Topics

گم ہوگیا بس اس کے سوا کیا معلوم

گم ہوگیا بس اس کے سوا کیا معلوم

کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم

ممکن  نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا  کیا  معلوم

تشریح!    ابدال حق بابا اولیاء ؒ کی رباعیات میں یہ بات بہت زیادہ وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ ہماری  دنیا تونے بکھرنے اور بے وجود ہونے کے لیے ہے۔ ہر آدمی ٹوٹ رہا ہے۔ بکھر رہا ہے، اور اس کا وجود مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو رہوا ہے، مگر اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کے ساتھ کچھ ہو رہا ہے۔ بچپن بکھراجوانی آئی، جوانی بکھر ی بڑھاپا آیا۔ بڑھاپا بکھراآدمی نابود ہوگیا۔   "جو جاکر نہ آئی وہ جوانی دیکھی ، جو آکےنہ گیا وہ بڑھاپا دیکھا"کہ مصداق جب آدمی اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، ہم جب زندگی کے ٓثار  و احوال کا محاسبہ کرتے ہیں تو ہمارے اوپر یہ انکشاف ہوتا ہے  کہ زندگی دراصل وقت ہے، ہم پوری زندگی وقت ہی   میں تو گزارتے ہیں، بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ "وقت کی قدر کرو" گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں" ۔ جووقت ہم کارآمد گزارتے ہیں، وہ ہماری زندگی  کا حاصل ہے، اور جو وقت ہم ضائع کررہے ہیں وہ ہماری زندگی میں لاحاصل عمل ہے، وقت کے بارے میں اگر انسان کو علم ہوجائے تو اس کے وپر علم کے ایسے بے شمار دروازے کھل جاتے ہیں جن میں سے وہ کسی ایک دروازے میں داخل ہوکر یہ معلوم کر لیتا ہے کہ انسان آتا کہاں سے اورجاتا کہاں ہے؟

آتا کیوں ہے اور نہ چاہنے کے باوجود چلا کیوں جاتا ہے، وقت کا علم رکھنے والا اپنی تخلیق کے راز سے واقف ہو جاتا ہے وہ سمتوں  کے گرداب میں نہیں پھنستا۔ جب کوئی بندہ تخلیقی راز سے واقف ہوجاتا ہے تو اپنا عرفان حاصل کرلیتا ہے۔ عرفان ہی انسان کو خالق کائنات  سے قریب کرتا ہے۔ دراصل خالق کائنات  اللہ عزوجل کی قربت ہی علم و آگہی ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ " وقت میں میرا اور اللہ کا ساتھ ہے" وقت  Time اللہ کا نور ہے، اور مکان   Space اللہ کی تخلیق ہے۔




___________________

 )روحانی ڈائجسٹ: مئی ۲۰۰۳)



Topics


Sharah Rubaiyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

ختمی مرتبت ، سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی  ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔

لوح و قلم اور رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ  و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی  سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار  ہوتے رہیں گے۔