Topics
سوال: 27دسمبر 1990ء کو رات 8بجے والدہ کی اچانک بینائی چلی گئی۔ تقریباً دو گھنٹے بعد بینائی واپس آ گئی۔ پھر انہیں نیند کی گولی دے کر سلا دیا گیا۔ 28دسمبر جمعہ کے دن صبح جب اٹھیں تو وہ اپنی یادداشت کھو چکی تھیں۔ انہیں کچھ یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔ کہاں رہ رہی ہیں۔ دن ہے کہ رات ہے۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو کوئی صدمہ ہوا ہے۔ پھر یہ مرض بڑھتا گیا۔ ایک ہی سوال بار بار کرتی تھیں۔ ان کو گھر کے کمروں اور باتھ روم تک کا ہوش نہیں تھا۔ ماہر نفسیات کے کہنے پر ہسپتال میں داخل کروا دیا۔ اس وقت اپنے پاؤں پر چل سکتی تھیں۔ ایک مہینہ ہسپتال رہیں 14جنوری کو ہسپتال سے فارغ ہوئیں تو چلنا بھی ختم ہو گیا۔ پھر مجبوراً 27جنوری کو ہسپتال میں داخل کروا دیا۔ تین دن کے بعد وہاں سے بھی یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اب ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔ ان کو Demantiaکی بیماری ہے جس میں دماغ دن بدن چھوٹا ہوتا جاتا ہے اور یہ مرض لا علاج ہے۔ اب ہومیوپیتھی علاج کروا رہے ہیں۔ مرض میں کوئی افاقہ نہیں ہے۔ ہر وقت ڈرتی رہتی ہیں۔ اکیلی نہیں رہ سکتیں۔ تمام گھر والوں کو بار بار بلاتی رہتی ہیں۔ دن کا پتہ ہوتا ہے نہ رات کا۔ پوچھتی رہتی ہیں کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ مجھے کچھ یاد کیوں نہیں رہتا وغیرہ وغیرہ۔ والدہ کی بیماری کے دوران والد صاحب کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہ بھی ان کو نہیں معلوم۔ پہلے روتی اور ہنستی نہیں تھیں مگر اب بات بات پر رونے لگتی ہیں۔ ہمارے گھر میں ویسے بھی بیماریاں بہت ہیں۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی بیمار رہتا ہے اور کاروبار میں کافی پریشانیاں ہیں۔ ہر کام میں نقصان ہوتا ہے۔
جواب: ایک صحت مند دنبہ خرید کر اس کی اون کٹوا کر الگ کر لیں اور دنبہ کو ذبح کرتے وقت یہ اون گردن کے نیچے رکھ دیں تا کہ ذبح ہونے کے بعد دنبہ کا سارا خون اون میں جذب ہو جائے۔ اون کو پھیلا کر سائے میں سکھا لیں اور عصر اور مغرب کے درمیان لے کر کوئلے دہکا کر ان کے اوپر اون ڈال کر جلا دیں۔ تھوڑی تھوڑی اون وہاں جلائیں جہاں والدہ صاحبہ رہتی ہیں۔
میری تشخیص یہ ہے کہ دماغ کے اندر خلیوں کے اوپر ورم آ گیا ہے۔ اس علاج کے ساتھ ڈاکٹری، حکیمی، ہومیوپیتھی علاج کیا جا سکتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔