Topics
مائی جنتؒ خوددار بزرگ خاتون تھیں۔ جب
دنیا نیند کی آغوش میں چلی جاتی تو بستر سے اٹھ جاتیں۔ دل سوز آواز میں اللی کی حمد و ثناء
بیان کر کے کہتیں:
’’اے میرے محبوب! میں تیری راہ میں بیٹھی
ہوں، تیری محبت کی روشنی میرے دل میں پھیل رہی ہے کیااس پر بھی تو مجھے قرب عطا
نہیں کرے گا، نہیں نہیں اے میرے اللہ! اے میرے محبوب ایسا نہ کرنا۔‘‘
مائی جنتؒ ایک مرتبہ کہیں سے آ رہی تھیں
کہ ایک صاحب ملے پوچھا:
’’کہاں سے آ رہی ہو؟‘‘
جواب دیا: ’’اللہ کی طرف سے۔‘‘
صاحب نے پھر پوچھا: ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘
مائی صاحبہ نے کہا: ’’اللہ کی طرف۔‘‘
صاحب نے کچھ رقم پیش کی، مائی جنتؒ نے ان
کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔ بولیں:
’’اللہ کی جو صورت تو نے اپنے دل میں بنا
رکھی ہے وہ تیری کم عقلی پر دلالت کرتی ہے، میں اللہ ہی کے لئے زندہ ہوں جس طرح
میں اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہیں کرتی اسی طرح اس کے سوا کسی سے کچھ نہیں
مانگتی۔‘‘
آپ نے خواب میں جنت دیکھی۔ صبح اس کا
احوال اس طرح بیان کیا:
’’میں گھوڑے پر سوار جنت میں داخل ہوئی تو
سات حوروں نے میرا استقبال کیا وہ مجھے نہر پر لے گئیں، غسل کرایا اور جنت کا لباس
اور زیور پہنایا۔ میں نے آئینہ دیکھا تو میرے ماتھے پر دو چاند سجے ہوئے تھے، کہا
گیا کہ ایک چاند حوروں کا حسن ہے اور دوسرا روحانیت میں کامیابی کا چاند ہے۔ ایک
فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے کہا کہ میرے پروں پر سوار ہو جاؤ۔ میں فرشتے کے دائیں پر
کے اوپر بیٹھ گئی۔ فرشتے نے مجھے جنت کے اعلیٰ مقام پا اتار دیا۔ یہاں کوئی نہیں
تھا۔ میں کافی دیر تک گھومتی رہی۔ یکایک حضرت خواجہ غریب نوازؒ تشریف لائے۔ انہوں
نے مجھے فیروزہ کی انگوٹھی پہنائی پھر حضرت داتا صاحبؒ ، لعل شہباز قلندرؒ اور
حضرت شمس تبریزؒ تشریف لائے اور پھولوں کا ہار میرے گلے میں ڈال دیا۔ اس خواب کے
بعد سے آپ مائی جنتؒ کے نام سے مشہور ہو گئیں۔
* اے میرے محبوب! میں تیری راہ میں بیٹھی
ہوں، تیری محبت کی روشنی میرے دل میں پھیل رہی ہے۔
* دل اللہ کا گھر ہے اس کو روشن رکھو۔
* معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب
بندے رسول اللہﷺ سے جو دل چاہا باتیں کیں اور فرمایا:’’دل نے جو دیکھا جھوٹ
نہیں دیکھا۔‘‘
* کہاں سے آ رہی ہو؟ ’’اللہ کی طرف سے۔‘‘
کہاں جا رہی ہو؟’’اللہ کی طرف۔‘‘
* آدمی نے اللہ کی جو صورت اپنے دل میں
بنا رکھی ہے وہ کم عقلی پر دلالت کرتی ہے۔
* میں اللہ کے لئے زندہ رہوں اور اللہ سے
ہی مانگتی ہوں۔
* ظاہری اور باطنی حسن یہ ہے کہ تکالیف پر
صبر کیا جائے۔
* شکر کو اپنا شعار بنا لو شکر کرنے والے
بندے بہت کم ہیں۔
* ایک فرشتہ ظاہر ہوا اس نے کہا۔ میرے
پروں پر سوار ہو جاؤ۔ میں فرشتے کے ایک پر کے اوپر بیٹھ گئی۔ فرشتے نے مجھے جنت کے
اعلیٰ مقام پر اتار دیا۔
* حوروں نے مجھے جنت کا لباس پہنایا۔ میں نے آئینہ
دیکھا کہ میرے ماتھے پر دو چاند تھے۔ ایک حوروں کا حسن اور دوسرا روحانیت میں
کامیابی کا چاند۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔