Topics

کیفیات و واردات سبق ۲

محمد جہا نگیر تبسم ۔ ڈیرہ اسمٰعیل خاں ۔ 

۲۰ ۔ نومبر : ٹیلی پیتھی کی دو سری مشق کے دو ران آنکھوں میں سے نور کی لہریں نکلتی ہو ئی محسوس کیں ۔نور کے ہالے نگا ہوں کے سامنے آتے رہے ۔اور جا تے رہے ایک بہت بڑی وسعت دکھا ئی دی ۔اور اس میں رو شنی ہی رو شنی پھیلی ہو ئی نظر آئی مشق کے دو ران آنکھوں کے ڈیلے بالکل ساکت اور جمے ہو ئے محسوس کئے ۔

۲۱ ۔نومبر : آنکھوں کے سامنے نور کی لہروں کا ہجوم ہو گیا اور غور سے دیکھنے پر لہروں میں سمتیں نظر آئیں مشق کے دوران دماغ کو جھٹکا لگا۔ اور رو شنی میں اضا فہ ہو گیا میں نے اپنے دماغ  میں بہت ساری روشنی بھر ی ہو ئی محسوس کی ۔ 

۲۳۔ نومبر: آج خود کو فضا میں پر واز کر تے دیکھا اور دوران پر واز دیکھا کہ میرا دماغ روشنیوں سے بھرا ہوا ہے اور ما تھے پر نور کی بنی ہو ئی   ایک با طنی آنکھ بھی ہے مشق کے بعد میں نے سونے کے لئے کمبل اپنے اوپر ڈالا تو کمبل کے اندر رو شنی کا ایک جھما کا ہوا جیسے کسی نے ٹیوب لائٹ جلا دی ہو ۔

خالد پرویز ، کو ئٹہ ، بلو چستان ۔ 

۱۰۔ فر وری : سانس کی مشق کر نے کے بعد مراقبہ شروع کیا تو نور کی با رش کا تصور بن گیا ہر طر ف نور برس رہا تھا اور میں اس با رش میں بیٹھا ہوا مشق کر رہا تھا ۔نور کی برسا ت ایسے تھی جیسے دودھ کے چمک دار قطرے ہر طر ف گر رہے ہوں ۔صبح سانس کی مشق کے بعد مراقبہ میں پھر نو ر کا تصور بن گیا ۔ اور نورکی مو سلا دھا ر با رش مجھ پر گر تی رہی اور ذہن میں خیالات بھی آتے رہے ۔رات کو خواب میں جو دیکھا دوسری دن من وعن وہی واقعات رونما ہو گئے حیران ہوں ٹیلی پیتھی کی مشقوں کا خواب سے کیا تعلق ہے ۔

جب بھی نور کی با رش کا تصور کر تا ہوں اسے پو ری شدت سے بر ستا دیکھتا ہوں نور کی چمک دار بو ندیں جسم پر جہاں بھی گر تی ہیں وہ جگہ رو شن اور شفا ف(TRANSPARENT) بن جا تی ہے یہاں تک کہ پو را جسم رو شنیوں سے بنا ہو انظر آتا ہے ۔ 

نو را نی با ل :

محمد فاروق اردق مصطفی ، پہا ول پور ۔

۱۲۔ جنوری : آج دوران مشق سارا ماحول موسلا ھار بارش میں ڈو با ہوا محسوس ہوا ۔کبھی اپنے اوپر بھی کبھی تیز اور کبھی ہلکی بارش بر ستی ہو ئی  دیکھی ۔لیکن اردگرد سارا ماحول بہت تیز اور لگا تا بارش میں ڈوبا ہوا نظر آیا ۔ایسا لگا جیسا جسم بھیگ رہا ہے اور سر کے بال نو را نی با رش سے تر ہو گئے ہیں ۔

۹ ۔ جنوری تا ۱۲ جنوری : ذہن پر عجیب قسم کی گر دسی چھا ئی رہی جیسے ذہن با لکل ہی خالی ہو اور کو ئی بات بھی سوچنے پر آما دہ نہ ہو ۔

گنا ہوں کی دلدل :

محمد طا رق، ڈی آئی خا ں ۔ 

۳۔ فر وری : کھلی آنکھوں سے  نور کی با رش کا تصور قائم ہو الیکن پھر غنو دگی طا ری ہو گئی ۔کچھ دیر بعد مجھے اچا نک جھٹکا لگا اور میں عالم ہو ش میں آگیا اور دیکھا کہ کمرے میں بے شمار روشنیاں پھیلی ہو ئی ہیں ۔ 

۵ ۔ فروری : دیکھاکہ ایک بہت بڑا گلاب کا پھول آسمان سے نور کے پانی میں اترا ۔ پھول ایک طرف سے دوازے کی طرح کھلا ہوا اور ایک بزرگ جن کے ارد گرد نور کا ہالہ تھا اپنے سا تھیوں سمیت نکلے پھول کا دروازہ بند ہو گیا وہ بز رگ اپنے ساتھیوں سمیت نور کے پا نی میں چلتے ہو ئے ایک جگہ آخر ٹھہر گئے پھر آسمان سے ایک تا ریک اور بڑا گلوب نیچے آیا ۔ بزرگ نے جب کچھ پڑھ کر اس پھول پر پھو نکا تو پھو ل چمکنے لگا ۔اور اس طرح کے مناظر دکھائی دینے لگے ۔وہ بزر گ اور ان کے ساتھی اِردگرد ائرے کی صورت میں بیٹھ گئے آواز آئی تمہاری یہ دنیا گنا ہوں کی دلدل میں گر دن تک دھنسی ہو ئی ہے ۔اس لئے بے اطمینانی کا شکار ہے ۔اگر تم صدق دل سے عبا دت کر و اور متحد رہو تو دنیا کی کو ئی طا قت تمہیں شکست نہیں دے سکتی ۔اس کے بعد وہ گلوب تا ریک ہو گیا ۔ بزرگ نے اسے اٹھا یا اور آسمان کی طر ف پھینک دیا ۔اور وہ با دلوں کی اوٹ میں غائب ہو گیا ۔اب پھول سے دو عورتیں نکلیں اور دروازے کے دونوں طر ف کھڑی ہو گئیں ۔ وہ بزرگ ملے اپنے ساتھیوں سے، جیسے ہی دروازے کے قریب پہنچے انہو ں نے ادب سے دروازہ کھول دیا ۔ان کے اندر داخل ہو نے کے بعد دروازہ پھر بند ہو گیا۔پہلے تو وہ پھول پا نی میں تیرتا رہا ۔ پھر آسمان کی جا نب پر واز کر گیا۔ اور پھر وہی نور کی با رش تھی اور میں تھا۔ 

۶ ۔ فر وری : جب مشق کر نے بیٹھا تو کمرے میں باوجود سخت اندھیرا ہو نے کے کمرے کی ہر چیزصاف نظر آنے لگی ۔دیکھا کہ آسمان نیلا ہے اور ایک نیلا با دل تیرتا ہوا میرے سر پر آیا اور ایک طر ف سے چھٹ گیا جس سے بے شمارر و شنی  نکلی اور قطروں کی صورت میں تبدیل ہو کر بر سنے لگی اور پھریہ مو سلادھار ہو گئی ۔ 

نور کی با رش :

رو بی خان ، کراچی ۔۔۔

۷۔ جنوری : نور کی بارش کا تصور کیا تو دیکھا کہ سر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے اور نو ر کی با رش سر کے اندر ہو رہی ہے ۔نور ابل ابل کر با ہر بھی نکل رہا ہے ۔بلب کی طر ح کبھی جل جا تا ہے کبھی بجھ جا تا ہے ۔ 

۱۶۔ جنوری ـ: مشق کے دو ران دیکھا کہ ایک بہت بڑی مسجد میں کچھ بزرگ بیٹھے مقدس آیتیں پڑھ رہے ہیں ۔ انہوں نے مجھے بھی دعوت دی کہ تم بھی پڑھو میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی ۔ میں نے پو چھا یہ کیوں پڑھا جا رہا ہے۔ جواب ملا تمہا ری کا میابی کے لئے ۔

۸۔فروری سے ۲۰ فروری تک :کا فی حد تک کا میابی ہو ئی ۔ کبھی کبھی آنکھوں کے سامنے تیز رو شنی نمودار ہو تی تھی اور کبھی نور کی بارش کاتصور قائم ہو جا تا تھا ۔کل ۲۰ ۔ فر وری کو سارے ما حول پر با رش کا خوش گوار اثر دیکھا۔

منیرہ فا طمہ ، لا ہور۔۔۔ 

۶۔ جو لا ئی : نور کی با رش کا تصور بہت آسانی سے قائم ہو گیا مگر جیسے ہی چہرے پر بو ندیں گرنے کااحساس اجا گر ہوا نیند آگئی ۔میں نے سارے دن اس بات کو آزما یا ہے کہ جب چہرے پر نورا نی با رش کی بو ندیں گر تی ہیں تو مجھے نیند آجا تی ہے ۔

۱۲۔ جولا ئی : ایک عجیب سی رو شنی دیکھتی ہوں اس سے سارا گھر یا کمر ہ رو شن ہو جا تا ہے نور کی با رش کا جب تصور آتا ہے تو دو سیکنڈ کے اندر اپنے آپ کو باران رحمت میں بھیگا ہوا پا تی ہوں ۔جسم میں ایک لطیف پھر یر ی آجا تی ہے ۔ اور کتنے ہی گر م کمرے کیوں نہ ہوں مجھے ٹھنڈک سی محسوس ہو نے لگتی ہے اور بہت ہی لطف آتا ہے جی چا ہتا ہے کی رحمت کی با رش میں کھڑی رہوں۔کبھی کبھی تو جیسے ہی نور کی با رش کی بو ند جسم یا چہرے پر پڑتی ہے تو فو راً ہی ایک روشنی یا فلیش سی نظر وں کے سامنے چمک جا تی ہے ۔جسم میرا پو رے ہفتے ہی گرم گر م سا رہا۔ تھر ما میٹر لگا یا تو بخار یا حرارت نہیں تھی ۔

چراغ اور موم بتی :

یاد گار حسین ، کر چی۔۔۔ 

۲۹۔ اکتوبر : مراقبہ میں کچھ دیر کے لئے نور کی بارش کا تصور بند ھا اور پھر بدن کو جھٹکے لگنے لگے ۔ا یسا محسوس ہو ا جیسے دن نکلا ہوا ہے اور چا روں طر ف رو شنی پھیلی ہو ئی ہے ۔ 

۳۰۔ اکتو بر ایک روشن دائرہ آیا ۔ اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ نگا ہوں کے سامنے سے پردے ہٹتے جارہے ہیں ۔ رو شن دائرے میں مختلف منا ظر متحرک نظر آئے مشق کے بعد لیٹا تو محسوس ہوا آسمان پر با دل چھا ئے ہو ئے ہیں ۔ کا لے سیاہ بادل اور سفید رنگ بادل آکر ان میں شامل ہو رہے ہیں ۔ ان با دلوںمیں سے سفید شعاعیں نکلنے لگیں ۔اور ان کا رنگ تبدیل ہو کر سنہری ہو گیا اگلے دن نیو کراچی گیا تو مغرب سے پہلےوہ ہی منظر دیکھا کہ آسمان پر بادل چھا ئے ہو ئے ہیں ۔اور سورج ان کے پیچھے چھپا ہوا ہے اور سورج کی کر نوں کی وجہ سے با دلوں میں سنہری شعاعیں نکل رہی ہیں۔

۴ نومبر : دیکھا کہ ایک مزار ہے جس کا گنبد سفید ہے اور نور اس پر دھا رے کی صورت میں بر س رہا ہے خانہ کعبہ کی جھلک بھی نظر آئی پھر اس کے بعد دیکھا کہ دور ایک چراغ جل رہا ہے یہ منظر آہستہ آہستہ قریب آتا گیا اور میں نے دیکھا کہ ایک موم بتی جل رہی ہے ۔ایک عما رت نظر آئی اور پھر ایک میناردکھا ئی دیا ۔کچھ لوگ نظر آئے ان میں سے ایک شخص نے ایک عصا میری طر ف بڑھا یا لیکن مجھے اسے لینے میں جھجک ہو رہی تھی اور پھر وہ عصا لے لیا ۔

۵ ۔ نو مبر : سانس کی مشق کے دو ران رو شنی کی ایک پٹی قوس قزح کی شکل میں نظر آئی اور پھر کئی رنگ کی پٹیاں نظر آتی رہیں زرد ، سرخ اور نیلگوں پھر ایسا محسوس ہوا کہ نور کا دھا راا ٓنکھوں کے سامنے آنے والا ہے ۔

۶۔ نومبر : مشق کے دو ران جسم کو کئی جھٹکے لگے اور اتنی تیز رو شنی پیدا ہو ئی جیسے دن نکل آیا ہو میں نے اس رو شنی میں دیکھا کہ ایک قطار میں کچھ بزرگ آدمی بیٹھے ہو ئے ہیں ۔ پھر میں نے خود کو ایک نہا یت خوبصورت باغ میں پا یا ۔اور باغ میں ہرے بھرے پو دے اور پھل دار درخت لگے ہو ئے تھے ۔کسی نامعلوم شخص نے مو تیاکا ایک پو دا جڑ سے اکھاڑ کر میری طر ف بڑھا یا اور کہا کہ اسے سونگھو ۔ میں نے اسے سونگھاتو ایک عجیب قسم کی خوشبو محسوس کی ۔ وہ خوشبو نہا یت تیز تھی او راس کا اثر حیرت انگیز تھا ۔ چند لمحوں پہلے میرے دماغ پر جو بو جھ تھا وہ یکلخت ختم ہو گیا اور میں نے خود کو پر سکون محسوس کیا ۔

۱۲۔ نو مبر ٹیلی پیتھی کی مشق کے بعد لیٹا تو جسم کی حرکت ساکت ہو گئی ۔ دوسرے لمحے میں نے خود کو خلا میں موجود پا یا ۔ رنگ و روشنی کی با رش ہو رہی تھی اورمیں اس بارش کی زد میں تھا ۔ میں نے رنگ و رو شنی کی اس بارش کی چوٹ کو اپنے جسم پر محسوس کی ۔ میں نے نیچے کی جانب دیکھا تو نظر آیا کہ با رش ایک نہر میں جمع ہو رہی ہے ۔اس وقت تیز ہوا چلنے لگی اور کہیں دور سے گھنٹیو ں کی آواز سنائی دی جو کانوںکو بہت بھلی لگ رہی تھی ۔

بند آنکھوں کے سامنے رو شنی کی لکیروں کا جال پھیل گیااور دل کی طرح ایک بڑی ڈبیا نظر آئی جس میں کھڑکی کی جگہ دروازہ بنا ہوا تھا یہ دروازہ با ر بار کھلتا اور طر ح طر ح کے منا ظر دکھائی دیتے ۔ دیکھا کہ ایک تا لا ب ہے اس میں ایک مچھلی تڑپ رہی ہے ۔ مچھلی کو تڑپتے دیکھ کر یہ بات ذہن میں آئی کہ پا نی کم ہے جس کی وجہ سے مچھلی غوطہ لگا تی ہے اور فر ش سے ٹکرا جاتی ہے ۔تالاب کے اندر دیواروں پر بیل بو ٹے بنے ہوئے تھے ۔ 

۱۵۔ نومبر : ایک رو شن دائرے میں خانہ کعبہ نظر آیا ۔ اس کے چاروں طر ف لوگ کھڑے ہو ئے تھے اور آسمان سے باران ِ رحمت کی طر ح نور چا روں طر ف  لوگ کھڑے ہوئے تھے اور آسمان سے بارانِ رحمت کی طرح نور چاروں طرف  پھیل رہا تھا۔

محمد صفدر تابانی ، شیخو پورہ۔

مراقبہ میں دیکھا کہ واقعتاً میں بارش میں بھیک رہا ہوں۔پھر یہ بوندیں اولوں کی طرح سفید موتی بن کر گرنے لگیں ۔ جب یہ موتی میرے جسم سے ٹکرانے لگے ، محسوس ہوتاتھا حیسے ان کا مادی وجود نہیں ہے۔بلکہ یہ رو شنیوں سے بنے ہو ئے ہیں ۔ لیکن میں نے نور کے ان قطروں کا لمس ضرور محسوس کیا ہے ۔ایک اور فر ق تھا اور وہ یہ کہ پا نی کے قطروں سے ٹھنڈک محسوس ہو تی ہے لیکن ان بوندوں کے گر نے سے مستی و سر ور کا احساس جا گ جا گ جا تا تھا۔

جھا ڑو اور کمزور شخص :

محمد منصور ، با غبان پورہ ۔

۲۹۔ اپریل : بارش پانچ سیکنڈ تک نظر آتی رہی جو دودھیارنگ کی تھی اور ذہن اسے نورانی صورت میں دیکھنے کی کوشش کر تا رہا۔

آج خلاف معمول صبح بیدار ہوکر دوبارہ سوگیا ۔ دیکھا کہ میرے کمرے میں سیاہ اور کمزور رنگت والا شخص جھا ڑو دے رہا ہے ۔دیکھتے ہی میں غصے میں باہر آگیا اسے میرے کمرے میں داخل ہو نے کی جرات کیسے ہو ئی ۔دو بارہ کمرے میں شک کی بنا ء پر گیا ۔دیکھا کہ وہ میرے بوٹو ں کے تسمے بڑی نفا ست سے پر و رہا ہے ۔ میں نے اس سے کہا آپ غلط تسمے ڈال رہے ہیں میری بات کو نظر انداز کر تے ہو ئے وہ کام کر تا رہا ۔

۳۰۔ مٹی ـ: آہستہ آہستہ نیلے با دل چھا گئے ۔ آج با زو اور سر ایسے ٹھنڈے ہو گئے جیسے انہیں برف میں لگا دیا گیا ہو ۔ 

لطیف آباد ، حید ر آباد میں منیر احمد

 ۱۶ ۔ جولا ئی سے برابر نور کی با رش والی مشق کر رہے ہیں ۔ لکھتے ہیں پہلے دودن کو ئی خاص بات نہیں ہو ئی ۔ البتہ ۱۸۔ جو لا ئی کو مشق کے دوران سر میں شیدید قسم کا درد ہو ا۔ ۹ ۱ ۔ جو لا ئی کو بھی مشق کے  دو ران یہ درد برابر ہو تا رہا لیکن چو نکہ اس بات کی وضا حت آپ نے کر دی تھی اس لئے میں نے کو ئی خیال نہیں کیا ۔ 

۲۰۔ جو لا ئی کو جب مشق سے فا رغ ہو کر میں بستر پر لیٹا تو مجھے یوں محسوس ہوا اکہ جیسے میں دو بن گیاہوں ۔ میں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا تو میرے برابر میں ایک اور منیر لیٹا ہوا تھا ۔

٭٭٭٭٭



علم کی درجہ بندی 


محمد ارشد ، کراچی ۔۔۔

سوال : میں آپ سے چند سوالات کے جوابات چاہتا ہوں ۔ آپ ان سوالات کے جو ابات قرآن کر یم کی رو شنی میں دیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ ان سوالات کے جوابات سے رو حانیت کے بعض گو شوں پر رو شنی پڑے گی ۔ اور ایسے لوگ جن لوگوں کے ذہنوں  میں  ایسے سوالات پیدا ہو تے ہیں وہ بھی مطمئن ہو جا ئیں گے ۔

اگر ہم ٹیلی پیتھی کے ذریعے اپنے خیالات کو دو سروں تک پہنچا سکتے ہیں اور دو سرں کے خیالات معلوم کر سکتے ہیں تو ہم ٹیلی پیتھی کو پو چھ گچھ کے سلسلے میں کیوں استعمال نہیں کر تے اور جا سوسوں کے اہم منصوبوں سے کیوںواقف نہیں ہو جاتے ؟ 

دو سرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی روحانی استاد کی نگرانی میں مر اقبہ کر نے سے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے تو ہم یہ کیوں نہیں پتا کر لیتے اہرام مصرکب کیوں تعمیر ہو ئے اوار ان میں استعمال ہونے والے اتنے وزنی پتھر کس طر ح لا ئے گئے ؟ 

جواب : دنیا میں را ئج علوم کی اگر درجہ بندی کی جا ئے تو ہم انہیں تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ وہ یہ ہیں :۔

۱۔ طبیعات PHYSICS

۲۔ نفسیات PSYCHOLOGY

۳۔ مابعد النفسیات PARA PSYCHOLOGY

علم طبیعات کے ضمن میں زندگی کے وہ اعمال و اشغال آتے ہیں جن سے کو ئی آدمی محدود دائرے میں رہ کر مستفیض ہو تا ہے یعنی اس کی سوچ کا محور مادہ (MATTER)اور صرف مادہ ہو تا ہے ما دی دنیا کے اس خول سے وہ با ہر نہیں نکلتا ۔ 

نفسیات وہ علم ہے جو طبیعات کے پس پر دہ کا م کر تا ہے خیالات تصورات اور احساسات کا تا نا با نا اسی علم سے مر کب ہے ۔خیالات اگر تواتر کے ساتھ علم طبیعات کے دائرے میں منتقل ہو تے رہیں تو آدمی صحت مند خیالات کا پیکر ہو تا ہے اور اگر خیالات کے اس لا متناہی سلسلے میں کو ئی رخنہ در آئے اور علم طبیعات کا دائرہ اس خیال  میں مرکوز ہو جائے تو آدمی نفسیاتی مریض بن جا تا ہے ۔

علم بعد النفسیات علم کی اس بساط کا نام ہے جس کو رو حانیت میں مصد ر اطلاعات یعنی SOURCE OF INFORMATION کہا جا تا ہے ۔علمی حیثیت میں یہ ایسی ایجنسی ہے جولا شعور کے پس پر دہ   کا م کر تی ہے ۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہو ئی کہ آدمی تین دا ئروں سے مر کب ہے ۔ شعور ، لا شعور اور ورا ئے لا شعور۔ جب ہم کسی مظا ہراتی خدوخال میں داخل ہو تے تو ہمیں ان تین دائروں میں سفر کر نا پڑتا ہے۔ یعنی پہلے ہمیں کسی چیز کی اطلاع ملتی ہے پھر اس اطلاع میں تصورا تی نقش و نگار بنتے ہیں اور پھر یہ تصورا تی نقش و نگار مظہر کا رو پ دھا ر کر ہمارے سامنے آجا تے ہیں ۔اسی بات کو ہم دو سری طرح بیان کر تے ہیں تا کہ بات پو ری طر ح واضح ہو جا ئے ۔ 

کا ئنات میں پھیلے ہو ئے مظا ہر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ بات سامنے آجا تی ہے کہ خیالات یعنی اطلاع(INFORMATION) تمام موجودات میں قدرِمشترک رکھتی ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پا نی کو ہر آدمی ، ہر حیوان ، نبا تا ت ، جمادات پا نی سمجھتے ہیں اسی طر ح اس سے استفا دہ کر تے ہیں جس طر ح ایک آدمی کر تا ہے۔ پا نی کو پا نی کہا جا تا ہے۔اس ہی طر ح آگ ہر مخلو ق کے لئے آگ ہے آدمی اگر آگ سے بچنے کی کو شش کر تا ہے تو بکر ی، کبوتر ، شیر اور حشرات الارض بھی آ گ سے بچنے کی کوشش کر تے ہیں ایک آدمی مٹھاس پسند کر تا ہے دوسرا طبعاً میٹھی چیزوں کی طر ف مائل نہیں لیکن ہر دو اشخا ص میٹھے کو میٹھا اور نمک کو نمک کہنے پر مجبور ہیں ۔ پتہ یہ چلا کہ جہاں آدمی خیالات اور تصورا ت میں قدر مشترک رکھتے ہیں وہاں وہ خیالات میں اپنی مر ضی اور منشاء کے مطا بق معانی پہنانے پر قدرت رکھتے ہیں ۔آپ کا یہ سوال کہ کیا ہم اپنے خیالات  دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں اور کیا دوسروں کےخیالات معلوم کر سکتے ہیں کہ جواب میں عرض ہے آپس میں خیالات کی منتقلی کا نا م ہی زندگی ہے ہم اپنے علاوہ  دو سرے فر دکو صرف اس لئے پہچانتے ہیں کہ اس کے تشخص کے خیالات ہمیں منتقل ہو رہے ہیں ۔ اگر زید کے خیالات اور خیالات کا مجموعہ زندگی بکر کے دماغ کی ا سکر ین پر نہ ہو تو بکر، زید کو نہیں پہچا ن سکتا ۔ درخت کی زندگی میں کام کر نے والی وہ لہریں جن کا اوپر درخت کاوجود قائم ہے اگر آدمی کے اندر ،منتقل نہ ہو تو آدمی درخت کو نہیں پہچان سکے گا ۔


شاہد اور مشہود :

دیکھنے اور سمجھنے کی طر ز یں دو رخ پر قائم ہیں ایک بر اہ راست اور دو سری با لواسطہ ۔ با الواسطہ دیکھنے کی طر ز یہ ہے کہ ہم علمی اعتبار سے دو وجود کا تعین کر تے ہیں ۔ایک وجود شاہد یعنی دیکھنے والا ۔ دو سرا وجود مشہود کو دیکھا جا رہا ہے ۔ایک آدمی جب بکری کو دیکھتا ہے تو با الفاظ دیگر وہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں بکر ی کو دیکھ رہاہوں ۔ یہ با لواسطہ دیکھنا ہے ۔دو سری طر ز یہ ہے کہ بکری ہمیں دیکھ رہی ہے یعنی بکری کو قائم کر نے والی لہریں ہمارے دماغ کی اسکرین پر بصورت اطلاع وارد ہو ئیں ۔دماغ نے ان لہروں کو نقش و نگا رمیں تبدیل کیا ۔اور جب یہ نقش و نگار شعور کی سطح پر نمو دار ہو ئے تو بکر ی کی صورت  میں  مظہر بن گئے قانون رو حانیت کی رو سے فی الواقع براہ راست دیکھنا ہی صحیح ہے اوار با لواسطہ دیکھنا محض(FACTION) مفروضہ ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ کا یہ ارشاد بہت زیادہ توجہ طلب ہے اللہ تعا لیٰ حضور سے ارشاد فر ما تے ہیں :

‘’اور تو دیکھ رہا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں ، تیری طر ف ، وہ کچھ نہیں دیکھ رہے ۔ “ 

آیت مقدسہ کے مفہوم پر غور کیجئے اللہ تعالیٰ یہ فر ما رہے ہیں کہ وہ دیکھ رہا ہے با وجوددیکھنے کے وہ کچھ نہیں دیکھ رہے ۔ حاصل کا ئنات ، فخر مو جودات سیدنا حضور علیہم الصلوٰۃ والسلام کے قدسی نفس تشخص میں اللہ تعالیٰ کی جو تجلیات اور انوار کام کر رہے ہیں وہ لوگوں کی آنکھوں سے مخفی ہیں ۔اور ان تجلیات اور انوار کو نہ دیکھنا اللہ تبا رک تعالیٰ کے ارشاد کے بموجب کچھ نہ دیکھنا ہے ۔

اپنی حدود میں رہتے ہو ئے براہ راست دیکھنے کی طر ز رکھنے والے جن بندوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اندر موجود انوار و تجلیات کا مشاہدہ کیا وہ حضور ﷺ کے ہم خیال بن گئے ۔ یہ بات الگ ہے کہ براہ راست دیکھنا کسی بندے میں قلیل تھا اور کسی بندے میں زیادہ ۔

ٹیلی پیتھی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان جدو جہد اور کوشش کر کے بر اہ راست دیکھنے کی طر ز سے قریب ہو جا ئے ۔جب حدود میں وہ براہ راست طر فکر سے وقوف حاصل کر لیتا ہے اسی مناسبت سے وہ لہریں جو خیال بنتی ہیں اس کے سامنے آجا تی ہیں ۔یہ عجیب سر بستہ راز ہے پوری کا ئنات کے افراداطلاعات اور خیالات میں ایک دو سرے سے ہم رشتہ ہے البتہ اطلاعات میں معنی پہنانا الگ الگ وصف ہے ۔ بھوک کی اطلاع شیر اور بکر ی دو نوں میں موجود ہے لیکن بکری اس اطلاع کی تکمیل میں گھاس کھا تی ہے اور شیر بھوک کی اس اطلاع کو پورا کر نے کے لئے گو شت کھا تا ہے ۔ بھوک کے معاملے میں دونوں کے اندر قدرِمشترک ہے ۔بھوک کی اطلاع کو الگ الگ معنی پہنانا   دونوں کا جداگا نہ وصف ہے ۔

آپ کا یہ سوال کہ ٹیلی پیتھی کو جا سوسی میں کیوں استعمال نہیں کیا جا تا اور یہ کہ ٹیلی پیتھی کے ذریعے سر بستہ راز کیوں نہیں معلوم کئے جا تے اس کے بارے میں ایسے شواہد موجو دہیں کہ ہپناٹزم کے ذریعے یورپ میں بڑے بڑے آپر یشن کر دئیے جا تے ہیں اور مر یض کو تکلیف کا احساس بالکل نہیں ہو تا ۔وغیرہ وغیرہ ۔ ہپنا ٹزم اور ٹیلی پیتھی ایک ہی قبیل کے دو علم ہیں ۔ان کا منبع اور مخزن دونوں ایک ہے یعنی خیالات کے اوپر گر فت کا مضبوط ہو نا ۔ 

ایسے صاحب روحانیت جو ٹیلی پیتھی کے قانون سے واقف ہیں وہ آزاد ذہن ہو تے ہیں۔انہیں کیا ضرورت پڑی ہے ۔ کہ جا سوسوں کو پکڑتے پھر یں اور پو لیس کا کر دار انجام دیں ۔البتہ یہ بات عام طور پر مشاہدے میں آئی ہے کہ کو ئی بندہ کسی صاحب رو حانیت کی خدمت میں حا ضر ہوا اور اس بندے کے دماغ میں جو کچھ تھا وہ انہوں نے دانستہ اور غیر دانستہ طور پر بیان کر دیا ۔ 

اہرام مصرکب اور کیوں قائم ہو ئے اور ان کو تیس لا کھ تر اشے ہو ئے پتھروں سے کس طر ح بنا یا گیا جب کہ ہر چٹان کا وزن ستر ٹن ہے ۔ اور یہ زمین سے تیس چا لیس فٹ کی بلندی پر نصب ہیں ۔اور ان اہرام کا فا صلہ کم سے کم پندرہ میل اور زیادہ سے زیادہ پا نچ سومیل ہے یعنی جن پتھروں سے اہرام مصر کی تعمیر ہو ئی وہ پا نچ سو میل دور سے لا ئے گئے تھے ۔ 

میرے بھا ئی ! کسی صاحب مراقبہ کو یہ بات معلوم کر نا کو ئی مشکل کام نہیں ہے لیکن ان کے سامنے اس سے بہت زیادہ ارفع واعلیٰ رموز ہو تے ہیں ۔اور وہ ان رموز کی تجلیات میں محو استغراق رہتے ہیں ۔

ایک بزرگ رمپا(RAMPA) خیالات کی لہروں کے علم سے وقوف رکھتے ہیں انہو ں نے ما ہرین آثار قدیمہ کے اصرار پر یہ انکشاف کیا کہ بیس ہزار سال پہلے کے وہ لوگ جنہوں نے اہرام مصر بنا ئے ہیں آج کے سائنس دانوں سے زیادہ تر قی یا فتہ تھے اور وہ ایسے ایجادات میں کا میاب ہو گئے تھے جن کے ذریعے پتھروں میں سے کشش ثقل ختم کر دی جا تی تھی ۔ کشش ثقل ختم ہو جانے کے بعد پچاس یا سو ٹن وزنی چٹان ایک آدمی اس طرح اٹھا سکتا جیسے پروں سے بھرا تکیہ ۔ 

اس طر ح سائنس کی دنیا میں ایک اور بزرگ جناب ایڈگر کیسی کے مطا بق ان پتھروں کو ہوا میں تیر کر(FLOAT) موجودہ جگہ بھیجا گیاہے ۔

اہرام مصر کے سلسلے میں ان دانشور بزرگوں نے جو کچھ فر مایا ہے وہ لہروں کی منتقلی  کےاس قانون کے مطا بق ہے جس کو ٹیلی پیتھی کہا جاتا ہے ۔ 

٭٭٭٭٭

دماغی کشمکش


ہمارے اسلاف میں ایک بزرگ شاہ ولی اللہ ؒ گزرے ہیں ۔ ان کے ہاتھ اس جرم میں توڑ دئیے گئے تھے کہ انہوں نے قرآن پاک کا تر جمہ کیا تھا ۔ شاہ ولی اللہ نے بتا یا کہ جسم انسانی کے اوپر ایک اورانسان ہے جو رو شنیوں کی لہروں سے مر کب ہے جس کا اصطلا حی کا نام انہوں نے نسمہ رکھا ہے ۔

شاہ ولی اللہ نے یہ بات واضح دلیل کے ساتھ بتا ئی ہے کہ اصل انسان نسمہ یعنی AURA ہے ۔ جتنی بیماریاں ، الجھنیں ، پر یشانیاں انسان کے اوپر آتی ہیں وہ نسمہ میں ہو تی ہیں۔ گوشت پو ست سے مر کب خالی جسم میں نہیں ہو تیں ۔ البتہ نسمہ کے اند ر موجود کسی بیماری یا پریشانی کا مظاہرہ جسم پر ہو تا ہے یعنی جسم ایک درا صل اسکرین ہے اور نسمہ فلم ہے فلم میں سے اگر داغ دھبوں کو دور کر دیا جا ئے تو اسکرین پر تصویر واضح اور صاف نظر آتی ہے باالفاظ دیگر اگر نسمہ کے اندر سے بیماری کو نکال دیا جا ئے تو جسم خود بخود صحت مند ہو جائے گا ۔ 

شاہ ولی اللہ نے اس بات کی بھی تشریح کی ہے کہ آدمی اطلا عات ، انفا رمیشن اور خیالات کا مجمو عہ ہے ۔صحت مند خیالات پر سکون زندگی کا پیش خیمہ ہیں ۔اس کے بر عکس اضمحلال ، پریشانی ،اعصابی کشاکش ، دماغی کشمکش اور نت نئی بیماریاں خیالات میں پیچیدگی پر اگند گی تخریب کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں ٹیلی پیتھی چوں کہ انفارمیشن ، خیالات یا اطلاع کو جاننے کا نام ہے اس لئے یہ علم سیکھ کر کو ئی بندہ خود بھی الجھنوں اور پر یشانیوں سے محفوظ رہتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کر نے کے قابل ہو جا تا ہے ۔

ٹیلی پیتھی کی علمی تو جیہہ کے سلسلے میں ہم نے اس بات کی وضا حت کی ہے کہ کا ئنات میں موجود ہر شئے کی زندگی خیالات پر رواں دواں ہے ۔اورا ن لہروں کی معین مقدارو ں سے الگ الگ مخلو ق تخلیق پا تی ہے ۔معین مقداروں کے ساتھ کہیں یہ لہریں لکڑی بن جا تی ہیں کہیں لو ہا ، کہیں پا نی ۔

مثال : ہم پا نی کو دیکھتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ یہ پا نی ہے جبکہ ہمارے جسم پر یا ہمارے دما غ پر پا نی کا کو ئی اثر مر تب نہیں ہو تا یعنی ہمارا دماغ بھیگتا نہیں اسی طر ح ہم پتھر کو پتھر کہتے ہیں جب کہ پتھر کا وزن ہما را دماغ محسوس نہیں کر تا ۔ بات وہی ہے کہ پا نی کے اندر کا م کر نے والی لہریں ٹیلی پیتھی کے اصول پر جب ہمارے دماغ پر محسوس ہو تی ہیں تو ہم اس کو پانی کہتے ہیں ۔ 

کسی چیز سے فا ئدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر کام کر نے والے اوصاف اس کی حقیقت اور اس کی ما ہئیت سے وقوف حاصل ہو اور وقوف سے مراد یہ ہے کہ ہمیں صر ف لہروں کے علم سے واقفیت ہو بلکہ ہم یہ بھی جا نتے ہوں کہ لہریں منجمد نہیں ہو تیں وہ متحرک ہو تی ہیں اور ان کی ہر حر کت زندگی کے اندر کام کر نے والاایک تقاضا ہے اور ان تقاضوں سے زندگی کے اجزاء مر تب ہو تے ہیں ہر لہر اپنے اندر ایک وصف رکھتی ہے اوراس وصف کا نام ہم طاقت(FREQUENCY) رکھتے ہیں۔ کسی طا قت سے فا ئدہ اٹھا نا اس وقت ممکن ہے جب ہم اس کے استعمال سے واقف ہوں اسی وقوف کو اللہ تعالیٰ نے حکمت کا نام دیا ہے ۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

‘’اور ہم نے لقمان کو حکمت دی تا کہ وہ اسے استعمال کر ے اور جو لو گ اس سے استفا دہ کرتے ہیں انہیں اس سے فا ئدہ پہنچتا ہے اور جو لوگ کفران کر تے وہ خسارے میں رہتے ہیں۔"

قرآن پاک پو ری نو ع انسانی کے لئے منبع ہدا یت ہے ،جو لو گ حکمت کے قانون میں تفکرکر تے ہیں اس کی ما ہیئت میں اپنی تمام ذہنی صلا حیت مر کو ز کر دیتے ہیں ۔ ان کے اوپر طاقت کے قانون منکشف ہو جا تا ہے ۔ اور نئی سے نئی ایجادات مظا ہر بن کر سامنے آتی رہتی ہیں۔کبھی استعمال کا یہ قانون ایٹم بن جا تا ہے اور کبھی ریڈیو ، ٹی وی کے روپ میں جلوہ گر ہو تا ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔ 

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

‘’اور ہم نے لو ہا نا زل کیا اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فا ئدے رکھ دئیے ۔  “ 

غو روفکر کا تقاضا ہے اور اپنی بضا عتی پر آنسو بہا نے کا مقصد ہے کہ مو جو دہ سائنس کی ہر تر قی میں لو ہے کا وجود زیر بحث آتا ہے ۔جن لو گوں نے لو ہے کی خصوصیات اور اس کے اندر کا م کرنے والی لہروں کو تلا ش کر لیا ان کے اوپر یہ راز منکشف ہو گیا کہ بلا شبہ لو ہے میں نو ع انسانی کے لئے بے شمار فوائد مضمر ہیں ۔ 

المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو محض ایصال ثواب اور حصول بر کت کا ذریعہ بنا لیا اور قرآن پاک میں تسخیر \ کا ئنات سے متعلق  جو فارمولے بیان ہوئے ہیں ان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جن لوگون نے تسخیرِ کائنات سے متعلق فا رمولوں کے رموز نکات پر ریسرچ کی اور اس کوشش میں اپنی زندگی کے ما ہ سا ل صرف کر دئیے انہیں اللہ تعالیٰ نے کا میابی عطا کی    ؎


خرد کے پاس خبر کے سواکچھ اور نہیں تر اعلاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں


Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔