Topics

شخصیت نورانی لہروں سے بنتی ہے ۔نام کا اثر

سوال: انسان کی شخصیت پر نام کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو اس کی علمی توجیہہ کیاہو سکتی ہے؟

حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

بچوں کے نام ایسے رکھنے چاہئیں جو معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اچھے ہوں۔

جواب: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم ردنہ اسفل سافلین

ترجمہ: ہم نے انسان کو بہترین صناعی صرف کر کے بنایا پھر ڈال دیا اس کو اسفل میں(کفران نعمت کے سبب)۔

انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین صناعی کا نمونہ ہے۔ اس کی شخصیت نورانی لہروں سے بنی ہے۔ اس کا ہر رجحان، ہر جذبہ، ہر صلاحیت نورانی لہروں کا مکمل شخصی تمثل (پیٹرن) ہے۔

یہ شخصی تمثل فکر و تدبیر کی ایک فعال مشین ہے اس فعال مشین کا ذہن کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے اور یہ کمپیوٹر ’’ڈیٹا‘‘ ذخیرہ بھی خود ہی تلاش کرتا ہے۔ البتہ تلاش اسی دائرہ میں کرتا ہے جس دائرہ فکر کی وہ روشنی میں ہے۔ وہ اپنے ہی ماحول کا عکس قبول کرتا ہے اور بہت سارے عکس جو اس کے ماحول میں جمع ہو جاتے ہیں ان ہی کو ’’ڈیٹا‘‘ بنا لیتا ہے۔ اب فکر و فن دونوں کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں۔

یہ فکر و فن بہت سارے عکس کا مجموعہ ہوتا ہے۔ مثلاً جب وہ سوچتا ہے اور سوچ کے تانے بانے سے تصورات کی تشکیل کرتا ہے تو علم کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ علم کی دو شکلیں ہیں۔ (۱) وجدان (۲) تعقل

یہاں سے تمام روحانی اور مادی علوم شروع ہوتے ہیں۔ انسان جس رخ پر قدم اٹھاتا ہے، ڈیٹا اسے مل جاتا ہے۔ ڈیٹا سے اچھی یا بری صورت اس کی اپنی اختراع اور ایجاد ہے۔ جس طرح کی اختراعات و ایجادات کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ اختراع و ایجاد کے سانچے کیسے بنتے ہیں، یہ بات غور طلب ہے۔

انسان کا اپنا نام سب سے پہلے سرپرست، اعزاء، احباب اور قوم کے نام دوسرے درجے پر سانچوں کی مٹی سے بنتے ہیں۔ اگر یہ مٹی لطیف، نفیس، پاکیزہ اور باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی سطح اور معیار پر پوری اترتی ہے۔ انسان بہترین صناعی ہے ورنہ اسفل میں چلا جاتا ہے۔ آیت مذکورہ میں لفظ ’’ثم‘‘ ان معانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر شخصیت کی نورانی لہروں میں ماحول سے کثافت منتقل نہیں ہوئی ہے تو انسانیت کی سطح سے گرے ہوئے افکار و اعمال کی طرف فرد کا ذہن رجوع نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی فرد کے اوپر نام کا اثر اس لئے ہوتا ہے کہ نام ماحول سے منتقل ہوتے ہیں۔ نام کے معنی اور مفہوم کی لہریں اس کے ذہن کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔


Topics


Roohani Daak (4)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔