Topics
سوال
: آپ نے بتایا ہے کہ اب تک جتنے اسباق لکھے گئے ہیں ان سب کا مقصد یہ ہے کہ طالب
علم کو ذہنی یکسوئی اور خیالات کی پا کیزگی حاصل ہو جا ئے کیا آپ براہ راست ٹیلی
پیتھی کی مشقیں تجو یز کر کے کو ر س کی مدت مختصر نہیں کر سکتے ؟ ٹیلی پیتھی کی مشقیں کر نے سے از خود ذہنی یکسوئی ہو جا تی
ہے تو آپ کیوں خواہ مخواہ مضمون کو طول دے رہے ہیں ؟
جواب
: انسان ان ہی حقیقتو ں کو سمجھنے اور پا لینے کی کوشش کرتا ہے جن کی بنیاد ہو تی
ہے ان میں زیادہ حقیقتیں ایسی ہیں جو موجود ہو نے کے با وجود ہمارے دائرے احساس یا
شعور میں نہیں آتیں ۔شعور کے دائرے کار میں رہ کر ہم لا کھ کوشش کر یں لیکن ہم ان
حقیقتوں کو اپنے اعصابی نظام اور گوشت ہو ست کے دماغ سے نہیں پہچان سکتے ۔ جب ہم
ان اٹل حقیقتوں کی چھان بین کر تے ہیں تواس ادراک کی بنیاد وہ علم نہیں ہو تا جس
میں شعوری حواس اور اعصاب کا دخل ہو تا ہے ۔ اور ہماری عقل ان گتھیوں کو سلجھا نے
سے قاصر نظر آتی ہے ۔عقل عملی تجر بہ کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے جبکہ غیب میں
آباد دنیا کے رموز و نکات کا تعلق لاشعوری حواس سے ہے۔
جدید
سائنس کی رو سے آدمی ایک سوچھبیس عنا صر سے مر کب ہے ۔ آگ ، پا نی ، ہو ا،مٹی ،
ہائیدوجن ، ریڈیم ، کا ربن ، نا ئٹروجن ۔۔۔وغیرہ عرض یہ کہ جتنے بھی عنا صر مل کر
کسی ما دہ کی تخلیق و تشکیل کر تے ہیں وہ سب آدمی کے اجزائے تر کیبی میں بھی شامل
ہیں ۔ جب ہم ما دی اعتبار سے آدمی حیوانات چرندے پر ندے درندے ذی روح اور غیر ذی روح مخلوق کا تجز یہ کر تے ہیں تو سب ایک صفت
میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ آدمی جہاں افضل ہو کر انسان بنتا ہے اور اس میں جو چیز
تمام مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہے وہ اس کی قوت ارادی ہے ۔ انسان اپنی قوت ارادی سے
نا صر ف یہ عرفان حاصل کر تا ہے بلکہ اس کے سامنے کا ئنات سرنگوں ہو جا تی ہے ۔
زمین
پر سے خس و خاشاک دو ر کر نے کے بعد کو ئی پو دا لگا دیا جا ئے تو وہ جلد ہی
نشوونما پا تا ہے اور جوان ہو کر اچھا پھل دیتا ہے اسی طر ح جب ذہن کو پو ری طر ح
صاف کر کے کسی نئے علم کا پو دا اس میں لگا دیا جا تا ہے تو وہ بہت بر گ وبار لا
تا ہے اور سر سبز شاداب ہو جا تا ہے جس طر ح جسم کے فا سد ما دہ خود ہی خا رج کر
دیتے ہیں یا وہ قدرتی نظام کے تحت خارج ہو جا تا ہے اسی طر ح ہیجان ، جذبات اور
خیالات کی کثافت کو اخراج ہو نا بھی ضروری ہے ۔ جب تک دماغ جذبات و ہیجان کی کثافت
سے صاف نہیں ہو تاآدمی رو حانی ترقی نہیں کر سکتا ۔ اس صفائی کو حاصل کر نے کے
لئے بر اہ راست ٹیلی پیتھی شروع کر نے سے پہلے ہم نے ذہنی یکسوئی حاصل کر نے کے
اسباق تجو یز کئے ہیں ۔
پیرا
سائیکاجی (PARAPSYCHOLOGY)کی رو سے ما ورا
ئی طا قت حاصل کر نے کے لئے ضروری ہے کہ دماغ کی کا ر گر دگی اور دماغ کے کمپیو ٹر
کو سمجھ لیا جا ئے ظا ہر ہے کہ جب تک ہم عملاً اس ما دی نظام سے الگ ہو کر دماغ کی
طر ف متوجہ نہیں ہو نگے۔دماغ کی کار کر دگی اور دماغ میں موجود مخفی صلا حیتیں
ہمارے سامنے نہیں آئیں گی ۔ ان مخفی اورلامحدود صلا حیتوں سے آشنا ہو نے کے لئے
یہ امر لا زم ہے کہ ہم اس بات سے واقف ہو ں کہ مفروضہ حواس کی گر فت سے آزاد ہو
نا کس طر ح ممکن ہے ۔
جہاں
تک طو یل انتظار کا تعلق ہے کائنات کے تخلیقی فا رمولوں پر اگر غور کیا جا ئے تو
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر گزرنے والالمحہ آنے والے لمحات کا انتظار کا پیش
خیمہ ہے ۔ انتظار بجا ئے خود زندگی ہے ۔ بچپن سے لڑکپن ، لڑکپن سے جوانی اور جوانی
سے بڑھا پے کے انتظار میں گزر جا تی ہے اگر آج پیدا ہو نے والے بچے کی زندگی میں آنے
والے ساٹھ سالوں پر محیط بڑھا پا چپکا ہوا ہے اور چھپا ہوا نہ ہو تو پیدا ہو نے
والا بچہ پنگو ڑے سے با ہر نہیں آئے گا ۔نشوونما رک جا ئے گی ، کا ئنات ٹھہر جا
ئے گی ، چا ند سورج اپنی رو شنی سے محروم ہو جا ئیں گے ۔
جب
ہم زمین میں کو ئی بیج ڈالتے ہیں تو یہ دراصل اس انتظار کے عمل کی شروعات ہے کہ یہ
بیج پھول بن کر کھلے گا ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔