Topics

مے خانہ پر ہر سمت گھٹا چھائی ہے

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62)

ترجمہ: بے شک جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے۔

پارہ 11، یعتذرون، سورہ 10، یونس آیت: 62

فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (38)

ترجمہ: جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی، ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غم ناک ہوں گے۔

                                                    پارہ الم ،سورہ ۲، بقرہ، آیت 38


مے خانہ پر ہر سمت گھٹا چھائی ہے

ساقی ترے دامن میں بہار آئی ہے

رخ بھی ترا گلرنگ ہے پیراہن بھی

خود بھی مئے گل رنگ تماشائی  بھی

تشریح!  غور کیا جائے تو زندگی خوشی اور غم کا آمیزہ ہے، اور یہ دونوں احساس ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملے جلے رہتے ہیں کہ انسان ان سے خود کو الگ نہیں کر سکتا۔

اب لگتا ہے اگر دائیں  غم ہے تو بائیں خوشی ہے، اگر آگے پریشانی تو پیچھے اطمینان ہے۔اطمینان اگر آگے ہے تو پیچھے بے سکونی ہے۔یہ بات ہمارے تجربے میں ہے کہ ہر تکلیف کے پیچھے راحت ہے اور   اور ہر راحت کے پیچھے تکلیف ہے۔ ایک ماں  جب انتہاءی درجہ تکلیف سے گزر جاتی ہے تو اسے مامتا کا شعور حاصل ہو جاتا ہے۔ ایک طالب علمجب دس سال کی مشقت برداشت کرتا ہے تو اس مشقت کے صلے میں اسے میٹرک کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے موسم کے تغیر میں بھی یہی قانون کار فرماہے۔بہار کا موسم ہے تو ہر چیز نکھری ہوئی نظر آتی ہے درختوں میں کونپلیں پھوٹنا سبز لباس پہن کر درختوں کا پتوں سے مزین ہونا کلیوں کا چٹکنا، پھولوں کا کھلنا   خوشبو کی مہک ،گھاس پر  شبنم کا موتی بن کر چمکنا، چڑیوں کا چہکنا، بلبلوں کا نغمہ سرا ہونا، کوئل کی کوک۔۔۔۔۔

یہ سب بہار  کی رونقیں ہیں اور جب بہار اپنا بچپن جوانی گزار کر بڑھاپے میں داخل ہوتی ہے تو وہ تمام آثار و احوال اپنا مظاہرہ کرتے ہیں جو بڑھاپے کا وصف ہے، پتے سوکھ کر گر جاتے ہیں درختوں کی شاخوں اور تنوں میں جھریاں پڑ جاتی ہیں، پودوں پر پھولوں کی جگہ ڈنٹھل باقی رہ جاتے ہیں،  اور اب ایسا لگتا ہے کہ خوشبو ہزاروں پردوں میں چھپ گئی ہیں اسی طرح انسانی زندگی میں بھی بہار اور خزاں کے پیمانوں میں ردوبدل ہو رہا ہے ہماراگھر یا ہماری دنیا مے خانے کی طرح ہے،  اس میں خانے پر جب بہار آتی ہے تو ہر سمت برسات کا موسم محسوس ہوتا ہے، جیسے آسمان پر گھٹا چھا جائے تو انسان کے دل میں ایسی گدگدی ہوتی ہے کہ آنکھوں میں خمار آجاتا  ہے اور ساقی صاحب مکاں یا محبوب اس طرح نظر آتا ہے کہ اس کے انگ انگ میں جوش،  جذبہ جوانی اور رعنائی جھلکتی ہے چہرہ بھی رخ روشن ہو جاتا ہے۔

 پیراہن میں سے خوشبو پھوٹتی ہے اور شراب کا پیالہ یعنی زندگی ایسا تماشا بن جاتی ہے جو انسان کی کیفیات گم ہوجاتی ہے، غور کیا جائے تو یہ سب مٹی کا کمال ہے۔ یہی مٹی کبھی مے خانہ بن جاتی ہے، یہی مٹی رخ زیبا بن جاتی ہے اور یہی مٹی تماشائی بن جاتی ہے۔

 قلندر بابا اولیاء نے انسان کو اپنی رباعی میں اس کی طرف متوجہ کیا ہے خوشی اور غم کوئی مستقل شے نہیں ہے یہ انسان کے اپنے اندر کی واردات و کیفیات ہیں جو ایک جگہ قائم نہیں رہتیں، ان میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ اگر ہم اس قانون سے واقف ہو جائیں اور اپنی توجہ خوشی کی طرف مرکوز کر دیں تو ہم یہ محسوس کریں گے کہ ہر سمت گھٹا چھائی ہے اور ہر سمت بہار آئی ہے۔

_______________

روحانی ڈائجسٹ: دسمبر 03

Topics


Sharah Rubaiyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

ختمی مرتبت ، سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی  ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔

لوح و قلم اور رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ  و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی  سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار  ہوتے رہیں گے۔