Topics
۷۔
جنوری : نور کی بارش کا تصور کیا تو دیکھا کہ سر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے اور
نو ر کی با رش سر کے اندر ہو رہی ہے ۔نور ابل ابل کر با ہر بھی نکل رہا ہے ۔بلب کی
طر ح کبھی جل جا تا ہے کبھی بجھ جا تا ہے ۔
۱۶۔
جنوری ـ: مشق
کے دو ران دیکھا کہ ایک بہت بڑی مسجد میں کچھ بزرگ بیٹھے مقدس آیتیں پڑھ رہے ہیں
۔ انہوں نے مجھے بھی دعوت دی کہ تم بھی پڑھو میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی ۔ میں
نے پو چھا یہ کیوں پڑھا جا رہا ہے۔ جواب ملا تمہا ری کا میابی کے لئے ۔
۸۔فروری
سے ۲۰ فروری تک : کھلی آنکھوں سے نور کی بارش کی مشق کی ۔ کا فی حد تک کا میابی ہو ئی ۔ کبھی کبھی
آنکھوں کے سامنے تیز رو شنی نمودار ہو تی تھی اور کبھی نور کی بارش کاتصور قائم
ہو جا تا تھا ۔کل ۲۰ ۔ فر وری کو سارے ما حول پر با رش کا خوش گوار اثر دیکھا۔
منیرہ
فا طمہ ، لا ہور۔۔۔
۶۔
جو لا ئی : نور کی با رش کا تصور بہت آسانی سے قائم ہو گیا مگر جیسے ہی چہرے پر
بو ندیں گرنے کااحساس اجا گر ہوا نیند آگئی ۔میں نے سارے دن اس بات کو آزما یا
ہے کہ جب چہرے پر نورا نی با رش کی بو ندیں گر تی ہیں تو مجھے نیند آجا تی ہے ۔
۱۲۔
جولا ئی : ایک عجیب سی رو شنی دیکھتی ہوں اس سے سارا گھر یا کمر ہ رو شن ہو جا تا
ہے نور کی با رش کا جب تصور آتا ہے تو دو سیکنڈ کے اندر اپنے آپ کو باران رحمت
میں بھیگا ہوا پا تی ہوں ۔جسم میں ایک لطیف پھر یر ی آجا تی ہے ۔ اور کتنے ہی گر
م کمرے کیوں نہ ہوں مجھے ٹھنڈک سی محسوس ہو نے لگتی ہے اور بہت ہی لطف آتا ہے جی
چا ہتا ہے کی رحمت کی با رش میں کھڑی رہوں۔کبھی کبھی تو جیسے ہی نور کی با رش کی
بو ند جسم یا چہرے پر پڑتی ہے تو فو راً ہی ایک روشنی یا فلیش سی نظر وں کے سامنے
چمک جا تی ہے ۔جسم میرا پو رے ہفتے ہی گرم گر م سا رہا۔ تھر ما میٹر لگا یا تو
بخار یا حرارت نہیں تھی ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔