Topics
ع۔ص۔
کراچی ۔۔۔
حسب
و ستور مر اقبہ کیا۔ مر اقبہ میں یہ تصورپو ری طر ح قائم ہو گیا کہ ناف کی جگہ ایک
روشن نقطہ ہے جو ستا رے کی طرح جگمگ کر رہا ہے ۔
یکا یک اس نقطے میں حر کت ہو ئی اور یہ
ANTI CLOCK WISE گھو منے لگا ۔
بالکل اس طرح جیسے کوئی پھلجھڑی کو گھوماتا
ہے یا گھو متی ہو ئی آتش باز ی جس کے اندر سے رو شن پھول گر تے ہیں۔بس فر ق یہ ہے
کہ اس نقطے میں سے بجا ئے اس کے کہ آتش با زی کی طر ح پھول گر یں شعاعیں نکل رہی
تھیں ۔ان شعاعوں نے جب زمین کا چکر لگا یا تو عقدہ کھلا کہ زمین کے اندر موجود ہر
مخلوق میں ایسا ہی ایک روشن نقطہ موجود ہے
اورہر رو شن نقطہ کی شعاعیں تمام مخلوق کے روشن نقطوں میں ایک دوسرے سے ردو بدل
ہو رہی ہیں۔ ذہن میں اتنی گہرائی پیدا ہوگئی کہ دوسری مخلوق کے روشن نقطہ کی شعاعیں ناف کی جگہ میرے اندر روشن نقطہ
میں جذب ہونے لگیں۔ پھر یہ رو شن نقطہ ٹی
وی کی طر ح ایک اسکرین بن گیا ۔ اور اس میں موجو دات کا عکس نمایاں ہو نے لگا
۔پہلے مد ھم مدھم ، پھر ذرا روشن ، پھر اور زیادہ رو شن ۔۔انتہا ء یہ ہے کہ میں نے اپنے اندر اس اسکر ین پر زمین کے اوپر
تمام منا ظر قدرت کو فلم کی طر ح دیکھا ۔
میں
اس پر کیف مشاہدے میں اتنا محوہو گیا کہ ذہن سے یہ بات نکل گئی کہ میرا بھی اپنا
کو ئی وجود ہے اس کیفیت کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ درختو ں کے اندر رو شن نقطہ
مجھے اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے اور پھر درخت نے مجھ سے با تیں کر نا شرو ع کر دیں
۔ اس درخت نے مجھے بتا یا کہ فلاں بن نسل
سے تعلق رکھتا ہوں اور میرے آبا ؤ اجداد اس سر زمین پر کرو ڑوں سال پہلے پیدا ہو
ئے تھے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ پہاڑ کے اندر رو شن نقطہ مجھ سے مخا طب ہے اس نے
مجھے بتا یا کہ میری پیدا ئش اور نشو ونما بھی اسی طر ح ہو ئی جس طر ح زمین کی
دوسری مخلوق کی پیدا ئش عمل میں آئی ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ میری نسل میں ٹا ئم اینڈاسپیس کی وہ صورت نہیں ہے جو دو سری مخلوق
کے ساتھ ہے میری نشو ونما بہت دھیرے دھیرے
ہو تی ہے ۔اگر کو ئی درخت پانچ سال میں جوان ہو تا ہے تو میری جوانی کا دور ہزاوں
سال کے اوپر محیط ہو تا ہے ۔میں نے جب اس
کی وجہ دریافت کی تو پہاڑ نے مجھ سے کہا میرے سانس کی رفتار عام حالات سے ہٹ کر ہے
۔میرے ایک سانس کا وقفہ پندرہ منٹ ہو تا ہے یہی وجہ ہے کہ میری نشوونما میں اتنا
زیادہ طویل عرصہ لگ جا تا ہے ۔
۔۔۔لا
ہو ر ۔۔۔
رات
کو سونے سے پہلے ، آدھی رات گزرنے کے بعد میں نے چھٹے سبق کی مشق کی ۔ دیکھا کہ
میں ایک شیشے کا بنا ہوا خول ہوں ۔اس شیشے میں چھ روشن قمقمے ہیں ۔ ایک قمقمہ جو
بہت زیادہ رو شن ہے میرے جسم میں نا ف کے مقام پر آویزاں ہے ۔ اس قمقمے کے اندر
جو با ریک تار ہیں ان کی تعداد اتنی ہے جو
میرے انداز کے مطا بق شمار میں نہیں آسکتی ۔قمقمے کے اندر روشن تار میں کا ئنات
میں موجود ہر مخلوق بندھی ہو ئی ہے ایسا لگتا ہے کہ قمقمہ کٹھ پتلی نچا نے والے کا
ہا تھ ہے جب یہ تا ر ہلتے ہیں تو طر ح طر ح کی مخلوقات آنکھوں کے سامنے آجا تی
ہیں نیولے کی طر ح ایک جا نور کو دیکھ کر میرے اوپر ہیبت طاری ہو گئی ۔ یہ جانور
اتنا بڑا تھا کہ دور سے دیکھنے پر معلو م ہو تا تھا کہ کو ئی پہاڑ ہے اس کے بعد
میں نے زمین پر بہت بڑے بڑے ہا تھی چلتے پھر تے دیکھے ۔ جس طر ح کو ئی مگر مچھ بڑی
مچھلی کونگل جا تا ہے اسی طرح اس جانور نے دیکھتے دیکھتے ایک ہا تھی کو نگل لیا
۔یہ اتنا ڈرا ؤ نا منظر تھا کہ میرے اوپر لرزہ طا ری ہو گیا اور میں مراقبہ جاری
نہ رکھ سکا ۔
ن۔
اختر ، سر گو دھا ۔۔۔
چھٹے
سبق کی مشق کر تے ہو ئے ایک مہینہ دس دن ہو گئے ہیں ابتدائی دس دنوں میں کو ئی چیز
نظر نہیں آئی۔ سر بے انتہا ء بھا ری رہا ۔ زیادہ بوجھ سر کے با ئیں طر ف تھا کبھی
کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دماغ پھٹ جا ئے گا جب تکلیف کا احساس بہت زیادہ بڑھ گیا تو میں نے آپ کی ہدا یت کے مطا
بق صبح و شام ۔ رات چینی ملا کر پھلوں کا رس پینا شروع کر دیا اس تکلیف دہ حالت
میں بالکل غیر اختیاری طور پر میں ایک پا رک میں چل گیا ۔ وہاں تالاب کےکنارے بیٹھا ہو ا خلا ء میں گھور رہا تھا کہ
دماغ میں رو شنی کاایک جھمکا ہوا روشنی کا یہ جھما کا اتنا تیز تھا کہ میری
آنکھیں چکا چو ند ہو گئی اور کھلی آنکھوں سے یہ نظر آیا کہ نا ف کے مقام سے
سورج کی طر ح شعاعوں کا ایک دھارا بہہ
نکلاایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی۔ میں نے ان رو شنیوں کو تا لا ب میں تیرتی ہو ئی
مچھلیوں پر مر کوز کر دیا اس ارادے کے ساتھ کہ تا لا ب کی تمام مچھلیاں سطح آب پر آ جائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تالاب کی تمام
مجھلیاں اوپر آگئیں۔ پھر میں نے یہ ارادہ کیا کہ آدھی مچھلیاں سطح آپ پر تیرتی
رہیں اور آدھی مچھلیاں پا نی میں چلی جا ئیں ۔اس کی بھی تعمیل ہو ئی اس کے بعد
اپنے اندر سے نکلنے والی ان لہرں کو میں نے گلاب کے سرخ پھولوں پہ مر کوز کر دیا
اس ارادے کے ساتھ کہ پھول کا رنگ سفید ہو جا ئے دیکھتے ہی دیکھتے پھول کی سرخ
پنکھڑیاں سفید ہو گئیں لیکن اس بات سے مجھے سخت صدمہ ہوا کہ اور پھول شاخ پر قائم
نہ رہ سکا اور مر جھا گیا۔
ہدایت :
ماورائی
علوم سیکھنے والے تمام طلبا ء اور طلبات کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چا ہئے کہ کو
ئی کام ایسا نہ کر یں جس میں تخر یب کا پہلو ہو ۔ تہہ آب سے سطح ا ٓب پر مچھلیوں
کو لانے میں اور گلاب کے رنگ کی تبدیلی میں تخریب کا پہلو نمایاں ہے ۔ ما ورا ائی
علوم اس لئے سیکھا ئے جا تے ہیں کہ انسان اپنی با طنی صلا حیتوں کو بیدار کر کے
نوع انسانی اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کر ے ۔
ہم
اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے ہر چیز تعمیری اندا ز میں تخلیق کی ہے ۔اس طر
ز فکر کو بیدار اور اجا گر کر نے کے لئے وہ اسباق بیان کئے گئے ہیں جو رو حانیت سے ہم رشتہ ہیں ۔ جس کی تصدیق
اللہ کی کتاب کر تی ہے اور جس کو عام کر نے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے
ہیں ۔تخر یبی زہن کے کسی بندے کو اس کتاب سے استفادہ کرنے کی اجا زت نہیں ہے اس
لئے کہ تخریبی عمل سے خود اسے نقصان پہنچے گا ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔