Topics

ٹیلی پیتھی کیا ہے ؟


سا ئنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے اچھی طر ح رو شناس ہے ۔ کہکہشانی اور شمسی نظاموں کی رو شنی سے ہماری زمین کا تعلق کیا ہے اور اس نظاموں کی رو شنی زمین کی نوعوں انسان ، حیوانات ، نباتات اور جمادات پر کیا اثر کر تی ہے یہ مرحلہ سائنس کے سامنے آچکا ہے ۔ سائنس دانوں کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ شمسی نظاموں کی رو شنی حیوانات کے اندر ، نباتات کے اندر اور جمادات کے اندر کس طر ح اور کیا عمل کر تی ہے اور کس طر ح جانوروں ، انسانوں ، نبا تات اور جمادات کی کیفیات میں ردوبدل کر تی رہتی ہے ، سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر ہر موجود شئے کی بنیاد کا قیام لہر اور صرف لہر پر ہے ۔ ایسی لہر جس کو رو شنی کے علاوہ اور کو ئی نام نہیں دیا جا سکتا ۔

ٹیلی پیتھی میں ایسے علوم سے بحث کی جا تی ہے جو حواس کے پس پر دہ شعور سے چھپ کر کام کر تی ہیں ۔ یہ علم ہمیں بتا تا ہے کہ ہمارے حواس  کی گرفت محض مفروضہ ہے ۔

مثال :

ہم جب کسی  سخت چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس چیز کی سختی کا علم ہو جا تا ہے ۔ حالانکہ ہمارے دماغ کے اوپر وہ سخت چیز ٹکراتی نہیں ہے سائنس کے نقطہ نظر اور مخفی علوم کی رو شنی میں ہر شئے دراصل شعاعوں یا لہروں کےمجموعہ کا نام ہے ۔ جب ہم کسی لکڑی یا لوہے کی طرف کسی بھی طر یقہ سے متوجہ ہو تے ہیں تو لکڑی یا لوہے کی شعاعیں ہمارے دماغ کو با خبر کر دیتی ہیں ۔ با خبری کے لئے یہ ضروری نہیں کہ لکڑی یا لوہے  کی سختی کو چھوکر محسوس کیا جا ئے ۔

غور طلب بات یہ ہے کہ شعاع یا لہراپنے اندر سختی رکھتی ہے اور نہ وزن ۔پھر ہمیں یہ علم کیسے ہو تا ہے فلاں چیزسخت ہے یا فلاں چیز نرم ہے ۔ ہم پا نی کو دیکھتے ہی چھو تے ہیں تو فوراً ہمارے دماغ میں یہ بات آجا تی ہے کہ یہ پا نی ہے حالانکہ ہمارے دماغ پر پانی کا کو ئی اثر نہیں ہو تا یعنی دماغ بھیگتا نہیں ہے۔ جب ہمارا دماغ بھیگا نہیں ہے تو یہ ہم  یہ کیسے کہہ دیتے ہیں کہ یہ پانی ہے۔

رنگ کی قسمیں ساٹھ سے زیادہ دریافت ہو چکی ہے جب ہم کوئی رنگ دیکھتے ہیں تو نہ صرف اس رنگ کو ہم فو را پہچان لیتے ہیں بلکہ رنگ کے ہلکے یا تیز اثر ات سے بر اہ راست متا ثر ہو تے ہیں۔ ہرا رنگ اور ہرایالی دیکھ کر ہمیں سکون محسوس ہو تا ہے ۔ مسلسل متواتر سرخ رنگ سامنے رہنے سے ہمارے دماغ پر نا گوار  اثرات مر تب ہو تے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ اعتدال سے زیادہ سرخ رنگ کے اثرات دماغ کو غیر متوازن بھی کر دیتے ہیں ۔

حقائق یہ ہے کہ ہر شئے الگ  اورمعین مقداروں کے ساتھ وجود پذیر ہے ۔ لہروں یا شعاعوں کی معین مقداریں ہی ہر شئے کو ایک دو سرے سے الگ کر تی ہیں اور ہر شئے کی لہریں یا شعاعیں ہمیں اپنے وجود کی اطلاع فراہم کر تی ہیں ۔کہنا یہ ہے کہ ہر موجودیا شئے دراصل لہروں یا شعاعوں کا دو سرا نام ہے اور ہر شئے کی ہر لہر یا شعاع ایک دوسرے الگ یا مختلف ہے ۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو جا ئے کہ انسان ، حیوانات اور جمادات میں کس کس قسم کی لہریں کام کر تی ہیں اور ان لہروں پر کس طر ح کنٹرول حاصل کیا جا تا ہے ۔ تو ہم ان چیزوں کو متا ثر کر سکتے ہیں ۔ لہر یا شعاع ایک جا ری و ساری حرکت ہے ۔ اور ہر شئے کے اندر لہروں یا شعاعوں کی حرکت کاایک فا رمولا ہے ۔

 ہمارے اردگر د بہت سی آواز یں پھیلی ہوئی ہیں یہ آوازیں بھی لہروں کی شکل میں موجود ہیں ان کے  قطر(WAVELENGTH) بہت چھوٹے اور بہت بڑے ہوتے ہیں ۔ سائنسدانوں نے اندازہ لگا یا ہے کہ چار سو قطر سے نیچے کی آوازیں آدمی نہیں سن سکتااور ایک ہزار چھ سو قطر سے زیادہ اونچی آوازیں بھی آدمی نہیں سن سکتا ۔ چار سو قطر سے نیچے کی آوازیں بر قی رو لہر کے ذریعے سنی جا سکتی ہے اور ایک ہزار چھ سو قطرسے اوپر کی آوازیں بھی بجز بر قی رو کے سننا ممکن نہیں ۔

آنکھ کے پر دوں پر جو عمل ہو تا ہے وہ رو یا لہر سے بنتا ہے آنکھ کی حس جس قد ر تیز ہو تی ہے اتنا ہی وہ روکو زیادہ قبول کر تی ہے اور اتنا ہی رو میں امتیاز کر سکتی ہے ۔ ٹیلی پیتھی کا اصل اصول یہی ہے کہ مشق کے ذریعے آنکھ کی حس کو اس قدر تیز کر دیا جا ئے کہ صاحب ِ مشق رو اور حواس کی لہروں میں امتیاز کر لے ۔ آنکھیں بھی حواس میں شامل ہیں لیکن یہ ان چیزوں کا جو با ہر سے دیکھتی ہیں زیادہ اثر قبول کر تی ہیں ۔ با ہر کا عکس آنکھوں کے ذریعے اندرونی دما غ کو متاثر کر تے ہیں ۔ اس کی شکل یہ ہو تی ہے کہ حواس تا زہ یا افسر دہ ہو جاتے ہیں کمزور ہو جاتے ہیں یا طا قتور۔ان ہی با توں پر دماغی کام کا انحصار ہو تا ہے۔

ہم یہ بتا چکے ہیں  کہ ایک ہزار چھ سو قطر سے نیچے کی آوازیں بر قی رو کے ذریعے سنی جا سکتی ہیں اور یہ اس لئے ممکن ہے کہ ہمارے تمام حواس و خیالات بجا ئے خود " بر قی رو " ہیں اگر ہمارے خیالات بر قی رو سے الگ کو ئی چیز ہو تے تو بر قی رو کو قبول ہی نہ کر تے ۔ ٹیلی پیتھی میں یہی خیالات جو دراصل بر قی رو میں دو سرے آدمی کومنتقل کئے جا تے ہیں ۔ خیالات منتقل کر نے کے لئے اس با ت کی ضرورت پیش آتی ہے کہ یہ روکسی ایک ذرے پر یا کسی ایک سمت میں یا کسی ایک رخ پر مر کو ز ہو جا ئے اگر یہ تھوڑی دیر بھی مر کوز رہے تو دور دراز تک اپنے اثرا ت مر تب کر تی ہیں ۔انسان کو اور ان چیزوں کو جو ذی روح نہیں سمجھی جا تیں ان کو بھی ان چیزوں کے ذریعے متا ثر کیا جا سکتا ہے ۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ با ہر نہیں دیکھتے ۔ کائنات کا ہر مظہر ہمارے اندر موجود ہے ہم سمجھتے یہ ہیں کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے سامنے  موجودہے حالانکہ خارج میں کسی شئے کا وجود محض مفرو ضہ ہے ۔ہر شئے ہمارے انر میں قیام پذیر ہے اصل بات یہ ہے کہ ہم کسی چیز کا مشاہدہ اپنے اندر کر تے ہیں اور یہ سب کا سب ہمارا علم ہے ۔اگر فی الواقع کسی شئے کا علم حاصل نہ ہو تو ہم اس چیز کو نہیں دیکھ سکتے ۔

ٹیلی پیتھی میں پہلے پہل یہ مشق کرائی جا تی ہے کہ اشیاء ہمارے اندر موجود ہیں مشق کی تکمیل کے بعد انسان یہ دیکھنے لگتا ہے کہ فلاںچیز میرے اندر موجود ہے اور مسلسل توجہ کے بعد اس چیز پر نظر ٹھہرتی جاتی ہے۔ ارتکاز توجہ کے لئے سانس کی مشق  اور مراقبہ کرایا جاتا ہے۔

نظر کا قانون:

مشقوں کا تذکرہ کر نے سے پہلے نظر کا قانون سمجھ لینا ضروری ہے ۔آدمی دراصل نگاہ ہے ۔ نگا ہ یا بصارت جب کسی شئے پر مر کوز ہو جا تی ہے تو اس شئے کو اپنے اندر جذب کر کے دماغ کی اسکر ین پر لے آتی ہے ۔اور دماغ اس چیز کو دیکھتا اور محسوس کر تا ہے۔ اور اس میں معنی پہناتا ہے ۔ نظر کا قانون یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کو اپنا ہدف بنا تی ہے تو دماغ کی اسکر ین پر اس شئے کا عکس پندرہ سیکنڈ تک قائم رہتا ہے ۔اور پلک جھپکنے کے عمل سے  یہ آہستہ آہستہ مدھم ہو کر حافظہ میں چلا جا تا ہے ۔اور دو سرا عکس دماغ کی اسکر ین پر آجا تا ہے ۔اگر نگا ہ کو کسی ہدف پر پندرہ سیکنڈ سے زیادہ مر کوز کر دیا جا ئے تو ایک ہی ہدف بار بار دما غ کی اسکرین پر وارد ہو تا ہے اور حا فظہ پر نقش ہو تا رہتا ہے ۔مثلا ً ہم کسی چیز کو پلک جھپکا ئے بغیر مسلسل ایک گھنٹے تک دیکھتے رہیں تو اس عمل سے نگاہ قائم ہو نے کا وصف دماغ میں پیوست ہو جا تا ہے ۔اور دماغ میں یہ پیو ستگی ذہنی انتشار کو ختم کر دیتی ہے ہو تے ہو تے اتنی مشق ہو جا تی ہے کہ شئے کی حر کت صاحب مشق کے اختیار اور تصرف میں آجا تی ہے اب وہ شئے کو جس طر ح چا ہے حرکت دے سکتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ نگا ہ کی مر کز یت کسی آدمی کے اندر قوت ِارادی کو جنم دیتی ہے اور قوت ارادی سے انسان جس طر ح چاہے کام لے سکتا ہے ٹیلی پیتھی کا اصل اصول بھی یہی ہے کہ انسان کسی ایک نقطے پر نگاہ کو مر کوز کر نے پر قادر ہو جا ئے ۔نگا ہ کی مر کز یت حاصل کر نے میں کو ئی نہ کو ئی ارادہ بھی شامل ہو تا ہے ۔

جیسے جیسے نگا ہ کی مر کز یت پر عبور حاصل ہو تا ہے اسی منا سبت سے ارادہ مستحکم اور طا قتور ہو جا تا ہے ٹیلی پیتھی جا ننے والا کو ئی شخص جب یہ ارادہ کر تا ہے اپنے خیال کو دوسرے آدمی کے دماغ کی اسکرین پر منعکس کر دے تو اس شخص کے دماغ میں یہ ارادہ منتقل ہو جا تا ہے۔وہ شخص اس اردے کو خیال کی طر ح محسوس کر تا ہے اگر وہ شخص ذہنی طور پریک سو ہے تو یہ خیال تصور اور احساس کے مراحل سے گزر کر مظہر بن جا تا ہے اگر اسی ارادے کو بار بار منتقل کیا جا ئے تو دماغ اگر یکسونہ بھی ہو تو یکسو ہو کر اس خیال کو قبول کر لیتا ہے اور ارتکاز توجہ سے خیال عملی جامہ پہن کر منظر عام پر آجا تا ہے ۔ ٹیلی پیتھی محض خیالات کو دو سرے تک منتقل کر نے کا علم ہی نہیں ہے بلکہ اس علم کے ذریعے ہم اپنی زندگی کا مطالعہ کر کے اپنی زندگی کو خوش آئند تصورا ت سے لبریز کر سکتے ہیں ۔زندگی خواہشات ، تمنا ؤں اور آرزوؤں کے تا نے بانے پر قائم ہے ۔

زندگی بنیادی طور پر خواہشات کے خمیر سے مر کب ہے ۔بچہ جب پیدا ہو تا ہے تو اس کے اندر پہلی خواہش بھوک کی صورت میں جلوہ گر ہو تی ہے اور جب ماں بچے کو سینے سے لگا تی ہے تو بچہ اپنی اس خواہش کی تکمیل اس طر ح کر تا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے ہی یہ عمل سیکھ کر آیا ہے ۔ خواہشات کی تکمیل کے مراحل طے کر نے کا دو سرا نام نشوونما ہے ۔خواہشات کی تکمیل دو طر ح  ہو تی ہے ۔ایک شعوری طور پر دو سرے لا شعوری طور پر ۔ شعور اور لا شعور دراصل ایک ہی ورق کے دو صفحے ہیں ۔ ایک صفحہ  پر خیالات اور تصورات کے نقوش زیادہ روشن اور واضح ہیں اس صفحہ کا نام لا شعور ہے اورجس صفحہ پر نقوش دھندلے اور کم روشن ہیں اس صفحہ کا نام شعور ہے۔ روحانیت میں یہ بات مشاہدہ کرائی جاتی ہے کہ روشن ا ور واضح خیالات میں ٹائم اسپیس نہیں ہو تا ۔غیر واضح خیالات  اور تصورات کا ہر قدم ٹائم اسپیس کے ساتھ بندھا ہوتا ہے ۔ ہم جب کسی ایک خواہش اور تکمیل کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سا منے یہ بات آتی ہے کہ ۔ خواہش کو جب الگ معنی پہنا دئیے جا تے ہیں تو اس کی ایک الگ حقیقت بن جا تی ہے مثلا ً بھوک ایک خواہش ہے اور اس کی تکمیل کا ذریعہ کچھ کھا لینا ہے ۔ایک آدمی بھوک کی تکمیل رو ٹی اور گو شت کھا کر کر لیتا ہے ۔دوسرا گو شت کے بجا ئے کسی اور غذا سے پیٹ بھر لیتا ہے ۔ شیر گھاس اور پتے نہیں کھا تا ، بکری گوشت نہیں کھا تی ۔ایک آدمی کو انتہا ئی درجہ مٹھا ئی سے رغبت ہو تی ہے ۔

اس کے بر عکس دوسرا شخص نمکین چیزیں زیادہ پسندکر تا ہے ۔اس حقیقت سے ایک فر د واحد بھی انکار نہیں کر سکتا انسان کی زندگی میں خوشی اور غم کا تعلق براہ راست خیالات و تصورات سے وابستہ ہے ۔کو ئی خیال ہمارے لئے مسرت آگیں ہو تا ہے اور کو ئی خیال انتہا ئی کر بناک ۔ ڈر خوف ، شک ، حسد،طمع ، نفر ت و حقارت ، غرور تکبر ، خود نما ئی وغیرہ وغیرہ سب خیالات کی پیداوار ہیں اس کے بر عکس محبت ، ایثار ، یقین ، انکساری اور حزن و ملال کا ہو نابھی خیالات کی کا ر فر ما ئی ہے ۔بیٹھے بیٹھے یہ خیال بجلی کی طرح کوند جا تا ہے کہ ہمارے یا ہماری اولاد کے ساتھ کو ئی حادثہ پیش آجا ئے گا ۔ حالانکہ کو ئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ لیکن یہ خیالات آتے ہی حادثات سے متعلق پوری پر یشانیاں کڑی در کڑی ہم اپنے اند ر محسوس کر تے ہیں اور اس سے متا ثر ہو ئے بغیر نہیں رہتے ۔ یہی حال خوشی اور خوش حال زندگی کا ہے ۔ جب کوئی خیال تصور بن کر ایسے نقطے پر مر کوز ہو جا تا ہے جس میں شادمانی اور خوش حالی کی تصویریں موجود ہوں تو ہمارے اندر خوشی کے فوارے ابلنے لگتے ہیں ۔

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔