارے اوپر منکشف ہو جا تی ہے ۔ ہم کوئی کتاب پڑھتے ہیں جو بہت دلچسپ ہے۔ دل چسپی
کی بنا پر کئی گھنٹے گزر جا تے ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب کا مطا
لعہ چار یا پا نچ گھنٹے کیا ہےتو ہمیں
یقین نہیں آتا لیکن چونکہ گھڑی ہمارے سامنے
ہے اس لئے ہم یقین کر نے پر مجبور ہیں۔ اس کے بر عکس ایک ایسی کتاب آپ پڑھتے ہیں
جس کا مضمون آپ کی دلچسپی کے بر عکس ہے تو پا نچ دس منٹ پڑھنے کے بعد ہی طبیعت پر
بوجھ محسوس ہو نے لگتا ہے اور با لآخر وہ کتاب چھو ڑ دیتے ہیں اس مثال سے دو سرا
قانون یہ بنا کہ ذہنی مر کز یت کے ساتھ اگر دلچسپی بھی قائم ہو تو کام آسان ہو جا
تا ہے ۔جہان تک دلچسپی کا تعلق ہے اس کی حدود اگر متعین کئے جا ئیں تو وہ دو رخ پر
قائم ہیں جن کو عرف عام میں ذوق شوق کہا جا تا ہے ۔یعنی ایک طر ف کیسی چیز کو تلاش
کرنے کی معنویت کو تلاش کر نے کی جستجو ہے اور دو سری طرف اس جستجو کے نتیجے میں
کو ئی چیز حاصل کر نے کا شوق ہے ۔
ذوق
شو ق کے ساتھ جب کو ئی بندہ کسی راستے کو اختیار کر تا ہے تو وہ راستہ دین کا ہو
یا دنیا کا، اس کے نتا ئج مثبت مر تب ہو تے ہیں ۔ ٹیلی پیتھی کی مشقوں میں تصور کا
منشاء یہی ہے کہ آدمی ذوق شوق کے سا تھ ذہنی مر کز یت او ر اس کے نتیجے میں با
طنی علم حاصل کر ے چو نکہ یہ علم کتا بی علم نہیں ہے اس لئے اس علم کو سیکھنے کے لئے ایسے طر یقے اختیار
کر نا لازم ہے جو مرو جہ طر یقوں سے با لا ہوں روح نور ہے رو شنی ہے رو حانی علوم
بھی نور ہے ۔نور یا لہروں کا عالم نور یا لہروں کے ذریعے ہی منتقل ہو سکتا ہے۔ ہم
جب نور کا تصو ر کر تے ہیں تو نور کی لہریں یا علم رو حانیت کی روشنیاں ہمارے ذوق
شو ق کے مطابق ہمارے اندر منتقل ہو نے لگی ہیں ۔
تصور
کی مشقوں سے بھر پور فوائد حاصل کر نے کے لئے ضروری ہے کہ صاحب مشق جب آنکھیں بند
کر کے تصور کر ے تو اسے خود سے اور ماحول سے بے نیاز ہو جا نا چا ہئے اتنا بے نیاز
کہ اس کے اوپرسے بتد ریج ٹائم اینڈاسپیس کی گرفٹ ٹوٹنے لگے یعنی اس تصو رمیں اتنا
انہماک ہو جا ئے کہ وقت گزرنے کے متعلق احساس نہ رہے ۔ کتاب کا دلچسپی مضمون پڑھنے
کی مثال پیش کی جا چکی ہے ۔
تصور
کے ضمن میں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اگر آپ نورکا تصورکر رہے ہیں تو
آنکھیں بند کر کے کسی خاص قسم کی روشنی کو دیکھنے کی کوشش نہ کر یں ۔بلکہ صرف نور
کی طر ف دھیان قائم کر یں نور جو کچھ بھی ہے جس طر ح بھی ہے ازخود آپ کے سامنے
آئے گا۔ اصل مدعا کسی ایک طر ف دھیان کر کے ذہنی یکسوئی حاصل کر نا اور منتشر
خیال سے نجات پا نا ہے ۔جس کے بعد با طنی علم کڑی در کڑی ذہن پر منکشف ہو نے لگتا
ہے ۔ تصور کا مقصد اس بات سے کا فی حد تک پو را ہو تا ہے جس کو عرف عام میں "بے
خیال ہو نا " کہا جا تا ہے ۔
اگر
ہم کھلی یا بند آنکھوں سے کسی چیز کا تصور کر تے ہیں اور تصور میں خیالی تصویر
بنا کر اُسے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ عمل ذہنی یکسوئی کے احا طہ میں نہیں
آتا ۔ ذہنی یکسوئی سے مراد یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر دیکھنے اور سننے کے عمل
سے بے خبر ہو جا ئے قانون یہ ہے کہ آدمی کسی لمحے بھی حواس سے ما ورا ء نہیں ہو
سکتا ْ جب ہمارے اوپر شعوری حواس کا غلبہ نہیں رہتا تو میکا نکی(AUTOMATIC) طور پر لاشعوری حواس متحرک ہو جا تے ہیں
اور لا شعوری حواس سے متعارف ہو نا ہی ما ورا ئی علوم کا عرفان ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔