Topics

ہمت مرداں ۔لڑکیوں کی طرح چال

سوال: آج کل ہر لمحہ آپ مجھے بہت یاد آتے ہیں۔ خدا ہمیشہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور میری عمر بھی آپ کو لگا دے۔ تا کہ بہت سے لوگ آپ سے مستفید ہو سکیں۔

آپ بھی کہتے ہوں گے کیسا بے وقوف شخص ہے۔ ایک خط کا جواب لکھتے ہیں دوسرا آ جاتا ہے۔ لیکن میں بھی کیا کروں۔ مجھے چین ہی نہیں ملتا۔ خط لکھ دیتا ہوں تو چند دنوں کے لئے ایک اطمینان اور سکون مل جاتا ہے۔ امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے بلکہ اس کا جواب جلد دیں گے اور وعدہ کرتا ہوں کہ پھر ایک مہینے تک آپ کو خط نہیں لکھوں گا۔

ڈھائی سال سے آپ کی تحریر سے مستفیض ہو رہا ہوں۔ زندگی رہی تو ملاقات بھی ہو جائے گی۔ ہمت کر رہا ہوں کہ آپ کے روبرو آ جاؤں۔

آپ کی تحریروں میں پڑھا ہے کہ ہر شخص کے دو رخ ہوتے ہیں۔ مردانہ اور زنانہ اور ان سے کوئی بھی رخ اس پر غالب آ جاتا ہے۔ 

بعض اشخاص پر ظاہری طور پر جیسے وہ ہوتے ہیں وہی رخ غالب آتا ہے اور دوسرا رخ اسے کشش کرتا ہے اور بعض اوقات ظاہری طور پر شخص کچھ اور ہوتا ہے اور رخ کوئی اور اس پر غالب آ جاتا ہے اور اس طرح وہ شخص ڈبل مائنڈ ہو جاتا ہے۔ اور نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کا مصداق بن جاتا ہے۔

میرا مسئلہ مندرجہ ذیل ہے کہ ظاہری طور پر تو میں مرد ہوں لیکن رخ مجھ میں زنانہ غالب ہے۔ ایک لمبی بات ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ 

اب تو گزارہ ہو گیا وہ بھی اس طرح کہ میں تنہائی پسند ہو گیا۔ ہر کسی سے قطع تعلق کر لیا لیکن ہر جگہ بڑی عورتیں میری بہنیں بنتی رہیں جس نے میرے زنانہ رخ کو اور اجاگر کر دیا۔ میری آواز باریک ہو گئی۔ عورتوں سے تو بول لیتا ہوں مگر مردوں سے نظریں نہیں ملا سکتا۔ بعض اوقات میں تو بات کر لیتا ہوں لیکن انہیں سنائی نہیں دیتی۔ میرا چلنا بقول دوسروں کے لڑکیوں کی طرح سے ہے۔ میرا کھانا، پینا، بیٹھنا سب لڑکیوں سے ملتا ہے۔ بعض اوقات لوگ تیسری جنس بھی کہہ دیتے ہیں۔ پہلے مجھے احساس ہوتا تھا، روتا تھا خود کشی کے بارے میں سوچتا تھا لیکن اب عادت پڑ گئی ہے۔ جنسی کشش کبھی کبھی محسوس ہوتی ہے۔ اتنا سچ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آپ میری شخصیت کو سمجھ سکیں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہر قسم کی برائی سے پاک ہوں۔ کھانا ہر قسم کا پکا سکتا ہوں اور اتنا لذیذ ہوتا ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ کافی عرصہ میں نے گھر میں یہ کام کیا ہے۔ روٹیاں پکانا تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ کبھی قدرت نے یاوری کی تو آپ کو اپنے ہاتھ کی روٹی ضرور کھلاؤں گا۔

الغرض دوسرا رخ مجھ پر غالب ہے۔ لیکن ہوں مرد یوں ڈبل مائنڈڈ ہو گیا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں کیا نہ کروں۔ رو رو کر دعائیں مانگ چکا ہوں۔ لیکن پتہ نہیں کہ دعائیں کہاں چلی جاتی ہیں۔

یہ بھی آپ کی تحریروں میں پڑھا ہے کہ تھوڑی کوشش سے ہم اپنے اصلی رخ کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ اب میری عمر 20سال ہو چکی ہے۔ پلیز کوئی طریقہ یا وظیفہ بتائیں تا زیست آپ کا احسان مند رہوں گا۔

جواب: آدھی رات گزرنے کے بعد 100بار بسم اللہ کے ساتھ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلیٰ النِّسَاءَ پڑھ کر گلابی رنگ کی روشنی کا مراقبہ کریں۔ روزانہ پندرہ منٹ۔ رات کو سوتے وقت ایک چھٹانک چلغوزے کھا لیا کریں۔ چار ماہ کے بعد حالات سے مطلع کریں۔ 


Topics


Roohani Daak (4)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔