Topics
عورت اور مرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر
ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے۔ عورت کو صنفِ نازک کہا
جاتا ہے۔ صنفِ نازک کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کر سکتی جو کام
مرد کر لیتا ہے۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے۔ سو سال پہلے علم و فن میں بھی
عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ
مستحق ہے۔ غیر جانبدار زاویے سے مرد اور عورت کا فرق ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
قرآن پاک میں تفکر ہمارے اوپر یہ حقائق
منکشف کرتا ہے کہ مرد اور عورتیں دونوں تخلیقی راز و نیاز ہیں۔ دونوں میں صلاحیتیں
موجود ہیں اگر مرد کسی صلاحیت میں عورت سے قدرے زیادہ ہے تو بالمقابل مرد بھی کئی
صلاحیتوں میں عورتوں سے کم ہے۔علم سے آراستہ ہر فرد جانتا ہے کہ زمانہ کبھی ایک رخ
پر قائم نہیں رہتا۔ اس میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔
تاریخ ہر دس ہزار سال بعد خود کو دہراتی
ہے۔ جہاں پانی ہے وہاں زمین ظاہر ہو جاتی ہے، جہاں زمین ہے وہاں پانی مظہر بن جاتا
ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سمندر خشک زمین میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور خشک زمین سمندر میں
تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس طرح پرانا سسٹم ختم ہو جاتا ہے اور نیا معاشرہ وجود میں آتا
رہتا ہے۔اکیسویں صدی میں جس طرح تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس کے مطابق اب معاشرے
پر عورت کی حکمرانی قائم ہو جائے گی۔
ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ عورت کو اس کے
اصل مقام سے باخبر کر دیں تا کہ عورت جب معاشرے پر حکمران بن جائے تو زمین پر فساد
اور دریائے خون و ہلاکت سے محفوظ و مامون رہے۔
دانشور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نوع
انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے جتنے نبی بھیجے ہیں وہ سب مرد ہیں۔ اللہ نے عورت کو
نبی نہیں بنایا۔ یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ ’’اگر عورت میں علمی فضیلت ہوتی تو
اسے پیغمبر کا اعزاز ضرور حاصل ہوتا۔‘‘
ہر ذی فہم انسان اس بات کا ادراک رکھتا ہے
کہ انبیاء کرام ؑ نے نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور سے آگاہ کیا ہے۔ فطرت
الٰہیہ کے مطابق انہوں نے تمام قاعدے اور ضابطے انسان کو بتا دیئے ہیں۔ جب ہم لفظ
انسان بولتے ہیں تو اس سے مراد عورت اور مرد دونوں ہیں۔ عورت بھی مکمل انسان ہے۔
اس میں بھی نوع انسانی کی ہر صلاحیت موجود ہے۔
معاشرے میں جب برائیاں نیکیوں سے تجاوز کر
گئیں اور ہر سمت شیطنت پھیل گئی تو اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث فرمائے۔ نبی ان اقوام
پر بھیجے گئے جن اقوام نے قوانین فطرت سے انحراف کیا اور حق اور صداقت کے بجائے
کفر و شرک اختیار کیا۔
سات ہزار قبل مسیح تک تاریخی حوالے سے
زمین پر عورتوں کی حکمرانی کے آثار ملتے ہیں۔ اس نظام کو مادری معاشرہ کہا گیا۔ اس
نظام میں انسان فطرت اور جبلت کی رہنمائی میں معاشرتی قدروں کا پابند تھا۔
پورے نظام پر عورت کی گرفت مضبوط تھی پھر
نسلی تعصب، سیاست اور سازشوں سے ایک بڑا انقلاب آیا اور مادری نظام کی جگہ
’’پدرانہ نظام‘‘ رائج ہو گیا۔
نبی وہ ہوتا ہے جس پر وحی نازل ہو اور وہ
وحی کے مفہوم کو سمجھتا ہو۔
وحی کے لفظی معنی ہیں۔
۱۔ اشارہ کرنا ۲۔ پیغام بھیجنا ۳۔ الہام
یعنی دل میں کوئی بات ڈالنا
۴۔ مخفی کلام ۵۔ مخفی یا غیبی آواز ۶۔
مخفی طریقے سے کوئی بات سمجھنا
۱۔ فرشتہ کا گھنٹی کی جھنجھناہٹ کے ساتھ
آنا اور پیغام دینا۔
۲۔ فرشتہ کاانسانی شکل میں آنا۔
۳۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ۔
۴۔ فرشتہ کا خواب میں آ کر کلام کرنا۔
۵۔ حالتِ بیداری یا خواب میں خود اللہ کا
کلام کرنا۔
۶۔ یا جس طرح اللہ چاہے۔
۷۔ پیغام رسانی کا کوئی وسیلہ نہ ہو اور پیغام
بغیر کسی درمیانی واسطے کے پہنچ جائے۔ جیسے رویائے صادقہ۔
۸۔ گھنٹیوں کی آواز سے پیغام اخذ کرنا۔
۹۔ القا اور الہام
اللہ اور انسان کے درمیان قرآن نے گفتگو
کے تین واضح طریقے بتائے ہیں۔
ترجمہ: ’’کسی بشر کی یہ قدرت نہیں ہے کہ
اللہ اس سے روبرو بات کرے اس کی بات یا تو وحی کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے
سے یا پھر کوئی پیغامبر بھیجتا ہے اور پیغام دیتا ہے اللہ جو چاہتا ہے۔‘‘ (سورۃ
شوریٰ : ۵۱)
حاصل کلام یہ ہوا کہ وحی اس طریقے کو کہتے
جس میں پیغام بھیجنے والے اور جسے پیغام بھیجا جا رہا ہے ان دونوں کے درمیان راز
ہو اور اس پیغام رسانی کے طریقے سے دوسرا کوئی واقف نہ ہو۔
وحی کی قسمیں
وحی کا نزول دو طرح ہوتا ہے۔
(۱) جلی (۲) خفی
یہ طریقہ ان انبیاء سے متعلق ہے جو نبی
اور رسول ہوئے ہیں۔
اللہ جب اپنے کسی خاص بندے کو حکم دیتا ہے
تو اسے وحی خفی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ الہام یا القا کرتا ہے یا خواب میں اسے
ہدایت دی جاتی ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت
اسمٰعیل ؑ کو ذبح کر رہے ہیں اور جس طرح رسول اللہﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کو
خواب میں زم زم کا نشان بتایا گیا اور پھر ان کا القا اور الہام ہوتا رہا۔ حضرت
عبدالمطلب نبی نہیں تھے۔
بندے کو ایک آواز سنائی دیتی ہے اور بولنے
والا نظر نہیں آتا۔ جیسے حضرت موسیٰ ؑ نے
کوہ طور پر آواز سنی تھی جو ایک درخت سے آتی ہوئی معلوم ہوئی مگر بولنے والا نظر
نہیں آیا۔
وحی کی ابتداء رویائے صادقہ سے ہوتی ہے۔
خاتم الانبیاء رسول اللہﷺ کے ارشاد کے
مطابق:
’’رویائے صادقہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ
ہے۔‘‘
ہم سب جانتے ہیں کہ رویائے صادقہ عورت اور
مرد دونوں کو نظر آتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
’’(اے محمدﷺ) تم یہ توقع نہیں کرتے تھے کہ
یہ کتاب تم پر القا کی جائے گی۔‘‘
یہاں ’’القا‘‘ وحی کے معنی میں ہے لیکن
ایک اور مقام پر حضرت موسیٰ ؑ سے کہا گیا:
’’(اے موسیٰ ؑ ( جب ہم نے تمہاری والدہ کی
طرف وحی کی۔‘‘
یہاں ’’وحی‘‘ القا اور الہام کی شکل میں
ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ القا اور الہام بھی وحی کی طرح ہیں۔
ابن عربی کہتے ہیں:
’’اور وحی کی ایک قسم الہام ہے جو اللہ
تعالیٰ کسی ظاہری سبب کے بغیر دل میں ڈال دیتا ہے۔‘‘
جلال الدین سیوطی کہتے ہیں:
’’آپ کے قلب مبارک میں کلام الٰہی پھونک
دیا جاتا تھا۔ (یعنی القا ہو جاتا تھا)۔‘‘
ابو اسحاق نے کہا ہے:
’’اصل وحی کا مطلب ہے کہ مخفی طور پر کسی
کو بات بتا دینا۔‘‘
الازہری کہتے ہیں:
’’وحی اشارہ یا ایما دونوں نام سے موسوم
ہے۔‘‘
سچے خواب، فرشتے کی ہمکلامی، القا اور
الہام وغیرہ وحی کی مختلف صورتیں ہیں اور نبی *مہبط(* مہبط کے معنی ہیں کسی چیز کا
نازل ہونا یا اترنا) وحی ہونا لازمی امر ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو فرد(مرد ہو
یا عورت) وحی کا مہبط ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ نبوت کے فرائض ادا کرنے کے لائق
ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں منصب نبوت پر فائز کر سکتے ہیں۔
انسان(مرد و عورت) مہبط وحی ہے۔ اگر عورت
پر وحی نازل ہو سکتی ہے تو وہ اللہ کے چاہنے سے نبی بھی ہو سکتی ہے۔ الہامی اساطیر
اور آسمانی کتابیں اس امر کی گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کی طرف وحی
کی ہے اسی طرح عورتوں کی جانب بھی بذریعہ وحی پیغام بھیجے ہیں۔
خواتین پر وحی جلی بھی نازل ہوئی ہے اور وحی خفی
بھی۔ عورتوں کو الہام بھی ہوتا تھا اور انہیں القا بھی کیا جاتا تھا۔ ان کے پاس
پیغام الٰہی لے کر فرشتے بھی آ چکے ہیں اور فرشتوں نے انسانی صورت میں ان سے تادیر
کلام بھی کیا ہے۔ توریت، انجیل اور قرآن اس کی شہادت فراہم کرتے ہیں۔
’’اور ہم نے موسیٰ ؑ کی ماں کو بذریعہ وحی
پیغام بھیجا کہ اس کو تم دودھ پلاؤ اور پھر جب تمہیں اس کی طرف سے اندیشہ ہو تو اس
کو دریا میں ڈال دو اور کوئی اندیشہ اور فکر مت کرو ہم اس کو ضرور تمہارے پاس واپس
پہنچا دینگے۔‘‘
(سورۃ قصص: ۷)
’’(اے موسیٰ ؑ ) جب ہم نے تمہاری ماں کو
وحی کی، جو بھی وحی کی۔‘‘
(سورۃ طہٰ : 38)
اسی طرح قرآن کریم نے حضرت مریم ؑ کی طرف
بذریعہ القاء وحی کی شہادت دی ہے۔
’’اور اس کا ’’کلمہ‘‘ جسے اللہ نے بذریعہ
القاء مریم کی طرف وحی کیا۔‘‘
(سورۃ النساء : 171)
آخری کتاب قرآن کریم اور تمام آسمانی
کتابیں اس بات کی شاہد ہیں کہ اللہ نے الہام و القاء کے ذریعے عورت کے پاس فرشتے
کو بھیجا اور فرشتے نے بیٹے کی پیدائش کی خبر دی۔
بائبل میں ایسے کئی واقعات مذکور ہیں جہاں
فرشتے نے عورتوں سے کلام کیا ہے۔ جن عورتوں نے فرشتوں سے براہ راست بات کی ان میں
ایک نام منوحہ شخص کی بیوی کا ہے۔ منوحہ کی بیوی بانجھ تھی خدا کے فرشتے نے اسے
بیٹا ہونے کی خوشخبری دی۔
’’خدا کے فرشتے نے دکھائی دے کر اس سے
کہا، دیکھ تو بانجھ سے اور تجھے حمل نہیں ٹھہرتا پر تو حاملہ ہو گی اور بیٹا ہو
گا۔ سو خبردار رہ کہ نشہ کی چیز نہ پینا اور کوئی ناپاک چیز نہ کھانا۔ اس کے سر پر
کبھی استرا نہیں پھروانا اس لئے کہ وہ لڑکا پیٹ ہی سے خدا کا نذیر ہو گا۔‘‘
قفساۃ: باب۱۳ :انسان ۲ تا۵)
اس کے بعد وہ عورت حاملہ ہوئی اور اس کے
یہاں ایک انہتائی خوبصورت بیٹا پیدا ہوا۔ یہ وہی لڑکا ہے جس کا نام تاریخ میں
سیمسن(Samson) بیان کیا گیا ہے۔
حضرت مریم ؑ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے
مریم ؑ کو اللہ کا پیغام سنایا۔
’’پس ہم نے خاص فرشتہ ان کے پاس بھیجا۔ وہ
ان کے سامنے انسان بن کر ظاہر ہوا۔ مریم اس سے کہنے لگی۔ میں تجھ سے خدا کی پناہ
مانگتی ہوں۔ فرشتے نے جواب دیا۔
میں تو صرف تمہارے پروردگار کی طرف سے
بھیجا گیا ایک ایلچی ہوں اور تمہیں ایک پاکیزہ لڑکے کی خبر دینے آیا ہوں۔
انہوں نے کہا۔ بھلا میرے ہاں لڑکا کیسے
پیدا ہو سکتا ہے نہ مجھے کسی مرد نے چھوا اور نہ میں بدچلن ہوں۔
فرشتے نے جواب دیا تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ
یہ میرے لئے آسان ہے اور ایسا ہی ہو گا تا کہ ہم لوگوں کے لئے اس کو نشانی بنا
دیں۔ یہ بات طے شدہ ہے۔
پھر مریم ؑ کو حمل قرار پا گیا پھر وہ اسے
لئے کہیں دور چلی گئیں۔
ان کو دردِ زہ ہوا۔ وہ اس درد کے سبب ایک کھجور
کے درخت کے نیچے چلی گئیں۔
کہنے لگیں۔ کاش میں پہلے مر گئی ہوتی اور
لوگ مجھے بھلا چکے ہوتے!
پھر فرشتے نے مریم ؑ کو پکارا اور کہا۔ غم مت
کرو تمہارے پروردگار نے تمہارے قریب ہی ایک نہر جاری کر دی ہے تم اس کھجور کے تنے
کو ہلاؤ اس سے تم پر تازہ کھجوریں گریں گی تم انہیں کھاؤاور پیو اور ٹھنڈی کرو
اپنی آنکھیں، اور اگر کوئی شخص تم سے بات کرے تو کہہ دینا۔ میں نے خدائے رحمٰن کے
لئے روزے کی نذر مان رکھی ہے ان سے کہہ دینا آج میں کسی سے بات نہیں کرونگی۔‘‘
(سورہۃ مریم: 17۔26)
اللہ کی طرف سے بھیجے گئے پیغامبر فرشتے
نے حضرت مریم ؑ سے طویل گفتگو کی۔ اس طرح قرآن میں عورت کے مبہط وحی ہونے کی شہادت
موجود ہے۔
خاتم الانبیاء محمد رسول اللہﷺ کے زمانے
میں ایک عورت نے آپﷺ سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے اللہ نے مرد کو اتنا بڑا بنا دیا کہ نبی اور
رسول ہو اور عورت کو اتنا پست کر دیا کہ وہ نبی نہیں ہوئی۔
آپﷺ نے فرمایا:
’’یہ تم لوگوں کی غلط فہمی ہے۔ اگر نبیوں
کا سر کسی کے آگے جھکا ہے تو وہ ’’ماں‘‘ ہے اور ماں عورت ہے۔‘‘
ایک بار حضرت رابعہ بصریؒ سے سوال کیا گیا
کہ اللہ نے مردوں کو نبی بنایا ہے لیکن کوئی عورت نبیہ نہیں ہوئی۔
حضرت بی بی صاحبہؒ نے جواب دیا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو مرد کو صرف نبوت پر ہی
فوقیت نہیں ہے۔ مرد نے خدائی کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ مگر کسی عورت نے نمرود،شداد اور
فرعون کی طرح خدائی کا دعویٰ نہیں کیا۔‘‘
حضرت موسیٰ ؑ جب کوہ طور پر تشریف لے گئے
اور انہیں وہاں تیس دن کے بجائے چالیس دن قیام کرنا پڑا تو سونے کا بچھڑا یعنی
پہلا بت ایک مرد سامری نے بنایا۔
مردوں نے انبیاء کی تعلیمات کو نظر انداز
کر کے بت تراشے، بت پرستی کے لئے مندر بنائے، توحیدی عقیدے کو کفر و شرک میں تبدیل
کیا۔ ابلیس نے توحیدی طرز فکر کو عام کرنے کے لئے سامری کو آلہ کار بنایا۔
روئے زمین پر پہلا قتل مرد نے کیا۔
قصہ یوں ہے:
آدم و حوا کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل
تھے۔ ہابیل بھیڑ بکریوں کا چرواہا تھا اور قابیل کسان تھا۔ ایک دن ہابیل نے نذر
دینے کے لئے بھیڑ بکریوں کے پہلوٹی کے بچے اللہ کیلئے وقف کئے اور قابیل نے بھی
اپنے کھیت کے پھل اللہ کے لئے حاضر کئے۔
اس زمانے میں دستور تھا کہ قربانی کے
جانور اور نذر و نیاز کا سامان میدان میں جمع کر دیا جاتا تھا اور جانور کو ذبح کر
کے رکھ دیتے تھے۔
سمان سے ایک شعلہ آتا تھا اور اسے جلا
دیتا تھا۔ یہ عمل اللہ پاک کی جانب سے قربانی قبول ہونے کی علامت تھی۔
ہابیل نے جب اپنی بھیڑ بکریوں میں سے
قربانی کی تو اسی وقت آسمان سے آگ آئی اور اس کی قربانی کو سوختہ کر گئی مگر قابیل
کا ہدیہ اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں کیا اور اس کی نذر کو آگ کے شعلے نے نہیں جلایا۔
اس پر قابیل کے دل میں اپنے بھائی ہابیل کی طرف سے حسد اور دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی
اور اس نے موقع پا کر اسے قتل کر دیا۔
قابیل پریشان تھا کہ اس لاش کو کس طرح
ٹھکانے لگایا جائے۔ اس کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی تھی۔ وہ حیران و
پریشان بیٹھا تھا کہ ایک کوا آیا، کوے نے چون میں کوئی چیز پکڑی ہوئی تھی۔ کوے نے
وہ چیز زمین پر رکھی اور اپنے پنجوں سے زمین کو کھودنے لگا۔ قابیل بڑے غور سے یہ
سب دیکھ رہا تھا۔ کوے نے زمین کھود کر اس چیز کو گڑھے میں رکھا اور پنجوں سے مٹی
بھر دی۔ یہ دیکھ کر قابیل رونے لگا۔
اس نے کہا۔
’’اے میرے پروردگار! بے شک میں کوے سے بھی
گیا گزرا ہوں۔‘‘
اور پھر اس نے کوے سے مردہ جسم دفن کرنے
کا طریقہ سیکھ کر اپنے بھائی کو دفنا دیا۔
قابیل نے جب اپنے بھائی ہابیل کو ناحق قتل
کیا تو وہ فطرت سے دور ہو گیا اور اس کی عقل سوچنے سمجھنے سے عاری ہو گئی۔ اس نے
کوے کی عقل کا اتباع کیا یعنی قابیل کا شعور ایک کوے کے شعور سے بھی زیادہ کمزور
ہے اور قابیل اسفل السافلین میں گر گیا۔
قابیل پہلا مرد ہے جس نے ایک کوے کی عقل
کا سہارا لیا۔ قابیل پہلا مرد ہے جس نے زمین پر پہلا قتل کیا۔
اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو جنت میں بھیجا
تو فرمایا:
’’اے آدم! تو اور تیری زوجہ جنت میں
رہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جنت عطا کرنے میں مرد اور
عورت کی روحانی اور جسمانی صلاحیتوں میں امتیاز نہیں رکھا۔ جب آدم اور حوا سے بھول
ہوئی تو دونوں کو جنت میں سے دنیا میں اتارا گیا۔
ماں کا رشتہ اولاد کے ساتھ باپ کے رشتے سے
زیادہ مضبوط ہے۔ ماں کے وجود کے اندر رحم میں چھپ کر نو مہینے تک پرورش پانے والے
بچے کا تعلق تخلیق کے ہر مرحلے میں ماں کے ساتھ قائم رہتا ہے۔ رحم کے اندر بچے پر
آنے والی مصیبت ماں کے ذہن کو اس حد تک پریشان کر دیتی ہے کہ وہ ہر لمحہ اس کی
صحیح نشوونما کے لئے جدوجہد کرتی ہے اور ساتھ ساتھ اللہ سے دعا بھی کرتی ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی حضرت بی بی ہاجرہؑ
کے بطن سے جب حضرت اسمٰعیل ؑ کی ولادت ہوئی تو حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ کی
جانب سے حکم ہوا کہ اپنی بیوی اور بچے کو مکہ کے صحرا میں چھوڑ آؤ۔ اس وقت مکہ
صحرائے عرب کی بنجر زمین کا ایک ٹکڑا تھا۔ جہاں ریتیلے ٹیلوں کے سوا کچھ نہ تھا۔
حضرت ابراہیم ؑ نے جب بی بی ہاجرہؑ سے
فرمایا کہ میں تمہیں مکہ کے صحرا میں چھوڑنے جا رہا ہوں تو آپؑ نے صرف یہ پوچھا کہ
’’کیا آپ یہ کام اللہ کے حکم سے کر رہے ہیں؟‘‘
حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا:
’’بے شک میرا یہ عمل میرے رب کے حکم کی
تعمیل میں ہے۔‘‘
بی بی ہاجرہؑ نے فرمایا:
’’آپ مجھے اللہ کے حکم کی تعمیل میں
فرمانبردار پائیں گے۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے حکم پر اپنی بیوی
اور نوزائیدہ بچے کو صحرا میں چھوڑ کر چلے گئے۔ چند دنوں کے بعد جب کھانے پینے کا
ذخیرہ ختم ہو گیا اور پیاس سے بچے کی زبان حلق کو لگ گئی تو ماں کے اندر خالقیت کی
فطرت بے قراری کی صورت میں متحرک ہوئی۔ انہوں نے انتہائی بے قراری میں صفا اور
مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ سات چکر کے بعد وہ مروہ سے صفا تک پہنچیں جہاں بچہ
لیٹا ہوا تھا۔ دیکھا کہ اس کی ایڑی کے نیچے چشمہ ابل رہا ہے۔
جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی
فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا اسی طرح ایک عورت حضرت ہاجرہؑ راضی بہ رضا رہیں اور
اللہ تعالیٰ نے ان کے عمل کو اتنا پسند فرمایا کہ حاجیوں پر صفا اور مروہ کے چکر
فرض کر دیئے۔
حضرت عیسیٰ ؑ نے یہودیوں سے فرمایا تھا:
’’مجھے میری ماں نے نیکی کرنے والا بنایا،
مجھے انہوں نے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔‘‘
عورت جس کے سامنے انبیاء تعظیم کے لئے سر
جھکائیں۔ عورت جو نبیوں کو جنم دے۔ وہ کیوں نبوت کی اہل نہیں ہو سکتی۔ بلاشبہ اللہ
تعالیٰ قادر مطلق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو ’’ماں‘‘ کے بلند
مرتبے پر فائز کیا ہے۔ ہر پیغمبر عورت کے وجود سے تخلیق ہوا ہے۔ ہر پیغمبر نے عورت
کا دودھ پیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کی تخلیق و
تولید اور بقا کا اہم ترین کام عورت کے سپرد کیا ہے۔
بائبل میں ہمیں ایسی کئی عورتوں کے نام
ملتے ہیں جو اپنے زمانے میں نبوت کے درجے پر فائز رہی ہیں اور انہوں نے وہی امور
انجام دیئے جو اس زمانے میں ’’مرد نبی‘‘ انجام دیتے تھے۔
یہ عجیب حقیقت ہے کہ مردوں نے جھوٹے نبی
ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
بائبل جن مقدس خواتین کو نبیہ قرار دیتی
ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
۱۔ حَنا نبیہ: حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے
وقت ہیکل میں ان کی ریاضت و عبادت کو چوراسی(۸۴) سال گزر چکے تھے۔ آپ نے حضرت
عیسیٰ ؑ کی پیدائش اور یروشلم کی آزادی اور حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق جو پیشن گوئیاں
کی تھیں وہ سب سچ ثابت ہوئیں۔.
۲۔ خلدہ نبیہ
۳۔ نوعیدہ یاہ نبیہ
۴۔ دبورہ نبیہ
ہر زمانے میں یہ بات بحث طلب رہی ہے کہ :
۱۔ عورت میں روحانی صلاحیت موجود نہیں ہے
یا مرد کے مقابلے میں کم ہے۔
۲۔ عورت میں روحانی اور الہامی مرحلوں سے
گزرنے اور ان کو سمجھنے کی سکت نہیں ہوتی۔
۳۔ عورت روحانی طور پر مرد سے کمزور ہے۔
۴۔ عورت آسمانوں میں پرواز نہیں کر سکتی۔
سوال یہ ہے کہ:
عورت کیوں آسمانوں میں پرواز نہیں کر
سکتی؟ جب کہ عورت اور مرد کی روح ایک ہے۔ خواتین و مرد حضرات کے احساسات اور جذبات
ایک جیسے ہیں۔ جسمانی اور روحانی صلاحیتیں کم و بیش ایک جیسی ہیں۔ دل، دماغ ایک
طرح کے ہیں۔ ناک، کان، آنکھ اور جسمانی اعضاء میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ مرد اور
عورت کے اعمال یکساں قرار دیئے گئے ہیں۔ قرآن حکیم میں وضاحت ہے کہ مرنے کے بعد
اجزاء یعنی قرب الٰہی کا حصول صرف جنس پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار ایمان و
ایقان پر ہے۔ مرد ہو یا عورت اسے ہی قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے جس میں ایمان اور
ایقان ہو۔
’’تم میں سے جو پرہیز گار تر ہے۔ اللہ کے
نزدیک معزز تر ہے۔‘‘
’’مرد ہو یا عورت وہ صاحب ایمان بھی ہو تو
ایسے لوگ (مرد و عورت) جنت میں داخل کئے جائیں گے۔‘‘
(سورۃ النساء: 121)
مرد اور عورت کا کردار منافقت میں یکساں
ہے۔
"اللہ منا فق مردوں اور منافق عورتوں
کو سزا دیگا اور مومن مرد اور مومن عورتوں پر توجہ فرمائے گا ۔"
(سورۃ الااحزاب :۷۳)
قدرت نے انسانی شعور کو فطرت کے مطابق علم
و فہم سے آراستہ کیا ہے۔ پہلے پیغمبر حضرت آدم ؑ سے لے کر آخری نبی حضرت محمد رسول
اللہﷺ تک زمین پر ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے۔ تمام پیغمبروں نے اسلام
اور دین حق کی تبلیغ کی۔ ہر پیغمبر نے توحید کا پرچار کیا اور لوگوں(عورتوں اور
مردوں) کو شرک اور بت پرستی سے منع کیا۔ قرآن سے پہلے کی آسمانی کتابوں اور صحیفوں
میں حق و صداقت ہی کی باتیں دہرائی گئی ہیں۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد پاک ہے:
’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں
وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی پیغمبروں نے کہا ہے۔‘‘
ہر آسمانی کتاب نے عورت اور مرد کو یکساں
حقوق عطا کئے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور
ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمانبردار مرد، فرمانبردار عورتیں، سچے مرد، سچی
عورتیں، صبر کرنے والے مرد، صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد، عاجزی
کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد، خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے
مرد، روزے رکھنی والی عورتیں، اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنے والے مرد، اپنی عصمتوں کی
حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو بہت یاد
کرنے والی عورتیں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے بخشش اور بڑا اجر تیار کر رکھا
ہے۔‘‘
(سورۃ احزاب: ۳۵)
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دادا
حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹے عبداللہ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کر
لیا تو تمام قریش نے متفقہ طور پر مجبور کیا کہ وہ بیٹے کو قربان نہ کریں۔ اس وقت
پورے علاقے میں ایک عورت کے سوا کوئی روحانیت کا ماہر نہیں تھا۔ عارفہ خاتون عرافہ
نے اپنی روحانی قوت سے بتایا کہ انسانی قربانی کا بدل سو(۱۰۰) اونٹ ہیں۔ حضرت
عبدالمطلب نے اللہ کی راہ میں سو اونٹ ذبح کرائے اور اللہ نے اس قربانی کو قبول
کیا۔
روحانیت سے متعلق انسانی تاریخ کی فہرست
میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے نام زیادہ کیوں نہیں ملتے؟
ہمارے خیال میں اس کی بڑی وجہ مرد کے اندر احساس کمتری ہے۔ مرد نے اپنی برتری قائم
رکھنے کے لئے عورت کی روحانی صلاحیتوں پر پہرے بٹھا دیئے۔ یہی نہیں ہوا بلکہ مرد
نے عورت کو بازار کی جنس بنا دیا۔ بھیڑ بکریوں کی طرح عورتوں کو منڈیوں میں فروخت
کیا گیا۔ جادوگرنی ہونے کا الزام عائد کر کے موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا۔
ابتدا میں مرد نے عورت کو دیوی تسلیم کیا
اور اس کی پرستش کی اور اس کی فرمانبرداری میں سر جھکائے رہا۔ مگر بعد میں اسے اس
منصب سے علیحدہ کر کے مرد دیوتاؤں کو اس کی جگہ لا بٹھایا۔ مرد معاشرے نے اپنے دور
اقتدار میں ساحرہ کی سزا موت تجویز کی۔ جب کوئی مرد اپنی بیوی پر جادوگرنی کا
الزام لگاتا تو اسے گھوڑے کی دم سے باندھ کر پانی میں ڈبو کر یا پھر زندہ جلا کر
ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ صرف مرد ہی جادوگر ہوتا ہے۔ عورت
جادوگرنی نہیں ہوتی مردوں کی طرح عورتیں بھی جادوگرنی ہوتی ہیں۔ مگر تاریخ کے
صفحات عورت کی مظلومیت سے بھرے پڑے ہیں۔
تاریخی حوالوں کے پیش نظر عورت کی جس قدر
تذلیل مرد معاشرے نے کی ہے اس کی تصدیق اس امر سے ہوتی ہے کہ عرب لڑکیوں کو زندہ
دفن کر دیتے تھے۔
جب کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے تفکر کیا
جاتا ہے تو بہت سی ایسی باتیں شعور پر ابھر آتی ہیں جن کا تجزیہ اگر کیا جائے تو
بہت تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔
قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز جوڑے
جوڑے بنائی ہے عورت مرد کا لباس ہے اور مرد عورت کا لباس ہے۔
دانشور کہتے ہیں کہ عورت کو مرد کی اداسی کم کرنے اور اس کا دل خوش کرنے کے لئے
پیدا کیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ کھلی نا انصافی اور احسان فراموشی ہے۔ ناشکری اور
ناانصافیوں کا رد عمل بھیانک اور المناک ہوتا ہے۔ دنیا کے علوم سے آراستہ دانش
وروں کے فیصلے کو ہم کم عقلی پر مبنی قرار دے سکتے ہیں۔ مگر جب ہم یہ دیکھتے ہیں
کہ روحانی علوم کے سلسلے میں بھی عورت کو نظر انداز کیا گیا ہے تو دماغ ماؤف اور
عقل پریشان ہو جاتی ہے ۔
سینکڑوں سال کی تاریخ میں مشہور و معروف
اولیاء اللہ کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو صرف ایک عورت کی نشاندہی ہوتی ہے اور
اسے بھی آدھا قلندر کہہ کر اس کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ مرد کسی علم میں Ph.Dکرتا ہے۔ عورت بھی Ph.Dکرتی ہے کیا ہم
عورت کو آدھا ڈاکٹر کہتے ہیں۔ ایک عورت جہاز اڑاتی ہے کیا ہم اسے آدھا پائلٹ کہیں
گے؟ جس طرح مرد قلندری صفات کا حامل ہے اسی طرح جب عورت میں قلندرانہ صفات متحرک
ہو جاتی ہیں تو وہ بھی پوری قلندر ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا روحانی طور پر عورت کی
تخصیص کی جا سکتی ہے؟ کیا روح کمزور اور حقیر ہوتی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو عورت
کے روحانی مراتب کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
سوال: خواتین پوچھتی ہیں کہ تاریخ میں
اولیاء اللہ مردوں کی طرح ان عورتوں کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا جو اللہ کی دوست
ہیں جبکہ جو صفات قرآن میں مردوں کے لئے بیان ہوئی ہیں وہی صفات عورتوں کے لئے
بیان ہوئی ہیں۔ اگر قرآن کریم کے نزدیک عورت کا مقام مرد سے کم تر ہوتا اور اس کی
بزرگی اور عظمت مرد کے مساوی نہ ہوتی تو قرآن پاک میں ’’سورۃ مریم‘‘ حضرت مریمؑ کے
بجائے حضرت عیسیٰ ؑ سے منسوب ہوتی۔ سورۃ النساء کا نام ’’سورۃ النساء‘‘ ہونا خود
عورت کی فضیلت ہے۔
یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ دنیاوی معاملات
میں عورت مرد کے برابر ہو لیکن روحانی صلاحیتوں اور ماورائی علوم میں وہ مردوں سے
کمتر ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ نے عورت کے معاملے میں بخل سے کام لیا ہے اور اس کی
وجہ یہ ہے کہ مادری نظام ختم ہونے کے بعد ’’قلم‘‘ پر مرد حضرات کی اجارہ داری قائم
ہو گئی تھی۔
لاکھوں سال کی تاریخ میں کوئی ایک فرد اس
بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ عورت ایک ماں ہے جو نو ماہ اور دو سال تک اپنا خون
جگر بچے کے اندر انڈیلتی رہتی ہے۔ یہ بدنصیبی اور ناشکری ہے کہ ہم اس کو تفریح کا
ذریعہ قرار دیں۔ بے روح معاشرے نے عورت کو مرد کے مقابلے میں ایسا کردار بنا دیا
ہے جس کو دیکھ کر گردن ندامت سے جھک جاتی ہے۔
مرد حضرات، عورت کو سرپرستی کے لائق نہیں
سمجھتے کیونکہ انہیں یہ گوارا نہیں ہے کہ سرپرست عورت ہو۔ وہ اس منصب کو اپنی
’’انا‘‘ اور حاکمیت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ حالانکہ سرپرستی کا فریضہ فطرت الٰہیہ نے
عورت کو سونپ دیا ہے۔ مرد عورت ہی کی سرپرستی میں پروان چڑھتا ہے۔ بالغ ہونے تک
مرد عورت کی سرپرستی میں زندگی گزارتا ہے۔
حقیقت پسند علماء نے اس رائے کا اظہار کیا
ہے کہ پردہ کے سبب عورت حکمرانی کے منصب کے لائق نہیں ہے۔ پردہ رکاوٹ نہ بنے تو
عورت کو سربراہ یا خلیفہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے نائب
کے ذریعے امور مملکت انجام دے سکتی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کوئی شخص اس وقت
ہی ذمہ داری پوری کر سکتا ہے جب اس کے اندر اہلیت ہو۔ جو بندہ اہلیت ہی نہیں رکھتا
وہ اپنے نائب سے بھی کام نہیں لے سکتا۔ کیا نا اہل مرد حاکم نہیں ہوئے؟ کیا مرد
خود مرد ہوتے ہوئے اپنے نائب کے ذریعے امور مملکت انجام نہیں دیتے رہے؟
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت خدیجہؓ ایک بڑی اور
تجربہ کار تاجرہ تھیں۔ وہ تجارت کے تمام امور بطریق احسن انجام دیتی تھیں۔
’’پردہ‘‘ کا عذر پیش کر کے عورت کی اہلیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ پردہ کا مطلب
یہ نہیں ہے کہ عورت کو چہار دیواری میں قید کر دیا جائے۔ ہر زمانے میں عورت نے گھر
کے علاوہ گھر کے باہر کے کام بھی انجام دیئے ہیں۔ جہاد میں شریک ہوتی رہیں۔ ٹیچنگ
کا کام کیا ہے اور بڑے بڑے فیصلے کئے ہیں۔
ہارون الرشید کی بیگم ملکہ زبیدہ جب حج
کرنے گئی تو اس نے دیکھا کہ مکہ میں پانی کی قلت ہے۔ حج سے واپس آ کر اس نے IRRIGATION
انجینئروں کے ساتھ میٹنگ کی۔ ان کو حکم دیا کہ دریائے فرات سے عرفات تک نہر کھودی
جائے۔ انجینئروں نے سروے کے بعد رپورٹ پیش کی کہ منصوبہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا
کیونکہ راستے میں پہاڑ، ٹیلے ، صحرا اور سخت زمین ہے۔
ملکہ زبیدہ نے کہا:
’’یہ منصوبہ پورا ہو گا۔ اگر کدال کی ایک
ضرب پر ایک اشرفی خرچ ہو تو میں کرونگی۔‘‘
ملکہ زبیدہ کا عزم اتنا پختہ تھا کہ ’’نہر
زبیدہ‘‘ بن گئی اور آج بھی اس نہر سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔
عورت کو ناقص العقل بھی کہا جاتا ہے۔ عقل
کے بنیادی حقائق سامنے رکھ کر گفتگو کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مرد بھی
ناقص العقل ہوتا ہے۔ سارے ہی مرد عاقل اور دانشور نہیں ہوتے۔
’’عقل‘‘ انسان کو حیوان پر فوقیت دیتی ہے۔
جب تعلیم اتنی عام نہیں تھی جتنی آج ہے تو اس وقت عقل کا معیار یہ تھا کہ زیادہ
عمر کے آدمی سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ بڑی عمر کی وجہ سے وہ زیادہ ہوشیار اور تجربہ
کار ہوتا تھا۔
ایک طبقہ کا خیال ہے کہ مردوں نے عورتوں
کے اوپر پابندیاں لگا کر اسے علم اور تجربے سے محروم رکھنے کی کوشش کی ہے جس میں
وہ بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔
تقسیم ہند سے قبل عورت کی تعلیم کو اچھی
نظر سے نہیں دیکھا جا تا تھا۔ لڑکیوں کی تعلیم میں مرد حضرات مزاحمت کرتے تھے۔
مفروضہ یہ تھا کہ لڑکیاں پڑھ لکھ کر عشقیہ خطوط لکھیں گی جب کہ یہ بات کسی طرح بھی
قابل قبول نہیں ہے۔
لکھتے ہوئے ندامت ہوتی ہے کہ ہمارے
دانشوروں نے انگریزی پڑھنا مردوں کے لئے بھی ناجائز قرار دیا تھا۔ لڑکیاں تو بے
چاری اور بے زبان تھیں۔
۶۱۲ء میں ہندوستان ’’جنت نشان‘‘ میں طبقہ
نسواں کی مظلومیت حد سے گزر چکی تھی۔ عورتوں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں کیا
جاتا تھا۔ عورتوں کے حقوق نہیں تھے۔ ہندو مذہب کی رو سے عورت کو مذہبی تعلیم دینا
ایک ناقابل معافی جرم تھا۔ مشہور مذہبی پیشوا ’’منوجی‘‘ کا قول ہے کہ:
’’عورت ہرگز قابل اعتبار نہیں۔ بچپن میں
اس کے باپ کو چاہئے کہ اس کی نگرانی کرے، جوان میں شوہر کا فرض ہے کہ ہر وقت اس کی
حفاظت کرے۔
ہندوستان کے اکثر صوبوں میں دستور تھا کہ
عورتوں کو مندر کی پاسبانی کے لئے وقف کر دیا جاتا تھا۔ وہ بظاہر پاک دامن اور
مقدس تھیں لیکن در پردہ پجاریوں، مہاتماؤں اور یاتریوں کا ان کے ساتھ اچھا سلوک
نہیں تھا۔ مندر میں دیوتاؤں کے سامنے عورت کی قربانی کی جاتی تھی۔
جب کوئی شخص قرض دار ہو جاتا تھا تو قرض
کی ادائیگی میں اپنی بیوی کو دے دیا کرتا تھا۔ اور جب رقم ادا ہو جاتی تھی تو عورت
کو واپس لے آتا تھا۔ راجے مہاراجے جوئے میں اپنی بیویوں کو ہار جاتے تھے۔
(تاریخ ہند۔ مصنفہ۔پنڈت رادھا کرشن)
ہندوستان کے صوبوں میوات، راجپوت اور
مارواڑ میں عورتوں کی حالت اتنی بری تھی کہ تذکرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مارواڑ کے
ایک خاندان میں چار بھائیوں کی ایک ہی بیوی تھی۔
ہندوؤں کے ایک بڑے بزرگ کا قول ہے کہ آگ کے
شرارے اور زہریلا سانپ یقیناً انسان کے دشمن ہیں لیکن عورت ان سب سے بڑھ کر دشمن
ہے۔ ایک سمجھد ار آدمی ہولناک سیلاب سے بچ سکتا ہے اور زہریلے سانپ کے کاٹے کا
علاج کرا سکتا ہے لیکن عورت کی چالاکی اور عیاری سے بچنا محال ہے۔ عورت اس قابل
نہیں کہ اس پر بھروسہ کیا جائے اور اس کو راز دار بنایا جائے۔
ہندوستان میں بیوہ عورت دوسری شادی نہیں
کر سکتی تھی۔ بچپن میں ہی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی تھی۔ رخصتی سے قبل اگر شوہر
مر جاتا تو لڑکی ساری عمر بیوہ بن کر زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ بیوہ ہونا
بدنصیبی کی علامت قرار دے دی گئی تھی۔ بستر پر اور چارپائی پر سونے کی اجازت نہیں
تھی۔ کھانا بغیر نمک مرچ کا صرف ’’پانی کا شوربہ‘‘ ہوتا تھا۔ زیور اور رنگین کپڑے
پہننا اور خوشبو لگانا ممنوع تھا۔ عہد وسطیٰ میں بیوہ کے بالوں کو مونڈھ دیا جاتا
تھا اور مرتے دم تک وہ سر پر استرا پھروانے پر مجبور تھی۔
بیوہ عورت عبادت کے ساتھ ساتھ مرحوم شوہر
کی طرف سے بھی مذہبی رسومات ادا کرنے کی پابند تھی۔ مذہبی دانشوروں نے اسے یقین
دلا دیا تھا کہ دوسری دنیا میں اس کی شادی مرنے والے شوہر کے ساتھ ہو جائے گی۔
بیوہ عورت کے لئے خاندانی تہواروں میں شرکت ممنوع تھی۔ یہ تصور کیا جاتا تھا کہ
بیوگی تمام حاضرین کے لئے بدبختی کا پیغام بن سکتی ہے۔ بیوہ عورت میکے میں نہیں رہ
سکتی تھی ساری زندگی اسے سسرال میں رہنا پڑتا تھا۔ گھر کے ملازمین بھی اسے حقارت
سے دیکھتے تھے۔
قدیم چین، ہندوستان اور یورپ میں یہ رسم عام
تھی کہ عورتیں اپنے شوہر کی چتا پر جل کر رکھ ہو جاتی تھیں۔
مذہبی دانشورکہتے تھے کہ جو عورت شوہر کے
ساتھ جل کر مر جائے وہ پاکباز ہے۔ مرد کے ساتھ اس کی بیویوں، گھوڑوں اور دوسری
محبوب اشیاء کو لاش کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا یا دفن کر دیا جاتا تھا۔ تا کہ مرد کو
دوسری دنیا میں وہ ساری چیزیں دستیاب ہو جائیں جن سے وہ محبت کرتا تھا۔
کتاب ’’رگ وید‘‘ سے پتا چلتا ہے کہ پرانے
زمانے میں جب شوہر کی لاش کو جلایا جاتا تھا تو اس کی بیوی کو برابر لٹا دیا جاتا
تھا۔
’’ستی‘‘ کی پہلی یادگار مدھیہ پردیش میں
اران(Eran) کے مقام پر ہے۔ یہاں ۵۱۰ء کا ایک کتبہ لکھا ہوا ہے:
’’بھانو گپت اس زمین کا شجاع ترین انسان
آیا۔ جو ایک بادشاہ تھا اور رارجن کی طرح بہادر اور دلاور تھا۔ اور گپت راج نے اس
کا اتباع کیا۔
جس طرح ایک دوست، ایک دوست کا اتباع کرتا ہے۔
اور اس نے ایک عظیم اور مشہور جنگ لڑی۔
اور جنگ کی طرف سدھارا، وہ سرداروں میں
ایک دیوتا تھا۔
اس کی بیوی جو فرمانبردار، خوش خصلت،
خوبصورت اور پرکشش تھی اس کے پیچھے پیچھے شعلوں کی آغوش میں جل کر راکھ ہو گئی۔‘‘
ساتویں صدی عیسوی کے انسانیت نواز شاعر بانؔ نے اس رسم کی مذمت کی۔
تانتری حلقے اس کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ جو عورت اپنے شوہر کے ساتھ خود سوزی (ستی) کی مرتکب ہوتی ہے
وہ سیدھی جہنم میں چلی جاتی ہے۔
عہد وسطیٰ کے بعض مصنفین نے لکھا ہے کہ وہ
پاکباز عورت جو خود سوزی کر کے اپنے اور اپنے شوہر کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیتی
ہےوہ اور اس کا شوہر تین کروڑ پچاس لاکھ
سال تک ’’جنت‘‘ میں پر مسرت زندگی بسر کریں گے۔
چونکہ بیوہ عورت کی زندگی بھیڑ بکریوں اور
کتے بلیوں سے بھی بدتر بنا دی جاتی تھی اس لئے وہ بھوک، طعن و تشنیع، خانگی غلامی
سے بچنے کے لئے موت کو زندگی پر ترجیح دیتی تھی۔
چین میں بھی عورت عزت و احترام سے محروم
تھی۔ چین کے حکماء و علماء کا خیال تھا کہ ’’عورت‘‘ مرد کے مقابلے میں نہایت حقیر
و ذلیل شئے ہے۔ شقاوت و عداوت، خود غرضی اور خود ستائی سے معمور ہے۔ عورت ایسے پھل
کی طرح ہے جو دیکھنے میں خوبصورت اور ذائقے میں کڑوا ہے۔
۵۹۲ء کے چین میں دستورتھا کہ نکاح کے بعد
دلہن کا باپ ریشمی کوڑا پہلے دلہن کو مارتا تھا پھر وہ کوڑا اپنے داماد کو دے دیتا
تھا اور کہتا تھا کہ تم اس تازیانہ ہدایت سے کام لیتے رہنا۔ چین میں یہ بھی دستور
تھا کہ نکاح کی مجلس میں دلہن کا باپ کہتا تھا کہ میں نے رحم و کرم کے جذبے سے اس
لڑکی کی پرورش کی ہے اور اس کی شادی کا فرض ادا کرتا ہوں لیکن میں ’’دولہا‘‘ سے
کہتا ہوں کہ عورت ایک پیکر فساد اور مجسمہ فریب ہے۔ ضروری ہے کہ تم اس کی چالاکیوں
سے باخبر رہو۔ یہ ممکن ہے کہ عورت سالہاسال صراط مستقیم پر قائم رہے لیکن یہ ممکن
نہیں ہے کہ وہ اپنی فطرت سے جنگ کرے۔
(سفر نامہ ابنِ شریق۔ مطبوعۂ بیروت)
جس زمانے کی عورت کو ناقص العقل کہا گیا
ہے اس وقت عورت کو قید کر کے رکھا جاتا تھا۔ آزادی کے دروازے عورت پر بند کر دیئے
گئے تھے۔ ستم* بالائے ستم یہ ہے کہ عورت کی ناک میں نکیل ڈالی جاتی تھی۔ ہاتھوں
میں ہتھکڑیاں پہنائی جاتی تھیں۔ پیروں میں بیڑیاں ڈالی جاتی تھیں۔ گلے میں طوق
پہنائے جاتے تھے۔
(* ہمارا منشاء یہ نہیں ہے کہ عورتیں زیور
پہننا چھوڑ دیں۔ ہم نے تاریخی حقائق بیان کئے ہیں)۔
متمدن ملک چین میں لڑکیوں کے پیدا ہوتے ہی
ان کے پیروں میں لوہے کے جوتے پہنائے جاتے تھے اور یہ لوہے کے جوتے ۱۲،۱۳ سال کی
عمر تک لڑکیوں کے پیروں کو شکنجے میں جکڑے رہتے تھے۔ نتیجے میں عورت کے پیر چھوٹے
رہ جاتے تھے۔ آج بھی پرانے زمانے کی یاد موجود ہے۔ ایسی بڑی عمر کی عورتیں مل جاتی
ہیں جن کے پیر بہت چھوٹے ہیں۔ یہ ستم اس لئے کیا جاتا تھا کہ عورت گھر سے بھاگ کر
کہیں اور چلی نہ جائے۔
زمانہ جاہلیت میں عورت کو انسان اور حیوان
کے درمیان کی ایک مخلوق بنا دیا گیا تھا۔ جس کا کام نسل انسانی کی پیدائش اور مرد
کی خدمت کرنا تھا۔ لڑکیوں کی پیدائش باعث ذلت و رسوائی تھی۔ پیدا ہوتے ہی لڑکیوں
کو زندہ دفن کر دینا شرافت اور افتخار کا باعث تھا۔ ہر جگہ عورتیں مردوں کے ظلم و
ستم کا شکار تھیں۔ مرد نازک اور کمزور صنف کے مقابلے میں درندہ بن گیا تھا۔
چوپایوں اور دوسرے جانوروں کی طرح عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ مرد تسکین
حاصل کرنے کے لئے عورت پر جبر و تشدد کرتا تھا۔
٭( ہمارا منشاء یہ نہیں ہے کہ عورتیں زیور
پہننا چھوڑ دیں ۔ ہم نے تاریخی حقائق بیان
کئے ہیں۔)
سقراط
قدیم یونان کی تاریخ کے مطابق ۵۷۲ء میں علماء یونان کا خیال تھا کہ سانپ
کے ڈسنے کا علاج ہے لیکن عورت کے شر کا علاج نہیں ہے۔ جتنی جلدی ہو اس مجسمہ شر کو
ذلت کے آخری غار میں دھکیل دیا جائے۔ یہ کیسی افسوسناک بات ہے کہ عورت ہماری روح
کو بے چین کرتی ہے۔
مشہور فلاسفرسقراط نے اپنی ایک تقریر میں
کہا:
’’میں نے جس مسئلے پر غور کیا، اس کی
گہرائیوں کو باآسانی سمجھ لیا لیکن میں آج تک عورت کی فطرت کو نہیں سمجھ سکا۔ میں
اس بات کا ادراک نہیں رکھتا کہ عورت کس قدر فتنہ انگیز طاقت رکھتی ہے۔ اگر دنیا
میں عورت کا وجود نہ ہوتا تو دنیا امن و سکون کا گہوارہ ہوتی۔ لیکن آہ! عورت نے
دنیا کے سارے امن کو تباہ کر دیا۔
میں اپنے مشاہدات کی بناء پر کہتا ہوں کہ
شیر کے حملوں سے جتنے آدمی مرتے ہیں اور سانپ کے کاٹے سے جتنے آدمی ہلاک ہوتے ہیں
اور بچھو زنی سے جتنے بے قرار ہوتے ہیں ان کی تعداد کم ہے اور ان لوگوں کی تعداد
زیادہ ہے جو عورت کے مکر و فریب کے جال میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔‘‘
برطانیہ(ENGLAND) جو
آج تہذیب و تمدن کا مرکز سمجھا جاتا ہے اور خود کو آزادی نسواں کا علمبردار کہتا
ہے۔ ۵۲۱ء میں جہالت اور ظلم کا مرکز تھا۔ وہاں عورت کی حیثیت یہ تھی کہ کمزور اور
بدصورت لڑکیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔
چھٹی صدی کے مشہور فلاسفر طاس ہارڈونگ کا
قول ہے۔
’’میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ عورت ایک
شیطانی جادو ہے جس کے اثر سے محفوظ رہنا نہایت دشوار امر ہے۔ عورت ایک ایسے پھول
کی مانند ہے جو بظاہر خوشنما نظر آتا ہے لیکن اس میں بے شمار کانٹے ہیں۔‘‘
کتاب النوادر میں لکھا ہے:
’’وہ کون سا ظلم ہے جو شام اور فلسطین کے
لوگ عورتوں پر نہیں کرتے تھے۔ اگر وہ ہزار برس بھی اپنے رحمدل ہونے کے دلائل بیان
کر دیں تب بھی عورتوں پر مظالم کی داستان کا نقش ان کی پیشانی سے نہیں مٹ سکتا۔
اہل علم اور دانشوروں کا فیصلہ تھا کہ عورت، مرد کے مقابلے میں نہایت کمتر ہے۔
عورت اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ مرد کی خدمت کرے اگر اس سے خطا اور قصور سرزد ہو تو
اس کی عبرتناک سزا دینی چاہئے۔‘‘
فلسطین کے ایک شاعر کا قول ہے کہ:
میں ایک دشت پر خار میں زندگی بسر کرنا
پسند کرتا ہوں اور مجھے صحرائی درندوں کے ساتھ رہنا گوارا ہے لیکن عورت کے ساتھ
زندگی گزارنا ہولناک مصیبت ہے کیونکہ وہ میرے عقیدے میں دنیا کے تمام خطرناک
درندوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔
اسلام آنے سے قبل عرب بے شمار اخلاقی
برائیوں کا مرکز تھا۔ جس طرح دنیا کے دوسرے خطوں میں عورت کی حالت بدتر تھی اسی
طرح عرب میں بھی عورت مظلومیت کی پیکر تھی۔ عربوں نے اسبات کو فراموش کر دیا تھا
کہ عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں۔
عورت ہر مرد کی ماں ہے۔ عورت کے سینے میں
بھی دل ہے جو اچھے سلوک سے خوش اور برے سلوک سے رنجیدہ ہوتا ہے۔
عورت کی زندگی کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ
مرد کی اطاعت کرے۔ مرد کی موجودگی میں عورت کا بیٹھنا ممنوع تھا وہ کھڑی رہتی تھی۔
مرد کے سامنے اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتی تھی معمولی سا قصور موجب قتل بن
جاتا تھا۔
مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ عرب میں دختر
کشی کی رسم عام تھی۔ اعلیٰ خاندان کے مرد، بیٹی کے وجود کو اپنی ذلت سمجھتے تھے۔
باپ جب لڑکی کو زندہ دفن کر کے آتا تھا تو بھری مجلس میں مسرت اور فخر کا اظہار
کرتا تھا۔
زمانہ جاہلیت کے برعکس، اسلام نے عورت کو
وہ تمام حقوق عطا کئے جو معاشرے میں مردوں کو حاصل تھے۔ اور اسلامی طرز فکر کی
نشاندہی کی کہ ’’عورت کی گود ہی دراصل تربیت گاہ ہے۔‘‘
یحییٰ برمکی کہتے ہیں کہ سادہ لباس، عورت
کی عفت اور عظمت کا محافظ ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ دور جاہلیت میں عورتیں رہن بھی
رکھی جاتی تھیں۔
ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں۔
جاہلیت کے دور میں نکاح کی چار صورتیں تھیں۔
* ایک طریقہ تو یہی تھا جو آج کل رائج
ہے۔.
* دوسرا طریقہ نکاح ’’استبضاع‘‘ تھا۔ یہ
نکاح اس لئے کرتے تھے کہ ’’نجیب لڑکا‘‘ پیدا ہو۔ اس میں شوہر اپنی منکوحہ سے کہتا
تھا کہ حیض کے بعد تو فلاں مرد کے پاس چلی جا اور اتنی مدت شوہر اپنی بیوی سے
علیحدہ رہتا تھا۔ حمل ظاہر ہو جانے کے بعد شوہر اپنی بیوی کے قریب جاتا تھا۔
* نکاح کی تیسری شکل یہ تھی کہ عورت سے کم
سے کم دس عدد مرد لطف اندوز ہوتے تھے۔ جب حمل ظاہر ہوتا اور بچہ کو پیدا ہوئے کچھ
دن گزر جاتے تھے تو قاصد کے ذریعہ عورت ان تمام مردوں کو بلاتی تھی جب سب جمع ہو
جاتے تو عورت اعلان کرتی کہ یہ بچہ فلاں شخص کا ہے۔ اب تم اپنی پسند سے اس کا نام
رکھو۔
* کچھ عورتوں کے دروازوں پر جھنڈے لگے
رہتے تھے۔ جب ان کے یہاں بچہ پیدا ہوتا تو قیافہ شناس کو بلایا جاتا تھا۔ اور وہ
اپنے قیافہ سے کسی ایک مرد کی نشاندہی کرتا تھا اور مرد اس سے انکار نہیں کر سکتا
تھا۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ نکاح کی ان صورتوں
کوبیان کر کے فرماتی ہیں کہ ان تمام ناجائز صورتوں کو آنحضرتﷺ نے ختم فرما دیا۔
آپﷺ کی آمد سے ظلمت کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔
مظلوموں کو سر اٹھانے کا موقع ملا۔ افراط و تفریط ختم ہوئی۔ حقدار کو اس کا جائز
حق ملا۔ جور و ستم کی چکیوں میں پسنے والی عورت کو اسلام نے اپنے دامن عافیت و
حمایت میں سمیٹا۔ عورت کے تقدس کی بحالی میں کسی قسم کی چشم پوشی نہیں کی گئی۔
بدکاری اور بے آبروئی کے جتنے بھی راستے تھے ایک ایک کر کے ختم کر دیئے گئے۔
نسوانی حقوق کے سلسلے میں قرآن نے پہلا مشورہ دیا۔
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم
سب کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔ اور ان دونوں سے
بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔‘‘
(سورۃ النساء: ۱)
مفہوم یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی چشمہ
کی دو نہریں ہیں۔
اسلام سے قبل عورتوں کی حیثیت یہ تھی کہ
مرد سے اپنی میراث سمجھتا تھا۔ عورت کی رضامندی یا مشورے کا کوئی تصور نہیں تھا۔
مرد جہاں چاہے عورت کو فروخت کر دیتے تھے۔
اسلام نے عورت کے مردوں کی میراث ہونے کے
تصور کو ختم کر دیا۔ قرآن میں واضح طور پر ارشاد ہے کہ
’’قیامت کے دن مر داور عورت یکساں ہونگے۔
جزا یا سزا سب کو ان کے اعمال کے مطابق ملے گی۔‘‘
’’رشتوں کا خیال رکھو۔ اللہ تمہیں ہر وقت
دیکھ رہا ہے۔‘‘
(سورۃ النساء: ۱)
’’مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس واسطے کہ
بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر اور اس کے لئے خرچ کئے انہوں نے اپنے مال۔
‘‘ (سورۃ النساء :34)
اسلام نے مرد کو جو برتری دی ہے وہ صرف اس
لئے ہے کہ مرد کو خاندان کا سربراہ وکفیل بنایا گیا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ اللہ
تعالیٰ نے اس کو جسمانی طور پر عورتوں سے زیادہ طاقت دی ہے۔ لیکن بہت سے حالات میں
عورت وہ کچھ کرتی ہے جو مرد نہیں کرسکتا۔
مثلاً نومہینے بچے کو پیٹ میں غذا فراہم کرنا۔ پیدائش کے بعد سوا دو سال تک دودھ
پلانا۔ بزرگ خواتین و حضرات تسلیم کرتے ہیں کہ ایک بچے کا کام چار بڑے آدمیوں کے
برابر ہوتا ہے۔
’’اور ہم نے انسان کو والدین کے بارے میں
تاکید کی کہ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا۔ کمزوری پر کمزوری جھیلی اور دو برس
بعد دودھ چھڑایا۔ یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔ آخر مجھ ہی تک آنا ہے۔‘‘
(سورۃ لقمان: ۱۴)
اسلام نے عورت کو حق دیا کہ وہ انفرادی
طور پر کاروبار اور معاشرتی روابط قائم کر سکتی ہے۔ جائداد رکھ سکتی ہے۔ غرض ہر وہ
کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے۔ صحابیاتؓ اور دیگر معروف مسلمان خواتین کے
واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے ملازمت، کاروبار، زراعت، تبلیغ، طب، فوج اور
دیگر تمام شعبوں میں آزادانہ کام کیا ہے۔ دور جاہلیت میں عورت کو کمزور، لاغر،
بیوقوف اور ناقص العقل کہا جاتا تھا اور شادی کے معاملے میں والدین یا ولی کی
رضامندی ضروری سمجھی جاتی تھی۔اسلام نے جہاں ماں باپ کی وراثت اور زندگی کے دیگر
شعبوں میں عورت کے حقوق متعین کئے ہیں وہاں شادی جیسے اہم مسئلے پر بھی اس کی رائے
اور رضامندی کو نظر انداز نہیں کیا۔ اگر ایک عاقل اور بالغ لڑکی برضا و رغبت شادی
کے لئے رضامند نہ ہو تو شادی نہیں ہو سکتی۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے
فرمایا کہ کنواری عورت سے نکاح کے معاملے میں اجازت حاصل کی جائے اگر دریافت کرنے
پر وہ خاموش رہی تو اسی کو اس کی اجازت سمجھا جائے اور اگر انکار کرے تو اس پر جبر
نہیں کرنا چاہئے۔
(ترمذی، ابوداؤد، نسائی، دارمی)
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں ہ ایک کنواری
لڑکی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کر
دیا ہے وہ اس نکاح سے ناخوش ہے۔ آپﷺ نے اسے نکاح ختم کرنے کا اختیار دے دیا۔ (ابو
داؤد)
حضرت خنساء، بنتِ خدامؓ کہتی ہیں کہ وہ
بیوہ تھیں ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا وہ اس نکاح سے ناخوش تھیں۔ انہوں نے
نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق عرض کیا۔ آپﷺ نے وہ نکاح رد کر دیا۔
(بخاری)
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ بریرہؓ کا
شوہر ایک نحیف سیاہ فام غلام تھا۔ وہ مدینہ کی گلیوں میں روتا ہوا بریرہؓ کے پیچھے
پیچھے پھرتا تھا، آنسوؤں سے اس کی داڑھی بھیگ جاتی تھی۔ نبی کریمﷺ نے ایک روز
فرمایا:
’’عباسؓ! کیا تمہیں اس پر تعجب اور حیرت
نہیں ہے کہ مغیث، بریرہ کو چاہتا ہے اور بریرہ اس سے نفرت کرتی ہے؟‘‘
پھر آپﷺ نے بریرہ سے فرمایا:
’’بریرہ! کاش تو رجوع کر لیتی ‘‘ یعنی
مغیث سے دوبارہ نکاح کر لیتی۔
بریرہؓ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہﷺ! کیا آپﷺ مجھے حکم دیتے
ہیں؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا کہ’’میں حکم نہیں دیتا
سفارش کرتا ہوں۔‘‘
بریرہؓ نے عرض کیا:’’مجھے اس کی ضرورت
نہیں۔‘‘ (بخاری)
زمانہ جاہلیت میں مرد کھڑے کھڑے تین دفعہ
طلاق کے الفاظ کہہ کر اپنی بیوی کو علیحدہ کر دیتا تھا۔ اسلام نے اس طریقے کو ختم
کر کے ایک لائحہ عمل بنایا کہ میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی صورت میں دونوں کے
خاندانوں میں سے ایک ایک ثالث مقرر کیا جائے۔ اور وہ ان میں صلح کرانے کی کوشش
کریں۔ اگر کامیاب نہ ہوں تو پھر تین وقفوں سے طلاقیں دی جائیں۔
اسلام نے طلاق کی اجازت شدید ضرورت میں دی
ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘
(ابو داؤد۔ ابن ماجہ)
حضرت محمود بن لبیدؓ کہتے ہیں کہ نبی
کریمﷺ کو بتایا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین ایک ساتھ طلاقیں دی ہیں۔ آپﷺ
غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا:
’’کیا خدا کی کتاب کے ساتھ کھیل کرتے ہو؟
حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘
(نسائی)
’’عورت کو طلاق نہ دو کیونکہ اللہ ایسے مردوں
کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کامزہ چکھتے پھریں۔‘‘
الفصاحت)
شیطان اپنے گروہ میں سب سے اچھا اسے مانتا ہے جو میاں بیوی میں تفریق کرا دے۔
(مشکوۃ)
قرآن میں جہاں ایک سے زائد شادیوں کی
اجازت دی گئی ہے۔ درحقیقت اسے یتامیٰ کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے
کہ جن بچیوں کے والدین زندہ سلامت ہوں ان کے لئے ان کی شادی کرنا کوئی مشکل نہیں
ہوتا لیکن جن بچیوں کے والدین موجود نہ ہوں یا جو عورتیں بیوہ ہو گئی ہوں ان کی
شادیوں میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
اس لئے اسلام نے بے سہارا عورتوں کو
معاشرے میں مقام دلانے کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔ بعض اوقات
کئی دوسرے واقعات بھی پیش آ سکتے ہیں مثلاً جنگ میں مردوں کی زیادہ تعداد شہید ہو
جائے اور معاشرے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے تو انہیں بھی سہارے کی ضرورت
ہوتی ہے۔
غرض اسلام نے عورت کو تحفظ دینے کے لئے ہر
مرد کو دوسری شادی کا حق نہیں دیا۔ لیکن جن کو حق دیا ہے ان کے لئے شرط ہے کہ مرد
ایک سے زائد بیویوں کا نان نفقہ باآسانی پورا کرے اور اللہ تعالیٰ نے مرد کو
بیویوں کے درمیان انصاف کرنے پر پابند کیا ہے۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے ’’جس شخص کی
دو بیویاں ہوں اور وہ انہیں انصاف فراہم نہ کرے اور کسی ایک بیوی کی طرف مائل ہو
جائے تو قیامت کے دن اس کا حشر اس حال میں ہو گا کہ اس کا آدھا دھڑ مفلوج ہو گا۔
اسلام سے قبل عرب میں یہ رواج تھا کہ اکثر
لوگ جب اپنی بیویوں کو علیحدہ کرتے تھے تو نہ عورت کو حق مہر دیتے تھے اور نہ ہی
خوش اسلوبی سے رخصت کرتے تھے۔ عورت بے یارو مددگار ہو جاتی تھی۔ کوئی اس کا پرسان
حال نہ ہوتا تھا۔ اسی لئے معاشرے میں بے حیائی عام ہو گئی تھی۔
اسلام نے جہاں عورت کو دیگر بے شمار حقوق
سے نوازا وہاں اس کے ایک حق، حق مہر کے لئے بھی باضابطہ قانون بنایا۔اس قانون کی
رو سے حق مہر کا بنیادی مقصد بیوی کو تحفظ دینا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مہر کی مقدار کے
حوالے سے قنطار کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کے لغوی معنی’’سونے کے ڈھیر‘‘ کے ہیں
جسے ہر قیمت پر ادا کرنا فرض ہے۔ اس میں کسی حیلے کی گنجائش نہیں۔
سر کی رقم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا
ہے۔ اگر مہر موجل (Payable on demand)مانگنے
پر شوہر، لڑکی کو ادا نہیں کرتا تو ایسی صورت میں لڑکی نہ صرف حقوق زوجیت ادا کرنے
سے انکار کر سکتی ہے بلکہ شوہر سے علیحدہ بھی رہ سکتی ہے۔
طلوع اسلام سے پہلے لوگ دوسرے مال کی طرح
اپنے مرحوم رشتے داروں کی بیویوں کے وارث بن جاتے تھے۔ اگر چاہتے تو بے مہر انہیں
اپنی زوجیت میں رکھتے یا کسی اور کے ساتھ شادی کر دیتے اور مہر لے لیتے تھے یا
عورت کو قید کر دیتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے برسرمنبر فرمایا کہ
’’عورتوں کا مہر زیادہ نہ رکھو۔‘‘ ایک
عورت نے کہا کہ
’’اے ابن خطاب! اللہ ہمیں دیتا ہے اور تم
منع کرتے ہو۔‘‘
امیر المومنین نے فرمایا:
’’اے عمر! تجھ سے ہر شخص زیادہ سمجھدار
ہے۔ جو چاہو مقرر کرو۔‘‘
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ
محترمہ حضرت خدیجہؓ کا مہر پانچ سو درہم یا اس قیمت کے اونٹ تھے۔ حضرت جویریہؓ کا
مہر چار سو درہم حضرت ام حبیبہؓ کا چار سو درہم اور حضرت سودہ
کا مہر چار سو درہم ، اس دور میں ایک اونٹ کی قیمت چار سو درہم تھی اور اونٹ محض دودھ
اور گوشت کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ باربرداری کے لئے صحرائی جہاز کی حیثیت رکھتا
تھا۔
ھدایہ۔جلداول۔’’کتاب الزکوٰۃ المال‘‘ میں
لکھا ہے کہ دور نبویﷺ میں دینار دس درہم کے برابر تھا۔ حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ
اور حضرت میمونہؓ کا مہر پانچ سو درہم یعنی پچاس دینار تھا۔
پچاس دینار، پانچ سو پچھتر(۵۷۵) گرام سونے
کے برابر ہیں۔ پانچ سو درہم کا مطلب آدھا کلو اور پچھتر گرام سونا ہے۔
حضرت خدیجہؓ کا مہر موجودہ دور کی مالیت کے مطابق آدھا کلو پچھتر گرام سونا تھا جو
پاکستانی زرمبادلہ میں تین لاکھ پینتالیس ہزار (345,000) روپے ہے۔
حضرت عائشہؓ کا مہر بھی آدھا کلو پچھتر
گرام سونا تھا جس کی مالیت تین لاکھ پینتالیس ہزار روپے بنتی ہے۔
حضرت میمونہؓ کا مہر بھی تین لاکھ
پینتالیس ہزار روپے تھا۔
اللہ کے محبوب نبی مکرم حضرت محمد رسول
اللہﷺ کی لخت جگر، حضرت بی بی فاطمہؓ کا مہر چھ سو درہم تھا۔ جس کا وزن آدھا کلو
آدھا پاؤ ایک چھٹانک پندرہ گرام سونا بنتا ہے۔ اتنے وزن سونے کی مالیت، پاکستانی
کرنسی میں، چار لاکھ اکیس ہزار پانچ سو (4,21,500) روپے ہے۔
۱) دورنبویﷺکا نظام حکومت۔ ترجمہ الترتیب
الاداریہ۔ علامہ عبدالحئی کتانی، ۲)تذکارصحابیات۔ تالیف:طالب الہاشمی، ۳) اسلام کے
معاشی نظریئے۔ ڈاکٹر محمود یوسف الدین، ۴) ابن خلاددن، ۵) المحسنات السلطانیہ، ۶ )
النقود السلامیہ۔تقی الدین احمد المقرنبری۔مطبوعہ قسطنطنیہ
زمانہ جاہلیت میں اکثر مرد عورتوں کو زد و
کوب کرتے تھے ایک مرتبہ ایک انصاری نے اپنی بیوی کے منہ پر تھپڑ مارا۔ بیوی نے
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر شوہر کی شکایت کی۔ رسول اللہﷺ نے حکم دیا اس
انصاری کو بھی ویسا ہی تھپڑ مارا جائے۔
’’اور جن عورتوں سے تمہیں فحاشی کا خطرہ ہے تو تم انہیں تنبیہ کرو اور انہیں ان کے
بستروں میں اکیلا چھوڑ دو اور انہیں گھر سے باہر جانے سے روک دو۔‘‘
(سورۃ النساء: ۳۴)
یہاں گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگانے
کو سزا قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ عام حالات میں عورتوں اور مردوں کو گھروں سے نکلنے
کی پوری آزادی ہے۔
اس بارے میں مردوں اور عورتوں کے لئے ایک
ہی قسم کے احکامات ہیں کہ جب وہ اپنے گھروں سے کام کاج کے لئے جائیں تو اپنی نظروں
کو نیچا رکھیں یعنی قرآن کی آیت کے مطابق عورتوں کو گھروں میں بند کر کے رکھنا ایک
سزا ہے اور یہ سزا انہیں اس وقت دی جائے جب وہ کسی معاملے میں سرکشی کا رویہ
اختیار کریں۔
مختصر یہ کہ شریعت اسلامی میں کسی مرد کو
ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مارے بیٹے۔ لیکن اگر مردوں یا عورتوں
میں سے کوئی بھی فحاشی کا ارتکاب کرے تو اسلامی معاشرے میں دونوں کے لئے سزا ہے۔
’’ان کو زمانہ عدت میں اسی جگہ رکھو جہاں
تم رہتے ہو۔ جیسی کچھ بھی جگہ نہیں میسر ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لئے ان کو نہ
ستاؤ۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل
ہو جائے۔ پھر اگر وہ تمہارے (بچے کو) دودھ پلائے تو ان کی اجرت انہیں دو اور بھلے
طریقے سے (اجرت کا معاملہ) باہمی گفت و شنید سے طے کر لو۔‘‘
(سورۃ طلاق:۶)
والدین کے اختلاف اور علیحدگی کی صورت میں
مرد زبردستی بچوں کو اپنے قبضے میں کر لیتا ہے۔ لیکن سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے فرمودات کے مطابق بچے کی حقدار ماں ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک
عورت نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا :
’’یا رسول اللہﷺ! میرا بچہ ایک مدت تک
میرے پیٹ میں رہا اور مدت تک میرا دودھ پیتا رہا اور ایک عرصہ تک میری گود میں
پلتا رہا۔ اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور میرے بچے کو چھین لینے کا ارادہ
رکھتا ہے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
’’جب تک تم دوسرا نکاح نہ کر لو تم اس کو
اپنے پاس رکھو۔ تم بچے کی حقدار ہو۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت
حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:
’’میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ اب وہ
چاہتا ہے کہ میرے لڑکے کو اپنے پاس رکھے اور اس وقت یہی لڑکا مجھ کو کما کر کھلاتا
ہے اور میرے کھانے پینے کی خبر گیری کرتا ہے۔‘‘
آپﷺ نے اس لڑکے سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے۔
اب تمہیں اختیار ہے چاہے اپنی ماں کے پاس رہو یا باپ کے پاس۔‘‘
لڑکا بالغ تھا۔ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔
(سنن ابی داؤد، سنائی، دارمی)
رسول اللہﷺ نے عورتوں کو جو حقوق دیئے ہیں
اور عورت کی اسیری کو جس طرح آزادی میں تبدیل فرمایا ہے وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔
عورت کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا! لڑکیوں کے قتل کو روک دیا، بیوہ عورتوں کی
عزت افزائی فرمائی انہیں معاشرے میں بہترین مقام عطا کیا، عورت کو ماں کی حیثیت سے
اتنا بلند درجہ دیا کہ فرمایا:
’’ماں کے قدموں میں جنت ہے۔‘‘
جو بچے ماں کی خدمت کرتے ہیں، ماں کی عزت
کرتے ہیں، ماں کو اپنا سرمایہ آخرت سمجھتے ہیں، ماں کو اپنا سرپرست سمجھتے ہیں ان
کے لئے ماں جنت کا نعم البدل ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی سعید اولادوں کو جنت عطا
فرمائیں گے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ماں کی نافرمانی پر جنت حرام کر دی گئی
ہے۔‘‘
خواتین کی ذہانت کو چیلنج نہیں کیا جا
سکتا، مردوں کی طرح خواتین بھی ذہین ہوتی ہیں۔
* حضرت ام سلمہؓ ایک صائب الرائے اور پختہ
ذہن خاتون تھیں۔ رسول اللہﷺ آپ کی رائے کو پسند فرماتے تھے۔ اکثر آپ سے مشورہ کرتے
اور آپ کے مشورے پر عمل کرتے تھے۔ حضرت اُم سلمہؓ سے احادیث روایت کرنے والے مردوں
کی تعداد ۳۲ ہے۔
علامہ
خواتین
* علامہ ابنِ عبدالبر نے حضرت زینبؓ کو
اپنے زمانے کی عظیم فقیہہ تسلیم کیا ہے۔
ابو رافع صائغ کہتے ہیں:
’’جب میں مدینے کی کسی فقیہہ عورت کا ذکر
کرتا ہوں تو مجھے فوراً زینب بنت ابی سلمہؓ یاد آ جاتی ہیں۔‘‘
* حضرت ام سلمہؓ کی ایک کنیز تھی جن کا
نام اُم الحسن تھا۔ بڑی عالمہ اور فاضلہ تھیں۔ وعظ اور تبلیغ فرماتی تھیں۔
* امام تو دی نے ام المومنین حضرت صفیہؓ
کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ صاحب عقل و دانش خاتون تھیں۔ بڑے بڑے مسائل نہایت خوش
اسلوبی سے سلجھا دیتی تھیں۔
* امام بخاری کہتے ہیں کہ ’’ام الورداء
بڑی عالمہ اور دانشور تھیں۔‘‘ وہ صحیح بخاری میں ان سے استدلال کرتے ہیں۔
* فاطمہ بنت قیسؓ فہم و فراست کا خزانہ
تھیں۔ علم فقہ میں بلند درجہ پر فائز تھیں ایک بار کسی مسئلے پر حضرت عمرؓ اور
حضرت عائشہؓ سے بحث ہوئی۔ بہت عرصہ بعد جب علماء کرام کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا
تو انہوں نے بلا اتفاق حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کی رائے کو ترجیح دی۔
* حافظ ابن حجر حضرت انسؓ کی والدہ ام
سلیمؓ کو علم و عقل میں یکتائے زمانہ کہتے تھے۔
* حضرت ام عطیہؓ کا حضورﷺ کے ساتھ جہاد
میں شریک ہونے والی فضیلت مآب صحابیات میں شمار ہوتا ہے۔
* ایک مرتبہ امام اشہب نے ایک کنیز سے سبزی خریدی۔ اس زمانے میں سکے کے تبادلے کا
رواج کم تھا۔ اشیاء کا اشیاء سے تبادلہ کیا جاتا تھا چنانچہ سبزی کے بدلے روٹی بھی
لی جاتی تھی۔ امام اشہب کے پاس اس وقت روٹی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب شام کو
نانبائی روٹی لائے تو لے لینا۔ کنیز نے جواب دیا۔ حضرت! یہ تو ناجائز ہے کیونکہ
شریعت کھانے پینے کی اشیاء میں دست بدست تبادلہ کا حکم دیتی ہے۔ امام اشہب لاجواب
ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں
عورتیں زیادہ خوفزدہ رہتی ہیں۔ ان میں بہادری کم ہوتی ہے۔
* سودہ بنت عمارہؓ نے ابو سفیان سے بھرے
دربار میں بے خوفی کے ساتھ بحث کی اور ایسے مسائل زیر بحث لائیں کہ شام کا حاکم
جواب نہ دے سکا۔ انصاف نہ کرنے پر انہوں نے مقابلے کی دھمکی بھی دی۔ آخر کار ابو
سفیان نے مجبور ہو کر سودہ بنت عمارہؓ کا مطالبہ پورا کیا۔ (العقد العزیز: جلد
اول)
* ایک عورت اکرثہ بنت امرش نے شام کے حاکم
معاویہ کے سامنے گورنروں کی شکایت کی اور بے باکانہ کہا اگر یہ سب تیرے ایماء اور
مشورے سے ہو رہا ہے تو تجھے چاہئے کہ توبہ کر او راگر تیرے گورنر خود ایسا کررہے
ہیں تو تجھے چاہئے کہ ان خائنوں کو چھوڑ کر امانت داروں سے تعاون حاصل کر۔
تعلیم کے حصول میں عورت مرد سے کم نہیں
ہے۔ جب بھی عورت کو علم حاصل کرنے کا موقع ملا اس نے علم حاصل کیا اور مردوں پر
فضیلت بھی حاصل کی۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مدینہ
ہجرت کرنے کے بعد تعلیم پر خاص توجہ دی تھی۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ کی عورتوں میں
تحریر کا رواج بھی ہو گیا تھا۔ عورتیں نہ صرف فقہی مسائل حل کرتی تھیں بلکہ فتوے
بھی دیتی تھیں۔ بہت زیادہ فتوے دینے والے ۷(سات) اشخاص میں ایک عورت حضرت عائشہؓ
بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ میں کم و بیش ۲۰ مفتی خواتین کے نام ملتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ کی احادیث سے استفادہ کرنے والے مردوں کی تعداد ۸۸ ہے۔
حضرت اُم ورقہ انصاریؓ نے ہجرت نبوی کے
بعد سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلیم قرآن اور احکامات دین کا علم سیکھا۔
بعد ازاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ام ورقہؓ کو دین کی اشاعت اور درس قرآن کی
اجازت مرحمت فرمائی۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ام ورقہؓ کو امامت کی
اجازت بھی عطا فرمائی۔ آپ نے اپنے گھر کے ایک حصے کو مسجد بنا لیا تھا۔ پانچوں وقت
نماز باجماعت کا اہتمام تھا۔ اذان کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موذن
بھی مقرر فرمایا تھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے تک یہ امام رہیں اور باقاعدہ جماعت کراتی
رہیں۔
اسلام نے انسانی حقوق کے تعین کا آغاز
عورت کی ذات اور اس کے فرائض کو سامنے رکھ کر کیا۔ رسول اللہﷺ بیٹے، شوہر، بھائی،
باپ، دوست، تاجر، جرنیل سب کچھ تھے۔ مخلوق کے ساتھ ہر رشتے میں تعلق تھا۔ بہترین
انسان تھے اور رحمت اللعالمین تھے۔
U.N.O
یو این او والے اپنا منشور بیان کرتے ہیں کہ سارے انسان برابر ہیں۔ سب کے
حقوق یکساں ہیں۔ رسول اللہﷺ نے پندرہ سو سال پہلے یہ اعلان کر دیا کہ ’’انسان
طبقاتی اور نسلی تفریق سے بالا ہے، گورے کو کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی
فوقیت حاصل نہیں ہے۔‘‘
توازن
انسانی برادری کے لئے عموماً اور بالخصوص عورت کے
حق میں رسول اللہﷺ نے مرد اور عورت کے حقوق میں ایسا توازن پیدا کر دیا ہے کہ کسی
ایک کا حق کسی دوسرے پر غالب نہیں آتا۔ رسول اللہﷺ نے عورت کی عزت کو بحال کیا۔ اس
کے وقار کو اجاگر کیا۔ آپﷺ نے مردوں کو ان امور سے منع فرمایا جو عورتوں کے حق میں
ظلم و زیادتی کے مترادف تھے۔ آپﷺ علی الاعلان مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو ان
مراعات سے نوازتے تھے جن کی وہ مستحق ہیں۔ آپﷺ عملی طور پر عورتوں کی عزت فرماتے
تھے۔ سب سے پہلے آپﷺ نے ماں کے رشتے سے عورت کو متعارف کرایا۔ آپﷺ نے فرمایا:
* ’’تمہاری جنت تمہاری ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘
* ’’ماں کی نافرمانی پر جنت حرام کر دی
گئی ہے۔‘‘
* ’’وہ شخص بڑا بدقسمت ہے جس کی ماں زندہ
ہو اور وہ اس کی خدمت نہ کر کے جنت سے محروم ہو جائے۔‘‘
ہمارے قارئین کے ذہن میں یقیناً یہ سوال
ابھرا ہو گا کہ ’’مادری نظام‘‘ کی اصطلاح کیوں استعمال کی گئی ہے۔ اس کے بارے میں
عرض کیا ہے کہ:
مادری نظام میں عورت گھرانے، کنبہ اور
قبیلہ کی سربراہ ہوتی تھی اس لئے کہ وہ افراد خانہ کو جنم دیتی تھی۔ انہیں خوراک
مہیا کرتی تھی۔ نو ماہ تک بچے کو پیٹ میں رکھتی تھی۔ دردِ زہ کی اذیت ناک تکلیف
برداشت کرتی تھی۔ اپنے جسم سے خون انڈیل کر انہیں صحت مند رکھتی تھی۔ خود گیلے میں
سوتی تھی اور اپنے بچے کو سوکھے بستر پر سلاتی تھی۔ نہلاتی دھلاتی تھی اور ان کے
بالغ ہونے تک ان کی تربیت کرتی تھی۔
’’پدری نظام‘‘ میں اگرچہ سربراہی مرد کے
حصے میں آ گئی لیکن جن امور کی انجام دہی کی بنیاد پر فطرت نے سربراہی عورت کو
بخشی تھی ان میں سے ایک بھی ذمہ داری احسن طریقہ پر مرد پوری نہیں کر سکا۔ یہ صورت
حال اس وقت بھی تھی جب ’’ماں‘‘ کا دور تھا اور یہ صورت حال آج بھی قائم ہے۔ جب
مردوں کا دور ہے۔
مادری نظام میں افراد خانہ کی خوراک اور
ضروریات کی ذمہ دار عورت تھی۔ وہ خود بھوکی رہ کر ان کا پیٹ بھرتی تھی۔ اور انہیں
موسموں کی شدت سے محفوظ رکھتی تھی۔
یہودی معاشرے میں عورت کو گناہ کا مجسمہ
قرار دیا جاتا تھا۔ عیسائیوں نے عورت کو آدم کے گناہ کا سبب قرار دیا۔ ان کے خیال
میں اس کے بعد نسل انسانی میں گناہ گار پیدا ہوتے رہے۔ عیسائی راہبوں نے عورت کو
دغا فریب، مصائب اور آلام کا سبب قرار دیا۔ عورت کو شیطنت کا دروازہ اور برائیوں
کی جڑ کہا۔ رومی اپنی بیوی کو قتل کر سکتے تھے۔ عرب عورت کو ذلت کا سبب گردانتے
تھے۔
وہ افرادی قوت میں اضافے کیلئے اولاد
نرینہ چاہتے تھے۔ اگر لڑکی پیدا ہوتی تو زندہ دفن کر دیتے تھے اور بچی کی ماں
احتجاج بھی نہیں کر سکتی تھی۔ زندہ رہنے والی لڑکیوں سے بالغ ہونے تک خدمت لیتے
تھے اور جوان ہونے کے بعد ان کو فروخت کر دیتے تھے۔
جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی اسے منحوس
سمجھا جاتا تھا۔
رسول اللہﷺ کو ایک شخص نے بتایا میری بچی
جو مجھ سے محبت کرتی تھی میں نے اسے کنوئیں میں پھینک دیا تھا حالانکہ وہ ’’ابا
ابا‘‘ پکاررہی تھی۔ قیس بن عاصم نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ لڑکیوں کو زندہ دفن کیا۔
عربوں میں دستور تھا کہ جب تک خاوند زندہ
رہتا بیوی اس کے احکام بجا لاتی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث اسے اپنی وراثت میں
لے لیتے تھے۔ اور کسی دوسرے سے اس کی شادی کر دیتے تھے۔ شادی کر کے مہر کی رقم خود
حاصل کر لیتے تھے۔ اگر بیوہ عورت مالدار ہوتی تو اس کی شادی نہیں ہونے دیتے تھے تا
کہ دولت ان کے قبضہ میں رہے۔ یتیم مسکین لڑکی کو بالغ ہونے تک اپنے پاس رکھتے اور
پھر خود کو نکاح کر لیتے تھے۔ اس میں مرد کی عمر کی کوئی قید نہیں تھی۔
رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے عورت مرد کے
ظلم و ستم کی چکی میں ہر روز پستی تھی، روز جیتی تھی، روزمرتی تھی۔ عورت کے نان
نفقہ کی کوئی ذمہ داری مرد پر نہیں تھی۔ مرد حق وراثت سے عورت کو محروم کر سکتا تھا۔
جبکہ خود بیوی کی ملکیت کا حق دار تھا۔ عورت خود اپنی کمائی اپنے اوپر آزادانہ خرچ
کرنے کا حق نہیں رکھتی تھی۔ عورت کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ شوہر کا گھر چھوڑ
کر چلی جائے خواہ وہ کتنا ہی اس پر ظلم کرتا ہو۔ قدیم یورپی قانون نے عورت کو مرد
کی ملکیت قرار دیا ہے۔
ماضی کے واقعات اور تاریخی حقائق پیش کرنے
کا مقصد یہ ہے کہ خواتین اس طرف متوجہ ہوں کہ قدرت نے انہیں برابر کے انسانی حقوق
عطا کئے ہیں۔ جب ہم لفظ تاریخ بولتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اس سے منشاء یہ ہوتا ہے
کہ ماضی یا زمانہ خود کو دہراتا ہے۔ ماضی میں جس طرح آدم ایک بچہ تھا۔ آج بھی ہر
آدم زاد پیدائش کے بعد بچہ ہوتا ہے۔ ماضی میں جس طرح ’’حوا‘‘ بچی تھیں آج بھی
پیدائش کے بعد حوا کی بیٹی بچی ہوتی ہے۔ جس طرح آج میں باپ ہوں۔ دادا ہوں، نانا
ہوں کل میں ماضی میں دفن ہو جاؤں گا اور میرا بیٹا باپ، دادا اور نانا بن جائے گا۔
جس طرح آج آپ ماں ہیں کل آپ کو بھی ماضی نگل لے گا اور آپ کی بیٹی ماں، دادی، نانی
بن جائے گی اور یہ سلسلہ تا قیامت چلتا رہے گا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں زمین پر مادری
نظام قائم تھا۔ اس عمل کو اکیسویں صدی دہرائے گی اور معاشرے پر مادری نظام پھر
غالب آ جائے گا اور یہ زمانہ عورتوں کا زمانہ ہو گا۔ اس کی ابتداء اس وقت سے شروع
ہو گئی ہے جب سے اسلام نے عورتوں کے حقوق کا تعین کر دیا ہے اور آخری نبیﷺ نے آخری
کتاب قرآن کریم اور احادیث میں عورتوں کے حقوق کو تفصیلاً بیان فرما دیا ہے۔
رسول اللہﷺ نے معاشرے میں بیوہ عورتوں کے حقوق کی نگہداشت اور بحالی کا حکم دیا
ہے۔
ایک روز عورتوں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں
عرض کیا:
’’یا رسول اللہﷺ ! آپ کے پاس مردوں کا
ہجوم رہتا ہے آپ ہمارے لئے وقت مقرر فرما دیجئے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے اس درخواست کو شرف قبولیت
بخشا اور خواتین کے لئے ایک دن مقرر کر دیا۔
ایک سفر میں آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت
صفیہؓ آپﷺ کے ساتھ تھیں۔ جب وہ سوار ہونے لگتیں تو آپﷺ اپنا گھٹنا آگے بڑھا دیتے
اور زوجہ محترمہ گھٹنے پر پیر رکھ کر سوار ہو جاتیں۔
حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن حضرت اسماءؓ ایک
روز کھجور کی گٹھلیوں کی پوٹلی سر پر رکھے ہوئے آ رہی تھیں۔ رسول اللہﷺ اونٹ پر
سوار ادھر سے گزرے تو آپﷺ اونٹ سے اتر آئے۔ حضرت اسماءؓ کو اونٹ پر سوار کر دیا
اور خود پیدل گھر تشریف لے گئے۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ انہیں
انصاف نہ دے سکے اور کسی ایک بیوی کی طرف مائل ہو جائے۔ قیامت کے دن اس کا حشر اس
حال میں ہو گا کہ اس کا نصف دھڑ مفلوج ہو جائے گا۔‘‘
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ عتبہ کی بیٹی
ہندہ نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا:
’’یا رسول اللہﷺ! میرا شوہر ابو سفیان
بخیل آدمی ہے مجھے اتنا کم خرچ دیتا ہے کہ وہ میرے لئے اور میرے بچوں کے لئے کافی
نہیں ہوتا۔ اگر میں اس کے مال سے بقدر ضرورت لے لوں اور اے خبر نہ ہو تو کیا یہ
عمل جائز ہے؟‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’شوہر کے مال میں سے بقدر ضرورت لے کر
خرچ کر لیا کرو۔‘‘
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے
فرمایا:
’’عورتیں مردوں کے لئے دل پسند پھول ہیں
اس پھول کو مسل کر برباد نہ کرو۔‘‘
’’میری امت میں سے بہتر وہ ہے جو عورتوں
کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میری امت میں سے بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر سے
بہتر سلوک کرتی ہے۔ ایسی عورت کو دن رات میں صابر، مومن، شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔
ایسی عورتیں جنت کی حوروں پر فضیلت و بزرگی رکھتی ہیں۔ جیسا کہ مجھے تم سے مردوں
پر فضیلت ہے۔ میری امت کی عورتوں میں سے وہ عورت بہتر ہے جو اپنے شوہر کے ہر کام
کو خوشدلی کے ساتھ انجام دیتی ہے۔ میری امت کے مردوں میں سے بہترین مرد وہ ہے جو
اپنے گھر والوں کے ساتھ ایسی مہربانی کرتا ہے جیسے ماں بچے کے ساتھ مہربانی کرتی
ہے۔ اس کے اعمال میں ہر روز مومن، صابر اور شہیدوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔‘‘
نبی کریمﷺ نے بحیثیت بیوی عورتوں کو وہ
حقوق عطا کئے ہیں جس سے وہ محروم تھیں۔ آپﷺ نے شوہر کو ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ
اپنی بیوی کو کپڑا اور کھانا مہیا کرے۔ اس سے محبت کا بہترین سلوک کرے۔ بلاوجہ
طلاق کی دھمکی نہ دے، نہ مارے نہ پیٹے۔ آپﷺ نے بیوی کو شوہر کے ترکہ سے حصہ دلایا۔
اگر شوہر تنگ کرے تو بیوی کو طلاق دینے کا حق دیا۔ عورتوں کو کام کرنے اور اپنے
مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا حق دیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جو کمائی مرد کرے وہ اس سے فائدہ
اٹھائیں اور جو کمائی عورتیں کریں وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘
(سورۃ النساء: ۳۲)
’’لوگو اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم کو ایک
جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے ایک جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور
عورتیں دنیا میں پھیلا دیئے۔ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا
حق مانگتے ہو اور رشتے داری اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین
جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘
(سورۃ النساء: ۱)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس
نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تا کہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو
اورتمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان
لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘
(سورۃ الروم: ۲۱)
’’عورتوں کے لئے بھی معروف طریقے پر ویسے
ہی حقوق ہیں جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ
حاصل ہے اور اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔‘‘
(سورۃ البقرہ: ۲۲۸)
’’جب تک بیوہ عورت سے اجازت حاصل نہ کر لی
جائے اس کا نکاح نہ کیا جائے اور اسی طرح جب تک کنواری عورت سے دریافت نہ کر لیا
جائے نکاح نہ کیا جائے۔‘‘
رسول اللہﷺ مکے کی غریب اور بے سہارا بیوہ
عورتوں کا سودا سلف خرید کر اپنے کندھے پر اٹھا کر ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
ایک روز ابو سفیان نے حقارت سے کہا:
’’غریب اور کمینے لوگوں کا سامان اٹھا
اٹھا کر تم نے اپنے خاندان کا نام بدنام کر دیا ہے۔‘‘
حضورﷺ نے جواباً فرمایا:
’’میں ہاشم کا پوتا ہوں۔ جو امیروں اور
غریبوں سب کی یکساں مدد کرتا تھا اور اپنے سے کمتر لوگوں کو حقیر نہیں جانتا
تھا۔‘‘
اس صدی میں عورت اور مرد میں مسابقت کا
مقابلہ جاری ہے۔ عورت بینکوں میں منیجر ہے، ڈائریکٹر اور سیکرٹری کی کرسی پر
براجمان ہے۔ کالج میں پرنسپل ہے۔ یونیورسٹی میں چانسلر ہے۔ کیبنٹ میں ممبر ہے۔
وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، وزیر تعلیم اور وزیراعظم ہے۔ کمپیوٹر میں ماسٹر ہے۔ بسوں
میں ڈرائیور ہے۔ ڈاکٹر ہے، سرجن ہے اور حکمران ہے۔ فی زمانہ علمی اعتبار سے عورت
مرد سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ لیٹریسی ریٹ (Literacy Rate)کے
مطابق عورتیں مردوں سے زیادہ عالم ہیں۔
اس وقت دنیا میں ۱۲ سے زیادہ ممالک میں
خواتین حکمران ہیں۔ عورت مرد کو طلاق دے سکتی ہے۔ زمین پر کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے
جہاں عورت مرد سے پیچھے ہو۔
قاہرہ یونیورسٹی میں گریجویٹ لڑکیوں کی
تعداد مرد گریجویٹس سے زیادہ ہے۔ مصر کے علاوہ دوسرے عرب ممالک میں بھی کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ عراق میں ستر(۷۰) فیصد لڑکیاں
تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
شام اور اردن میں ان کی تعداد ستر فیصد سے
زیادہ ہے اور الجیریا اور تیونس میں لڑکوں کی نسبت تعلیم یافتہ لڑکیوں کی تعداد
نوے(۹۰) فیصد ہے۔
آج کے دور میں لڑکیاں تعلیم کے ہر میدان
میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان کا پسندیدہ موضوع سائنس، بینکنگ اور طب ہے۔ بتایا جاتا ہے
کہ چین میں پچیس فیصد سے زیادہ لڑکیاں پائلٹ ہیں جو جنگی جہاز اڑاتی ہیں۔
مرد معاشرے بے روح معاشرے میں اس لئے
تبدیل ہوا کہ مرد نے مادیت اور فزیکل باڈی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ اگر خواتین
نے اس کی اصلاح نہیں کی تو ’’مادری معاشرہ‘‘ پدرانہ معاشرے سے زیادہ ہولناک ہو گا۔
اتنا فساد پھیل جائے گا کہ زمین اجڑ جائے گی۔ آندھیاں چلیں گی آگ برسے گی، زلزلے
آئیں گے۔ چھ ارب کی آبادی دو ارب رہ جائے گی۔ نقل مکانی کر کے لوگ غاروں میں چلے
جائینگے۔ درختوں پر بسیرا ہو گا۔ پہاڑ کھائے ہوئے بھس کی طرح ہو جائیں گے۔ آسمان
سے خون برسے گا۔ زمین پر آتش فشاں پھٹ پڑیں گے۔ اللہ اپنا رحم کرے۔ اللہ ہماری
غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔
محترم خواتین!
آپ کو اللہ کے محبوب آخری نبیﷺ نے ظلم و
ستم کی چکی میں پسنے سے بچایا ہے۔ آپ کے اوپر فرض ہے کہ آپ دنیاوی تعلیم کے ساتھ
ساتھ دینی اور روحانی علوم سیکھیں۔ اپنی روح کا تعارف حاصل کریں۔روح میں وہ سب
’’مخفی‘‘ ظاہر ہے جس سے آدمی انسان بن جاتا ہے۔
احسن تقویم، انسان اشرف المخلوقات اس وقت
ہے جب وہ اپنی روح سے واقف ہو۔ اللہ اور اس کے رسول کا حکم بردار ہو۔ جب بندہ اپنی
اصل یعنی روح سے واقف ہو جاتا ہے تو اس کے اندر عدل و انصاف، رحم و کرم، برابری،
مساوات اورانصاف و عدل کے ساتھ حقوق کی تقسیم کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
عورت اور مرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں۔ جس
طرح کوئی مرد روحانی علوم حاصل کر کے اللہ کا عارف بن جاتا ہے۔ اسی طرح ہر عورت
تزکیہ نفس سے نور علیٰ نور’’عارفہ‘‘ بن جاتی ہے۔ اللہ کی دوست بن کر خوف اور غم سے
نجات حاصل کر لیتی ہے۔
اس عاجز بندے نے رسول اللہﷺ کے عطا کردہ
علوم کی روشنی میں کوشش کی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے۔ اس کوشش کے نتیجے
میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات، کرامات
اور کیفیات تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔
یہ کہنا خود فریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے
کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں۔
خواتین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ اور اس
کے رسول ﷺ کے دیئے ہوئے حقوق سے واقف ہونے کے لئے قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھیں
اور ان آیتوں میں تفکر اور غور کریں۔ بچیوں اور بیٹیوں کو بتائیں کہ ہمارے نجات
دہندہ، ہمارے شفیع، ہمارے محسن اور ہمارے محترم نبیﷺ نے عورت کو غلامی سے آزادی
دلائی ہے۔ علم سے آراستہ کیا ہے۔ معاشرے میں ہمارے حقوق متعین کئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہﷺ کے اخلاق
حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سیرت طیبہ کا بار بار
مطالعہ کریں۔ حضورﷺ نے جو کیا ہے اس پر عمل کریں اور جو نہیں کیا ہے اسے چھوڑ دیں۔
مرد عورت دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں۔
عورت ہی مرد اور عورت کو جنم دیتی ہے۔
عورت اور مرد میں روح ایک ہے۔ جب تک روح رہتی ہے آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب دونوں
یا کسی ایک میں سے روح نکل جاتی ہے تو حرکت ختم ہو جاتی ہے۔ حرکت ختم ہونے کا نام
موت ہے۔
عزیزان گرامی قدر!
اس کتاب کو ترتیب دینے کا مقصد یہ ہے کہ
مرد اور عورت کے حقوق کی صحیح عکاسی ہو جائے۔ عورت اور مرد دونوں مل کر ہی معاشرے
کو سدھار سکتے ہیں۔ ہم دو رخوں میں سے کسی ایک رخ کو معطل قرار دے دیں تو معاشرہ
میں ابتری آ جائے گی، معاشرہ بکھر جائے گا۔ ہر چیز درہم برہم ہو جائے گی۔ عورت اور
مرد کا وجود ناقابل بیان ہو جائے گا۔
زمین اب اپنی بیلٹ (Belt)
تبدیل کر رہی ہے۔ دو ہزار چھ کے بعد اس میں تیزی آ جائے گی اور اکیسویں صدی میں
عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہو جائیں گے۔
مردوں نے ترقی کے نام پر پوری نسل کو ایٹم
بم کی بھٹیوں میں جھونک دیا ہے۔ زمین کراہ رہی ہے۔ لاشعوری کیفیات سے آشنا لوگ
زمین کی چیخیں سن رہے ہیں۔ زمین آگ میں بھسم ہونا نہیں چاہتی۔ زمین اپنی کوکھ
اجاڑنا نہیں چاہتی۔ وہ اپنے بچوں کو خوشحال اور شاداں دیکھنے کی آرزو مند ہے۔ جب
کہ ناشکر انسان بضد ہے کہ زمین کو بانجھ کر دے اور زمین کو جلا کر خاکستر کر دے۔
دھواں گھٹا بن کر چھا جائے اور زمین پر آگ کے شعلے برسیں۔
اب یہ امید بھی باقی نہیں رہی کہ آدم زاد
اپنے وحشت ناک رویے میں تبدیلی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب کوئی قوم
اپنی حالت تبدیل نہیں کرتی تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
اللہ رحیم و کریم ہے۔ قدرت عورت کو اقتدار
میں لانا چاہتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میری باتوں کو مجذوب کی بڑ سمجھا جائے۔ میں ایک
روحانی بندہ ہوں۔ ہر روز دو گز زمین مجھے آواز دیتی ہے۔ تو کہاں ہے؟
میں بھی بخوشی پیوند خاک ہونے کا منتظر
ہوں۔ لیکن میری ایک خواہش ہے کہ میری بیٹیاں، بہنیں، بہوئیں اور میرے بچے اپنی
خداداد صلاحیتوں کا ادراک کریں۔ اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں
اور اللہ کی پسند کے مطابق معاشرے کی تشکیل کریں اور اپنی ماں زمین کی مانگ میں
سندور بھر دیں تا کہ دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔
میرے اوپر اللہ کا یہ کرم ہے کہ میں نے جو
کچھ لکھا خواتین و حضرات نے اسے قبول کیا۔ نظریہ رنگ و نور سے استفادہ کر کے
انبیاءؑ کی طرز فکر عام کرنے میں ہر ہر قدم پر اس عاجز بندے کے ساتھ تعاون کیا۔
میں آپ سب کا ممنون کرم ہوں۔ شکر گزار ہوں۔ آپ سے مغفرت کی دعا کا طلب گار ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اللہ مرد و زن کی رگ و جان سے زیادہ
قریب ہے۔‘‘
’’اللہ ابتداء ہے، اللہ انتہا ہے۔ اللہ
ظاہر ہے اللہ باطن ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’جو لوگ میرے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ میں
ان کے اوپر ہدایت و رہنمائی کے دروازے کھو ل دیتا ہوں۔‘‘
روح
کا روپ
روحانی علماء بتاتے ہیں کہ روح کے ستر
ہزار پرت ہیں۔ ہر پرت انسان کے اندر اس کی اپنی صلاحیت ہے۔ یہ صلاحیت ہر مرد اور
ہر عورت میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ لوگوں کو مثالیں دے کر
سمجھاتے ہیں۔ دنیا کی ہر شئے اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے۔ جب بندہ اس نشانی پر
غور کرتا ہے تو بے شمار عجائبات کی پردہ کشائی ہوتی ہے۔
ایک بڑی پیاز(Onion)
لیجئے۔ اس کے پرت اتاریئے۔ پرت اتارنے کے بعد پیاز کے بالکل وسط میں ایک ڈنٹھل ملے
گا۔ اس ڈنٹھل کے ساتھ پیاز کے سارے پرت چپکے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہی مثال روح کی ہے۔
ڈنٹھل کو اگر روح مان لیا جائے تو پرت ایک
صلاحیت ہے۔ جس طرح پیاز کے ہر پرت میں پیاز کی خاصیت موجود ہے اس طرح روح کا ہر
پرت اللہ کی صفت کا مظہر ہے۔
روح عورت، مرد نہیں ہوتی۔ روح کے پرتوں کا
الگ الگ مظاہرہ مذکر اور مونث کے روپ میں ہمیں نظر آتا ہے۔
کروموسومز(Chromosomes)
میں بارہ چھلے ہوتے ہیں۔ ہر چھلہ کا اپنا الگ رنگ ہوتا ہے۔ بطن مادر میں اگر ان
چھلوں کے رنگ میں یکسانیت رہتی ہے تو ’’سراپا مردانہ‘‘ خصوصیت کا حامل ہوتا ہے اور
اگر ایک چھلہ کا رنگ بھی پوری طرح دوسرے گیارہ چھلوں کے ہم مقدار نہ رہے تو
’’سراپا‘‘ میں اسی مناسبت سے مردانہ اوصاف کم ہو جاتے ہیں۔ بارہ چھلوں میں سے کسی
ایک چھلہ کے رنگ کی مقدار بہت زیادہ یا بہت کم ہو جائے تو مونث رخ تشکیل پا جاتا
ہے۔
قرآن حکیم کے ارشاد کے مطابق ہر عورت اور
مرد روح کا روپ بہروپ ہے۔ جب کوئی بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے تو اسے
ماورائی صلاحیتوں کا علم حاصل ہو جاتا ہے اور یہی انکشافات آدم کو حیوان سے انسان
بناتے ہیں انسان کے اوپر تسخیر کائنات کی دستاویز قرآن کے علوم منکشف ہونے لگتے
ہیں اور جب یہ علوم منکشف ہو جاتے ہیں تو قوم معزز ہو جاتی ہے اور دنیا پر حکمران
بن جاتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مرد حضرات احسن طریقے
یہ ذمہ داری پوری نہیں کر سکے اور اس طرح ناشکری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب قدرت نے
خواتین کو معزز اور محترم کرنے کے لئے وسائل فراہم کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
خواتین کے اوپر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا
شکر ادا کریں۔ شکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو استعمال کیا جائے۔
استعمال یہ ہے کہ بلاتخصیص نوع انسانی کی فلاح کے لئے عملی جدوجہد کی جائے۔
معاشرہ کو سدھارنے کے لئے پہلے اپنی اصلاح
کی جائے۔ پھر دوسروں کی اصلاح کے لئے توجہ دی جائے۔
رسول اللہﷺ کے اخلاق حسنہ پر عمل کیا
جائے۔ تفکر کو اپنا شعار بنایا جائے۔ اور پیغمبرانہ طرز فکر کے ساتھ اصلاح احوال
کی تبلیغ کی جائے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ
سے اللہ تعالیٰ ہم سب سے راضی ہو اور ہمیں اپنی جوار رحمت میں اعلیٰ مقام
عطافرمائے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۰ جون ۲۰۰۲ ء
مرکزی مراقبہ ہال۔ سرجانی ٹاؤن
کراچی۔ پاکستان
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔