Topics

زینب پھوپی جیؒ

بی بی زینب کا تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا۔ اور حضرت جیون شاہ سے فیض باطنی حاصل کیا، آپ ساہیوال میں رہتی تھیں۔

زینب پھوپی کی بہت سی کرامات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک بار سلسلہ قادریہ کے ایک رکن شہزاد خالدصاحب نے ایک صاحب نور محمد کو بی بی صاحبہ کے مزار پر فاتحہ خوانی کرتے دیکھا تو دریافت کیا کہ آپ مجھے ان بی بی صاحبہ کے بارے میں کچھ بتائیں، نور محمد صاحب نے بتایا کہ میرا بیٹا ایم اے کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے بیرون ملک جانا چاہتا تھا اس نے بی بی جی کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا۔ بی بی صاحبہ نے فرمایا:

’’تم باہر نہ جاؤ اسی جگہ تمہاری قدر ہو گی۔‘‘

بعد ازاں میرا بیٹا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ساہیوال ہو گیا۔

ایک صاحبہ کا بڑا بیٹا بغیر اطلاع کے گھر سے کہیں چلا گیا۔ کسی طرح اس کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ماں حد درجہ پریشان اور غم زدہ تھی، زار و قطار روتے ہوئے بی بی صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوئی، بی بی زینب نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد فرمایا:
’’وہ لاہور میں ہے۔ پریشان نہ ہو چند دنوں میں آ جائے گا۔‘‘

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بھی بیٹا گھر نہیں آیا تو دل گرفتہ ماں نے دوبارہ بی بی صاحبہ سے رجوع کیا۔ بی بی صاحبہ نے فرمایا کہ وہ وہاں جم گیا ہے اور ہم اسے آہستہ آہستہ اکھاڑ رہے ہیں۔ انشاء اللہ آ جائے گا۔

دو دنوں کے بعد ماں خوشی خوشی یہ خبر لے کر آتی کہ لڑکا ساہیوال میں رشتے داروں کے گھر آ گیا ہے اور میں اسے لینے جا رہی ہوں۔
ایک بچے کو سوکھے کی بیماری ہو گئی ہر قسم کا علاج کرانے کے بعد بھی افاقہ نہ ہوا تو باپ بچے کو لے کر زینب پھوپی کے پاس آیا۔ آپ نے بچے کی حالت دیکھ کر جلال کے عالم میں کہا:

’’کیوں رے! کرا لیا علاج۔‘‘

پھر بچے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا، مختلف درختوں کے پتے منگوائے اور اپنے سامنے پسوا کر ایک برتن میں پانی ڈلوا کر گرم کروایا اور نیم گرم پانی میں بچے کو گردن تک ڈبو دیا اور بچے کے باپ سے کہا کہ سوا مہینے تک یہ عمل کرنا۔ اللہ کریم نے بچے کو تندرست کر دیا۔
ایک بے سہارا اور غریب عورت بے اولاد تھی ہر طرف سے مایوس ہو کر زینب پھوپی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور دعا کی درخواست کی۔ زینب بی بی نے دعا کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھے نیک اولاد سے نوازے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور عورت نے بیٹے کا نام انوارالحق رکھا۔ کافی عمر گزر جانے کے بعد بھی انوار الحق کو بات کرنے میں دشواری ہوتی تھی اور الفاظ صحیح طور پر ادا نہیں ہوتے تھے۔ وہ خاتون بیٹے کو ساتھ لے کر دوبارہ بی بی کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ بی بی زینب نے لڑکے کو سامنے بٹھا کر دم کیا اور تعویذ لکھ کر دیا۔ کچھ ہی عرصے میں زبان کی لکنت ختم ہو گئی۔

حکمت و دانائی

* خدمت خلق کو اپنا شعار بنا لو یہی اصل زندگی ہے۔

* حلال روزی چاہے کم ہو اس پر قناعت کرو رفتہ رفتہ وسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔

* اللہ کو جسمانی ٹانگوں پر چل کر نہ ڈھونڈو وہ اس وقت سامنے آتا ہے جب دل کے قدموں سے چل کر اس کے پاس پہنچو گے۔

* بندہ اپنے نفس سے جتنا واقف ہوتا ہے خدا اس سے اتنا ہی قریب ہو جاتا ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔