Topics
قصبہ پاک
پتن کے قریب ایک بستی خوئرہ میں
عاقل بی بیؒ رہتی تھیں ان کے والد میاں کمال کھیتی باڑی کرتے تھے۔ بی بی عاقلؒ کے
بچپن کا واقعہ ہے کہ وہ ایک روز اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیت میں کھیل رہی تھیں۔ ایک
گدڑی پوش فقیر وہاں سے گزرے بی بی صاحبہؒ کو دیکھتے ہی رک گئے اور دیر تک سبحان
اللہ، سبحان اللہ کہتے رہے۔
حضرت شیخ فتح دریاؒ ایک صاحب کمال بزرگ
تھے۔ ایک دفعہ وہ بستی خوئرہ سے گزرے شیخ کمال کے ہاں مہمان ٹھہرے۔ انہوں نے جب بی
بی عاقلؒ کو دیکھا تو دیر تک گم سم رہے اور جب محویت ٹوٹی تو فرمایا:
’’یہ اللہ کی دوست اور فقیر ہے اور اس کے
پہلو سے ایک سعید روح دنیا میں آئے گی۔‘‘
حضرت بی بی عاقلؒ کو ایک مرتبہ خواب میں
ماضی کے مناظر نظر آئے۔ جوانی، لڑکپن، بچپن اور پھر شکم مادر میں خود کو دیکھا۔
بی بی عاقلؒ کی شادی ہندال خاندان کے ایک رئیس سے ہوئی، ہندال خاندان کا شجرہ نسب
ایران کے بادشاہ نوشیرواں عادل سے ملتا ہے۔ ہندال خاندان میں ایک بہادر اور خدا
ترس آدمی گڈن تھا۔
علاقہ بیکانیر کے ایک غیر مسلم تشدد پسند
گروہ نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔ یہ گروہ لوٹ مار اور قتل و غارت کر
کے روپوش ہو جاتا تھا۔ اس گروہ کو روکنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک دن تباہ حال بستیوں
کے لوگ رئیس گڈن کے پاس پہنچے اور روتے ہوئے اپنی تباہی کی داستان سنائی۔ گڈن نے
لوگوں کو جمع کر کے ایک لشکر تیار کیا اور انہیں تلوار اور نیزے فراہم کئے۔ گڈن نے
خود لشکر کی قیادت کی اور ظالم گروہ پر حملہ کر دیا۔ سخت لڑائی ہوئی۔ گڈن نے کمال
شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ دوران لڑائی تلوار کا ایک وار گڈن کی گردن پر پڑا اور سر تن
سے جدا ہو گیا۔ لیکن لوگوں نے انتہائی حیرت سے یہ منظر دیکھا کہ بغیر سر کا دھڑ
بہت دور تک دشمنوں کا پیچھا کرتا رہا۔ آخر دور جا کر ایک جگہ زمین بوس ہو گیا۔
امیر لشکر کی بہادری سے بالآخر مسلمان فتح یاب ہوئے۔ لوگوں نے جائے شہادت پر گڈن
کا مزار تعمیر کیا جو آج بھی مرجع خلائق ہے۔ بی بی عاقل اسی خاندان کے فرد بندل
خان سے رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئیں۔ شادی کے کچھ عرصے بعد کمالیہ کے ایک زبرگ میاں
احمد عاقل بی بیؒ کے گھر تشریف لائے۔ بی بی صاحبہؒ سلام کے لئے حاضر ہوئیں تو میاں
احمد تعظیماً کھڑے ہوئے۔ حاضرین سخت متعجب ہوئے۔ بی بی صاحبہؒ نے کہا:
’’آپ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں اس عاجز
بندی کو کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔‘‘
میاں احمد صاحب نے فرمایا:
’’بیٹی میں تو اس مہر منور کی تعظیم میں
کھڑا ہوں جس کا نور تمہارے اندر چمک رہا ہے جو زمانے کا قطب ہو گا۔ کچھ عرصے کے
بعد لوگوں کو یہ خوشخبری ملی کہ اللہ نے عاقل بی بی کو ایک فرزند عطا فرمایا ہے۔‘‘
* آدمی صرف اس وقت مغلوب ہوتا ہے جب وہ
خود کو شکست خوردہ سمجھ لیتا ہے۔
* اصل عزت وہی ہے جو اپنی ہمت و کوشش سے
حاصل ہو۔
* راستے سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا
دینا نیکی ہے۔
* نیک بخت وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کر
نصیحت حاصل کرے۔
* مخاطب کو اچھی طرح بلانا بھی محبت ہے۔
* تلوار کا زخم جسم پر ہوتا ہے اور بری
گفتار سے روح گھائل ہو جاتی ہے۔
* بے ہودہ بات میں ہاں میں ہاں ملانا منافقت
ہے۔
* اچھے اعمال سے عقل میں نکھار پیدا ہو
جاتا ہے۔
* کم گو آدمی زیادہ اچھی باتیں کرتا ہے۔
* الفاظ کی بہ نسبت لہجے کا اثر زیادہ
ہوتا ہے۔
* عیاری چھوٹی چادر کی طرح ہے سر چھپاؤ تو
پیر ننگے ہو جاتے ہیں۔
* دوستی کو اگر مضبوط بنانا ہے تو تحائف
کا تبادلہ کیجئے۔
* تمام رات عبادت کرنے سے اگر پڑوسی تنگ
ہوتا ہے تو یہ عبادت نہیں ہے۔
* حکمت عملی قوت بازو سے زیادہ کام آتی
ہے۔
* علم کی روشنی میں رات نہیں ہوتی۔
* بروں کی ہم نشینی سے تنہائی بہتر ہے۔
* قبر کو روشن رکھنے کے لئے حضور اکرمﷺ پر
زیادہ سے زیادہ درود بھیجئے۔
* فقراء کی خدمت بہت بڑی سعادت ہے۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔