Topics
جاوید
اختر ، لا ہور ۔۔۔
سوال
: آپ نے خیالات کے دو ر خ متعین کئے ہیں ۔ ایک اسفل اور دو سرا اعلیٰ ۔ اعلیٰ
خیالات کو آپ نے فکر ِسلیم کا نام دیا ہے ۔ مذہبی نقطہ نظر سے اسلامی اصولوں کے
مطا بق زندگی گزرنا فکرسلیم ہے ۔ اور اسلام میں ٹیلی پیتھی کا کہیں کو ئی تذکرہ
نہیں ہے ،۔ ٹیلی پیتھی دراصل ان علوم میں
سے ایک علم ہے جو یو رپ کے سائنسدانوں نے دوسرے ماورا ئی علوم سے اخذ کیا
ہے ۔ یہ بہت زیادہ پر یشان کن بات ہے کہ آپ نے اسلام میں ٹیلی پیتھی کی پیو ند
کاری کی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ٹیلی پیتھی ایک ایسا علم بن گیا ہے کہ جس کی اہمیت سے
کسی کو انکار کی مجال نہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ٹیلی پیتھی سیکھنے
والاہر فرد فکرسلیم بھی رکھتا ہو ۔ یعنی وہ مسلمان ہو کیا آپ کسی ایسے واقعے کی
نشاندہی کر سکتے ہیں جو ہمارے اسلاف کے ساتھ پیش آیا ہو اور ٹیلی پیتھی کے علم سے
مطا بقت رکھتا ہو ؟ آپ سے نہا یت دردمندانہ درخواست ہے کہ آپ اس علم کو اس کی
اصلی شکل و صورت اور اسکی حقیقی حیثیت میں
پیش کر یں تا کہ اسلام اور ٹیلی پیتھی میں امتیاز بر قرار رہے ۔
جواب : جہاں تک فکر سلیم کا تعلق ہے اس کو کسی ایک گر وہ کی
میراث قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فکر سلیم دراصل انسانی اقدار کا دوسرا نام ہے ۔اگر
کسی غیر مسلم میں انسانی قدریں موجودہیں اس کو بہر حال انسان کہا جا ئے گا۔ اور
اگر کسی مسلمان میں ا نسانی قدریں نہیں ہیں تو وہ ہر گز مسلمان کہلا نے کا مستحق
نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ پا رہ ۶ ، رکوع ۱۳، سورہ الما ئد ہ کی آیا ت ۶۹ میں ارشادفر ما تے ہیں:
البتہ
جو مسلمان ہیں اور جو یہودہیں اور صائبین اور نصاریٰ جو کو ئی ایمان لا ئے اللہ پر
اور یوم آخرت پر اور عمل کر ے نیک ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غم کھا ویں (تر جمہ شاہ
عبد القادر جیلا نی ؒ)۔
آیت
مقدسہ میں یہ بات پو ری طر ح واضح کر دی گئی ہے کہ کسی قوم یا کسی فرد کا نیک عمل
ضائع نہیں کیا جا تا ۔ اس نیک عمل کا اجر اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کر تے ہیں ۔شرط
یہ ہے کہ اس کا عمل خالصتا ً اللہ کے لئے ہو ۔ایسا عمل جو اللہ کے لئے کیا جا ئے
فکر سلیم کے دائرے میں آتا ہے ۔ہم نے فکر سلیم کو ایک ایسی طر ز فکر بتایا ہے جو
انسان کو اس کی روح سے قریب کر تی ہے ۔ رو ح سے قریب ہو نا اور روح کا عرفان حاصل
ہونا ہی دراصل انسانیت ہے ۔ تمام آسمانی صحائف نو ع انسانی کو اس طر ز فکر کی
دعوت دیتے ہیں ۔
اس
سوال کا جواب کہ اسلام میں ٹیلی پیتھی کا وجود نہیں ہے یا ہے کہ دراصل ٹیلی پیتھی
نام ہی ایسی چیز کا جس کا ذریعے ایک بندہ اللہ کی مخلو ق کے دلو ں میں اپنے
خیالات اور طر ز فکر منتقل کر تا ہے۔ تمام
انبیا ء علیہم السلام کا مشن رہا کہ وہ اپنی اس طر ز فکر کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف
سے بطور خاص ودیعت ہو ئی ہے اللہ کی مخلوق کو اس سے فیض یاب کر یں اور ان کو شیطنت
سے مامون اور با غیا نہ طر ز زند گی سے نجات دلا ئیں ۔ اس سے کو ئی فر ق نہیں پڑتا کہ تر غیب کے بجا ئے اس علم کو ٹیلی پیتھی کہہ
دیا جا ئے جس طر ح خدا کو انگر یزی میں GOD یا ہندی میں
بھگوان کہا جا تا ہے ۔
آپ
نے یہ بھی لکھا کہ کسی ایک واقعہ کی نشاندہی کر دی جائے جو اسلاف کے ساتھ پیش آیا
ہو وہ ٹیلی پیتھی سے مطا بقت رکھتا ہو ۔
تاج
دار دو عالم سرور کا ئنات حضور علیہ السلام جب ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو اونٹ
کی آنکھوں میں آنسودیکھ کر اس کے ما لک سے ارشاد فر ما یا کہ یہ اونٹ تیری شکا
یت کر رہا ہے کہ تو اس پر بوجھ پو را ڈالتا ہے لیکن اس کے خورد نوش کا انتظام پو
را نہیں کر تا۔
اسی
طر ح تاریخ اسلام میں حضرت عمرفا روق ؓ کا یہ واقعہ سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے
ایران کے ایک جنگ کے دو ران سپہ سالار اسلام حضرت ساریہ ؓ اپنے لشکر کو لیکر دشمن
کے بہت قریب پہنچ گئے اور اس کا محا صرہ کر لیا ۔ اور اس کے بعد دشمن نے امداد
حاصل کر لی اور اس کی تعداد بہت بڑھ گئی اسی دو ران حضرت عمر ؓ
جمعہ
کا خطبہ دینے کھڑے ہو ئے تو اچانک آپ نے فر ما یا ‘’اے لوگوں ! میں نے فریقین کو
دیکھا ہے ۔ “اس کے بعد آپ نے دونوں
لشکروں کا حال بیان کیا پھر پکار کر فر مایا ‘’یا ساریۃ، الجبل الجبل ! “ ‘’(اے
ساریہ ! پہاڑ کی طر ف چلئے جاؤ) “۔تا ریخ شاہد ہے کہ ساریہ ؓ میدان جنگ میں
حضرت عمر ؓ کی آواز سن کر پہاڑ کی طرف متوجہ ہو ئے اور شکست سے محفوظ مامون رہے ۔
اس
ضمن میں انبیا ء اکرام ؑ اوار اولیا ء اللہ اور جینیئس (GENIUS)لوگوں
کے سینکڑوں واقعات ایسے ہیں جو مثال کے طور پر پیش کئے جا تے ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔