Topics
محمد
ارشد ، کراچی ۔۔۔
سوال
: میں آپ سے چند سوالات کے جوابات چاہتا ہوں ۔ آپ ان سوالات کے جو ابات
قرآن کر یم کی رو شنی میں دیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ ان سوالات کے جوابات سے رو
حانیت کے بعض گو شوں پر رو شنی پڑے گی ۔ اور ایسے لوگ جن لوگوں کے ذہنوں میں ایسے سوالات پیدا ہو تے ہیں وہ بھی مطمئن ہو جا
ئیں گے ۔
اگر
ہم ٹیلی پیتھی کے ذریعے اپنے خیالات کو دو سروں تک پہنچا سکتے ہیں اور دو سرں کے
خیالات معلوم کر سکتے ہیں تو ہم ٹیلی پیتھی کو پو چھ گچھ کے سلسلے میں کیوں
استعمال نہیں کر تے اور جا سوسوں کے اہم منصوبوں سے کیوںواقف نہیں ہو جاتے ؟
دو
سرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی روحانی استاد کی نگرانی میں مر اقبہ کر نے سے دل کی
آنکھ کھل جاتی ہے تو ہم یہ کیوں نہیں پتا کر لیتے کہ اہرام مصرکب کیوں تعمیر ہو ئے اوار ان میں
استعمال ہونے والے اتنے وزنی پتھر کس طر ح لا ئے گئے ؟
جواب
: دنیا میں را ئج علوم کی اگر درجہ بندی کی جا ئے تو ہم انہیں تین حصوں میں تقسیم
کر سکتے ہیں ۔ وہ یہ ہیں :۔
۱۔
طبیعات PHYSICS
۲۔
نفسیات PSYCHOLOGY
۳۔
مابعد النفسیات PARA PSYCHOLOGY
علم
طبیعات کے ضمن میں زندگی کے وہ اعمال و اشغال آتے ہیں جن سے کو ئی آدمی محدود
دائرے میں رہ کر مستفیض ہو تا ہے یعنی اس کی سوچ کا محور مادہ (MATTER)اور صرف مادہ ہو تا ہے ما دی دنیا کے اس
خول سے وہ با ہر نہیں نکلتا ۔
نفسیات
وہ علم ہے جو طبیعات کے پس پر دہ کا م کر تا ہے خیالات تصورات اور احساسات کا تا
نا با نا اسی علم سے مر کب ہے ۔خیالات اگر تواتر کے ساتھ علم طبیعات کے دائرے میں
منتقل ہو تے رہیں تو آدمی صحت مند خیالات کا پیکر ہو تا ہے اور اگر خیالات کے اس
لا متناہی سلسلے میں کو ئی رخنہ در آئے اور علم طبیعات کا دائرہ اس خیال میں مرکوز ہو جائے تو آدمی نفسیاتی مریض بن جا
تا ہے ۔
علم
بعد النفسیات علم کی اس بساط کا نام ہے جس کو رو حانیت میں مصد ر اطلاعات یعنی SOURCE OF INFORMATION کہا جا تا ہے ۔علمی حیثیت میں یہ
ایسی ایجنسی ہے جولا شعور کے پس پر دہ کا م کر تی ہے ۔
اس
اجمال کی تفصیل یہ ہو ئی کہ آدمی تین دا ئروں سے مر کب ہے ۔ شعور ، لا شعور اور
ورا ئے لا شعور۔ جب ہم کسی مظا ہراتی خدوخال میں داخل ہو تے تو ہمیں ان تین دائروں
میں سفر کر نا پڑتا ہے۔ یعنی پہلے ہمیں کسی چیز کی اطلاع ملتی ہے پھر اس اطلاع میں
تصورا تی نقش و نگار بنتے ہیں اور پھر یہ تصورا تی نقش و نگار مظہر کا رو پ دھا ر
کر ہمارے سامنے آجا تے ہیں ۔اسی بات کو ہم دو سری طرح بیان کر تے ہیں تا کہ بات
پو ری طر ح واضح ہو جا ئے ۔
کا
ئنات میں پھیلے ہو ئے مظا ہر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ بات سامنے آجا تی ہے کہ
خیالات یعنی اطلاع(INFORMATION) تمام موجودات میں قدرِمشترک رکھتی ہے ۔ اس
کی مثال یہ ہے کہ پا نی کو ہر آدمی ، ہر حیوان ، نبا تا ت ، جمادات پا نی سمجھتے
ہیں اسی طر ح اس سے استفا دہ کر تے ہیں جس طر ح ایک آدمی کر تا ہے۔ پا نی کو پا نی کہا جا تا ہے۔اس ہی طر ح
آگ ہر مخلو ق کے لئے آگ ہے آدمی اگر آگ سے بچنے کی کو شش کر تا ہے تو بکر ی،
کبوتر ، شیر اور حشرات الارض بھی آ گ سے بچنے کی کوشش کر تے ہیں ایک آدمی مٹھاس
پسند کر تا ہے دوسرا طبعاً میٹھی چیزوں کی طر ف مائل نہیں لیکن یہ دو اشخا ص میٹھے
کو میٹھا اور نمک کو نمک کہنے پر مجبور ہیں ۔ پتہ یہ چلا کہ جہاں آدمی خیالات اور
تصورا ت میں قدر مشترک رکھتے ہیں وہاں وہ خیالات میں اپنی مر ضی اور منشاء کے مطا
بق معانی پہنانے پر قدرت رکھتے ہیں ۔آپ کا یہ سوال کہ کیا ہم اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں اور کیا دوسروں
کےخیالات معلوم کر سکتے ہیں کہ جواب میں عرض ہے آپس میں خیالات کی منتقلی
کا نا م ہی زندگی ہے ہم اپنے علاوہ دو سرے
فر دکو صرف اس لئے پہچانتے ہیں کہ اس کے تشخص کے خیالات ہمیں منتقل ہو رہے ہیں ۔
اگر زید کے خیالات اور خیالات کا مجموعہ زندگی بکر کے دماغ کی ا سکر ین پر نہ ہو
تو بکر، زید کو نہیں پہچا ن سکتا ۔ درخت کی زندگی میں کام کر نے والی وہ لہریں جن
کا اوپر درخت کاوجود قائم ہے اگر آدمی کے اندر ،منتقل نہ ہو تو آدمی درخت کو
نہیں پہچان سکے گا ۔
دیکھنے
اور سمجھنے کی طر ز یں دو رخ پر قائم ہیں ایک بر اہ راست اور دو سری با لواسطہ ۔
با الواسطہ دیکھنے کی طر ز یہ ہے کہ ہم علمی اعتبار سے دو وجود کا تعین کر
تے ہیں ۔ایک وجود شاہد یعنی دیکھنے والا ۔ دو سرا وجود مشہود جو دیکھا
جا رہا ہے ۔ایک آدمی جب بکری کو دیکھتا ہے تو با الفاظ دیگر
وہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں بکر ی کو دیکھ رہاہوں ۔ یہ با لواسطہ دیکھنا ہے ۔دو سری
طر ز یہ ہے کہ بکری ہمیں دیکھ رہی ہے اور ہم بکری کو دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں یعنی بکری کی زندگی کو قائم رکھنے والی لہریں
ہمارے دماغ کی اسکرین پر بصورت اطلاع وارد ہو ئیں ۔دماغ نے ان لہروں کو نقش و نگا
رمیں تبدیل کیا ۔اور جب یہ نقش و نگار شعور کی سطح پر نمو دار ہو ئے تو بکر ی کی
صورت میں مظہر بن گئے قانون رو حانیت کی رو سے فی الواقع
براہ راست دیکھنا ہی صحیح ہے اوار با لواسطہ دیکھنا محض(FACTION) مفروضہ
ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ کا یہ ارشاد بہت زیادہ توجہ طلب ہے اللہ تعا لیٰ حضور سے
ارشاد فر ما تے ہیں :
‘’اور
تو دیکھ رہا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں ، تیری طر ف ، وہ کچھ نہیں دیکھ رہے ۔ “
آیت
مقدسہ کے مفہوم پر غور کیجئے اللہ تعالیٰ یہ فر ما رہے ہیں کہ وہ دیکھ رہے ہیں
لیکن باوجوددیکھنے کے وہ کچھ نہیں دیکھ رہے ۔ حاصل کا ئنات ، فخر مو جودات
سیدنا حضور علیہم الصلوٰۃ والسلام کے قدسی نفس تشخص میں اللہ تعالیٰ کی جو تجلیات
اور انوار کام کر رہے ہیں وہ لوگوں کی آنکھوں سے مخفی ہیں ۔اور ان تجلیات اور
انوار کو نہ دیکھنا اللہ تبا رک تعالیٰ کے ارشاد کے بموجب کچھ نہ دیکھنا ہے ۔
اپنی
حدود میں رہتے ہو ئے براہ راست دیکھنے کی طر ز رکھنے والے جن بندوں نے حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے اندر موجود انوار و تجلیات کا مشاہدہ کیا وہ حضور ﷺ کے ہم خیال
بن گئے ۔ یہ بات الگ ہے کہ براہ راست دیکھنا کسی بندے میں قلیل تھا اور کسی بندے
میں زیادہ ۔
ٹیلی
پیتھی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان جدو جہد اور کوشش کر کے بر اہ راست دیکھنے کی طر ز
سے قریب ہو جا ئے ۔جن حدود میں وہ براہ راست طر فکر سے وقوف حاصل کر لیتا ہے اسی
مناسبت سے وہ لہریں جو خیال بنتی ہیں اس کے سامنے آجا تی ہیں ۔یہ عجیب سر بستہ
راز ہے پوری کا ئنات کے افراداطلاعات اور خیالات میں ایک دو سرے سے ہم رشتہ ہیں البتہ اطلاعات میں معنی پہنانا الگ الگ وصف ہے ۔
بھوک کی اطلاع شیر اور بکر ی دو نوں میں موجود ہے لیکن بکری اس اطلاع کی تکمیل میں
گھاس کھا تی ہے اور شیر بھوک کی اس اطلاع کو پورا کر نے کے لئے گو شت کھا تا ہے ۔
بھوک کے معاملے میں دونوں کے اندر قدرِمشترک ہے ۔بھوک کی اطلاع کو الگ الگ معنی
پہنانا دونوں کا جداگا نہ وصف ہے ۔
آپ
کا یہ سوال کہ ٹیلی پیتھی کو جا سوسی میں کیوں استعمال نہیں کیا جا تا اور یہ کہ
ٹیلی پیتھی کے ذریعے سر بستہ راز کیوں نہیں معلوم کئے جا تے اس کے بارے میں ایسے
شواہد موجو دہیں کہ ہپناٹزم کے ذریعے یورپ میں بڑے بڑے آپر یشن کر دئیے جا تے ہیں
اور مر یض کو تکلیف کا احساس بالکل نہیں ہو تا ۔وغیرہ وغیرہ ۔ ہپنا ٹزم اور ٹیلی
پیتھی ایک ہی قبیل کے دو علم ہیں ۔ان کا منبع اور مخزن دونوں ایک ہے یعنی خیالات
کے اوپر گر فت کا مضبوط ہو نا ۔
ایسے
صاحب روحانیت جو ٹیلی پیتھی کے قانون سے واقف ہیں وہ آزاد ذہن ہو تے ہیں۔انہیں
کیا ضرورت پڑی ہے ۔ کہ جا سوسوں کو پکڑتے پھر یں اور پو لیس کا کر دار انجام دیں
۔البتہ یہ بات عام طور پر مشاہدے میں آئی ہے کہ کو ئی بندہ کسی صاحب رو حانیت کی
خدمت میں حا ضر ہوا اور اس بندے کے دماغ میں جو کچھ تھا وہ انہوں نے دانستہ اور
غیر دانستہ طور پر بیان کر دیا ۔
اہرام
مصرکب اور کیوں قائم ہو ئے اور ان کو تیس لا کھ تر اشے ہو ئے پتھروں سے کس طر ح
بنا یا گیا جب کہ ہر چٹان کا وزن ستر ٹن ہے ۔ اور یہ زمین سے تیس چا لیس فٹ کی
بلندی پر نصب ہیں ۔اور ان اہرام کا فا صلہ کم سے کم پندرہ میل اور زیادہ سے زیادہ
پا نچ سومیل ہے یعنی جن پتھروں سے اہرام مصر کی تعمیر ہو ئی وہ پا نچ سو میل دور
سے لا ئے گئے تھے ۔
میرے
بھا ئی ! کسی صاحب مراقبہ کو یہ بات معلوم کر نا کو ئی مشکل کام نہیں ہے
لیکن ان کے سامنے اس سے بہت زیادہ ارفع واعلیٰ رموز ہو تے ہیں ۔اور وہ ان رموز کی
تجلیات میں محو استغراق رہتے ہیں ۔
ایک
بزرگ رمپا(RAMPA) خیالات کی لہروں
کے علم سے وقوف رکھتے ہیں انہو ں نے ما ہرین آثار قدیمہ کے اصرار پر یہ انکشاف
کیا کہ بیس ہزار سال پہلے کے وہ لوگ جنہوں نے اہرام مصر بنا ئے ہیں آج کے سائنس
دانوں سے زیادہ تر قی یا فتہ تھے اور وہ ایسے ایجادات میں کا میاب ہو گئے تھے جن
کے ذریعے پتھروں میں سے کشش ثقل ختم کر دی جا تی تھی ۔ کشش ثقل ختم ہو جانے کے بعد
پچاس یا سو ٹن وزنی چٹان ایک آدمی اس طرح اٹھا سکتا جیسے پروں سے بھرا تکیہ ۔
اس
طر ح سائنس کی دنیا میں ایک اور بزرگ جناب ایڈگر کیسی کے مطا بق ان پتھروں کو ہوا
میں تیرا کر(FLOAT) موجودہ جگہ بھیجا
گیاہے ۔
اہرام
مصر کے سلسلے میں ان دانشور بزرگوں نے جو کچھ فر مایا ہے وہ لہروں کی
منتقلی کےاس قانون کے مطا بق ہے جس کو
ٹیلی پیتھی کہا جاتا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔