Topics
وَلَقَدْ خَلَقْنَا
الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
ترجمہ: اور ہم نے
انسان کو کالے سڑے ہوئے گارے سے جو کھن
کھن بولتا ہے پیدا کیا۔
پارہ ۱۴، ربما، سورہ: ۱۵، الحجر، آیت : ۲۶
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ
وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ
ترجمہ:( لوگو!) ہم نے
تمہیں اسی (زمین) سے پیدا کیا اور اسی میں
تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے۔
پارہ ۱۶، قال الم ، سورہ ۲۰، طہ ، آیت ۵۵
مٹی کا ہے سینہ ، مٹی کا شانہ ہے
مٹی کی گرفت میں تجھے آنا ہے
کچھ دیر پہنچنے میں لگے گی شاید
مٹی کی طرف چند قدم جانا ہے
تشریح ! اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے ہم
نے گندھی ہوئی مٹی اور گارے سے انسان کا پتلابنایا اور پتلے میں اپنی روح پھونک
دی۔ پتلے سے مراد انسان کے تمام جسمانی اعضاء ہیں۔ مثلا ہاتھ، انگلیاں، پیر،
ٹانگیں، گلے سے ٹانگوں تک ہڈیوں کا صندوق۔ اس صندوق کے اندر پھیپھڑے، دل ، گردے
جگر اور دوسرے تمام اعضاء جو اس صندوق کے اندر سلیقے سے رکھے گئے ہیں۔ مثلا گردن
کے اوپر کھوپری کے پیالے میں دماغ، دماغ کے اندر کھربوں خلیے، یہ سب مٹی سے بنے
ہوئے ہیں۔جب مٹی کے بنے ہوئے ان سب کل
پرزوں میں اللہ تعالی نے اپنی روح یعنی
توانائی منتقل کی تو یہ سب چیزیں حرکت میں آگئیں۔ آپ نے رسٹ واچ ضرور دیکھی
ہوگی، جب ہم ڈائل الگ کرکے گھڑی کھولتے ہیں تو اس کے اندر ہمیں مشینری نظر آتی
ہے، اس میں بہت ساری گراریاں ہوتی ہیں، ہر گراری کے دندانے دوسری گراری میں پھنسے
ہوئے ہوتے ہیں، جب ایک گراری چلتی ہے تو
مشین کے اندر جتنے کل پرزے ہیں سب چلتے ہیں، اور ان گرایوں کو چلانے کے لیے چابی
یا توانائی کام کرتی ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالی نے انسان کی جسمانی مشین میں اپنی
روح پھونک دی تو دل چلنے لگا۔ تو ساری مشین حرکت میں آگئی۔ یہ تو ہوئی انسان کی
بات۔ انسان جس زمین پر چل رہا ہے، وہ بھی حرکت میں ہے، سب کو پتہ ہے زمین چل رہی
ہے، ہر شخص جانتا ہے کہ سورج چل رہا ہے، چاند چل رہا ہے، ستارے گردش میں ہیں، ہوا
چل رہی ہے پانی بہہ رہا ہے، جسموں میں خون دوڑ رہا ہے، یعنی کسی بھی لمحے حرکت
منقطع نہیں ہوتی ہے۔ آدمی اگر بیدار ہے تب بھی چل رہا ہے، آدمی اگر سورہا ہےتب بھی
حرکت کر رہا ہے۔لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہم
چل تو رہے ہیں۔ لیکن کیوں چل رہے ہیں کہاں چل رہے ہیں۔ کون چلا رہا ہے، اس کا
ہمیں علم نہیں ہے، حضورقلندر بابا اولیاؒ
فرماتے ہیں کہ مٹی کا ہے سینہ۔۔۔۔ یعنی ہمارا سینہ مٹی کا بنا ہواہے، وہ بھی مٹی
ہے یعنی ہم بھی مٹی
ہیں اور ہمارا کاشانہ بھی مٹی ہے۔مٹی نے ہمیں اپنی گرفت میں اس طرح
جکڑا ہوا ہے کہ کسی بھی طرح اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ اس قانون کو
سمجھنے میں یا مٹی اصل حقیقت دریافت کرنے میں کچھ دیر تو لگتی ہے لیکن اگر انسان
چند قدم اس سفر کے لیے اٹھاوے تو تو یہ سب کچھ سمجھنا آسان عمل بن جاتا ہے، قدم بڑھانا عمل کی دنیا
ہے، اور عمل کا نتیجہ ضرور مرتب ہوتا ہے۔
______________
روحانی ڈائجسٹ: جون ۳
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔