Topics
ساقی تیرا مخمور پئے گا سو بار
گردش میں ہے ساغر تو رہے گا سو
بار
سو بار جو ٹوٹے تو مجھے کیا غم ہے
ساغر میری مٹی سے بنے گا سو بار
تشریح! درج بالا رباعی بھی بابا جی کی دیگر رباعیات سے مماثلت رکھتی ہے، اس لیے کہ اس میں بھی بے ثباتی دنیا کا تذکرہ ہے، میخانہ کو دنیا کےلیے بطور علامت استعمال کیا گیا ہے، مے نوشی اور ساغر کا گردش میں رہنا وظائف دنیا ہیں، بابا صاحب فرماتے ہیں کہ دنیاوی وظیفہ جس شکل میں ہے اسی طرح جاری رہے گا۔ نئے نئے انسان آ آ کر اس مشغلے میں شامل ہوتے جائیں گے۔ اس میلے میں کسی کو کسی کی کمی کا احساس نہیں ہوگا۔ نہ کوئی کسی کی عدم موجودگی کو محسوس کرکے رنجیدہ ہوگا۔ بس ہر انسان وقت کی رفتار کے ساتھ گردش کرتا رہے گا۔ چھوٹے موٹے تغیرات اس روٹین (Routine) پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ لیکن یہی چھوٹے چھوٹے تغیرات انسان کو بہ بڑے تغیر کی آمد کا پتہ دیتے ہیں، اور انسان کو دعوت فکر دے رہے ہیں کہ وہ لوگ جوتھوڑی دیر پہلے کاروبار دنیا میں ان کے شریک تھے، کہاں چلے گئے؟ جاننا چاہیے کہ وہ مٹی میں مل کر مٹی ہو چکے ہیں اور اسی مٹی کے پیالے اب دنیا میں موجود لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔
____________
روحانی ڈائجسٹ : نومبر ۸۳، جون ۸۵
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔