Topics
سوال
: کیا یہ صحیح ہے کہ ما ورائی علوم سیکھنے والے افراد میں ایسے لوگوں کی تعداد
زیادہ ہے جن کی عمر کم ہے یا وہ نوجوان عورتیں ہیں جن کا شعور ابھی بچپن کے دور سے
با ہر نہیں آیا ۔ اس کے بر عکس عمر رسیدہ لوگ اور وہ حضرات جو دانشور کہلا تے ہیں
یا فلسفہ اور منطق کے جنگل میں سر گرداں رہتے ہیں اور وہ حضرات جن کی طبیعت میں خشکی ، یبوست
اور انتہا پسندی ہے ماورائی علوم حاصل نہیں کر سکتے ؟
جواب
: اللہ تعالیٰ کی صنا عی میں دماغ ایسی زرخیز زمین ہے جس میں قسم قسم کے درخت اگتے
ہیں درخت چھو ٹا ہو یا بڑ ابہر حال درخت ہو تا ہے دماغ کی سر زمین پر جو درخت اگتے
ہیں انہیں مختلف علوم کا نام دیا جا تا ہے یہ علوم اتنے ہیں کہ کسی طر ح اس کا
شمار ممکن نہیں ۔ان علوم میں ما ورائی علوم کی اپنی ایک الگ حیثیت ہے ۔ما ورا ئی
علوم روحانیت کے نام سے موسوم کئے جا تے ہیں ۔
کسی
درخت کی ہری بھری شاخ کو مفید مطلب اغراض و مقاصد میں استعمال کیا جا تا ہے اس کے
بر عکس سوکھی شاخ سے (سوکھی شاخ سے مراد گھن کھا ئی ہو ئی لکڑی ہے )ہم کو ئی چیز
نہیں بنا سکتے انتہاء یہ ہے کہ وہ جلا نے کے کام بھی نہیں آتی ۔کم عمر بچے اور
نوجوان عورتیں ہر ی بھری شاخ کے مانند ہیں جبکہ عمر رسیدہ لوگ خشک لکڑی کی طر ح ہو
تے ہیں ۔ ماہرین نفسیات اور ماورائی علوم سیکھا نے والے اساتذہ اپنے مشاہدات و تجر
بات کی رو شنی میں اس کی بنیادی وجہ یہ قرار دیتے ہیں کہ روحانیت سیکھنے کے لئے
نرم طبیعت ، گداز دل اور آزاد ذہن ہو نا ضروری ہے جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے آدمی
اپنے مخصوص نظر یات کے خول میں بند ہو کر تنگ نظر اور تنگ دل ہو تا چلا جا
تا ہے ۔اور اپنے ان نظریات کو زندگی قرار دیتا ہے جبکہ رو حانیت اس بات سے واقف ہی
نہیں ہے اور یہ بات ہمارے سامنے کی ہے کہ کو ئی شاگر د استاد سے اس وقت تک اکتساب
فیض نہیں کر سکتا جب تک استاد کا کہنا اس کے لئے حرف آخر نہ ہو اس کی مثال ہم پچھلے
صفات میں دے چکے ہیں۔ ہم نے یہ عر ض کیا کہ ایک بچہ اگر الف کو حرف آخر سمجھ کر
الف نہ کہے تو وہ علوم سے محروم رہے جا ئے گا ۔
نوجوان
طلبہ اور معصوم اور پا کیزہ فطرت خواتین اس لئے جلد کا میاب ہو جا تی ہیں ان کے
ذہن میں چو ں چرا نہیں ہو تا اس کے بر عکس عمر رسیدہ اور پختہ کار لوگ کسی روحانی
استاد کی شاگر دگی اختیار کر نے کے با وجوداپنی پختہ طرز فکر اور مخصوص نظریات کی
روشنی میں استاد کی دی ہو ئی ہدایت کا تجز یہ کر تے ہیں اور ان علوم کو جن کو
سیکھنے کے لئے ان کی حیثیت بالکل ایسے بچے کی سی ہے جو الف ب ت نہیں جا نتے استاد
کی ہدا یت کو منطق اور فلسفہ کی کسوٹی پر پر کھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہی
وہ نا قص طر ز عمل ہے جس کی وجہ سے راستہ کھو ٹا ہو جا تا ہے ۔یہ لوگ اس حقیقت سے
نا آشنا ہوتے ہیں۔
‘’جہاں
علم فلسفہ اور منطق کی حدود ختم ہو جا تی ہیں اس سے
آگے رو حانیت اور ماورائی علوم کی حدیں شروع ہو تی ہیں ۔ “
ماو
را ئی علوم سیکھنے والے ہر طالب علم کو یہ بات پو ری طر ح ذہن نشین کر لینی چا ہئے
کہ مخصوص نظر یات کی حد بند یاں کٹ حجتی انتہا ئی پسندی اور خود کو کسی ایک دو یا
زیادہ علوم میں یکتا سمجھنا نا قص طر فکر ہے اور نا قص طر ز فکر انسان کو یکسو ئی
اور آزاد ذہن ہو نے سے محروم کر دیتی ہے اور جب کو ئی بندہ اس سے محروم ہو جا تا
ہے تو اس کے دل و دماغ پر شک اور وسوسے سے آکاش بیل بن کر پھیل جا تے ہیں اور ان
کے اندر فطری صلا حیتوں کے بہتے ہو ئے دریا کو چوس کر خشک کردیتے ہیں یہی وہ
المناک صورت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر ما یا ہے :
خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ وَعَلٰی
اَبْصَارِھِمْ غِشَاَوَۃُ وَّلَھُمْ عَذَابُ عَظِیْمُ (سورہ بقرہ آیت ۷)
‘’مہر
کی اللہ نے ان کے دلوں کے اوپر اور ان کے کانوں کے اوپر اور ان کی آنکھوں کے اوپر
پر دہ ہے اور ان کے واسطے بڑا عذاب ہے “۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔