Topics
نہر زبیدہ کی دیکھ بھال ملکہ زبیدہ کے بعد
آنے والے مسلمان حکمرانوں نے جاری رکھی لیکن تقریباًسات سو سال بعد مکہ کے تمام
چشمے اور کنویں خشک ہو گئے تھے۔ نہر زبیدہ بھی پتھروں اور ریت سے بھر گئی تھی اور
جگہ جگہ سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس میں پانی بھی کم رہ گیا تھا۔ ایک بار پھر مکہ میں پانی
کی قلت ہو گئی اور مکہ کے حالات بالکل ویسے ہو گئے جیسے نہر زبیدہ بننے سے پہلے
تھے۔
ان حالات کی خبر ایک نیک دل ترک شہزادی فاطمہ خانم کو پہنچی تو وہ بے چین ہو گئی۔
فاطمہ خانم ترکی کی فرمانروا سلطان سلیم کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے تیہہ کر لیا کہ وہ
ایسا انتظام کریں گی جس سے مکہ کے ہر گھر میں پانی پہنچ جائے اور حاجیوں کو بھی
ضرورت کے مطابق پانی ملتا رہے۔ اس نے اپنے ایک معتمد ملازم ابراہیم بن تکرین کو
پچاس ہزار اشرفیاں دے کر حکم دیا کہ مکہ جا کر پہلے نہر کی صفائی اور مرمت کراؤ
اور پھر اس کو ’’چاہ زبیدہ‘‘ سے مکہ معظمہ تک پہنچانے کا انتظام کرو۔
ابراہیم بن تکرین نے مکہ معظمہ جا کر
مصر،شام اور یمن سے تجربہ کار انجینئروں اور کاریگروں کو جمع کیا اور انہیں
سینکڑوں مزدور دے کر نہر کی صفائی پر لگا دیا۔ ان لوگوں نے سخت جانفشانی کے ساتھ
نہر کی صفائی اور مرمت کی۔ بعد میں نہر کو’’چاہ زبیدہ‘‘ سے مکہ معظمہ کی طرف
بڑھانے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ آگے ایک بہت بڑی چٹان ہے جو دو ہزار فٹ دور
تک چلی گئی ہے اس کی موٹائی پچاس فٹ اور چوڑائی کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اس چٹان
کو توڑنا ناممکن نظر آتا تھا۔ ابراہیم ہمت ہار بیٹھا اور فاطمہ خانم کو اطلاع دی
کہ چٹانوں کی وجہ سے نہر کو چاہ زبیدہ سے آگے بڑھانا ممکن نہیں ہے۔شہزادی بڑی
حوصلہ مند اور باہمت تھی۔ اس نے ابراہیم کو حکم دیا کہ اس چٹان کو ہر قیمت پر کاٹ
کر نہر کو مکہ معظمہ تک پہنچاؤ، چنانچہ سینکڑوں مزدور اس چٹان کو کاٹنے میں مصروف
ہو گئے۔ اس زمانے میں نہ ڈائنامیٹ ایجاد ہوا تھا اور نہ ایسی مشینیں تھیں جن سے آج
کل پہاڑ کاٹنے کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ لوگ پتھروں پر مسلسل آگ جلاتے رہتے تھے وہ
کچھ نرم ہو جاتے تو تیز دھار آلات سے کاٹتے تھے۔ دس سال لگاتار اسی طرح محنت کرتے
رہے۔ شہزاد ی ان کو دل کھول کر مزدوری دیتی رہی۔ آخر وہ مبارک دن آ گیا جب چٹان
ٹوٹ گئی اور نہر مکہ معظمہ تک پہنچ گئی۔ اس دن اہل مکہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ
تھا۔ انہوں نے دعوتیں کیں اور غریبوں اور محتاجوں کو دل کھول کر خیرات دی۔ حکومت
کی طرف سے بھی انجینئروں اور مزدوروں کو نقد رقم اور قیمتی تحائف دیئے گئے اس نیک
کام کی وجہ سے شہزادی فاطمہ خانم کو ’’ملکہ زبیدہ ثانی‘‘ کہا جاتا ہے۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔