Topics
محمد
صفدرتا بانی ، شیخوپورہ لکھتے ہیں :۔
۲۹۔
اکتوبر : صبح فجر کی نما زکے بعد ٹیلی پیتھی کی پہلی مشق کا آغاز کیا مختلف
خیالات دل میں آتے رہے پھردیکھا کہ ایک
دریا ہےمیں جس کا پا نی ٹھاٹھیں ما ررہا ہے ۔پھر ایک سمندر نظر آیا جس کی لہریں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہو ئی کنارے کی جا نب
بڑھ رہی تھیں ۔مجھے خیال آیا یہ تو پا نی کا دریا ہے لیکن مجھے تو نور کے دریا کی
تلاش ہے یہ خیال آتے ہی ایک با غ سامنے آگیا ۔ اس میں ایک نہر جا ری تھی جس کا
پا نی شیشے کی مانند چمک رہا تھا میں نے اس میں ہا تھ ڈالا تویہ معلوم ہو ا
کہ یہ پا نی نہیں ریت اور پا ؤ ڈر کی طر ح چمک دار چیز ہے ۔ پھر کئی خوبصور
ت منا ظر فلم کی طرح نگا ہوں کے سامنے آتے رہے ۔
۳۰۔اکتوبر : نماز فجر کے بعد مراقبہ شروع کیا کل کی طرح ندیاں اور
دریا سامنے آگئے ان پر دھند سی چھا ئی ہو ئی تھی ۔ سمندر کا پا نی بھی دھند کی طر
ح سفیداوربا دلوں کی طرح ادھر اُدھر اڑرہا تھا ۔ سماں بہت سہا نہ تھا میں نے اس
سمندر میں غو طہ لگا نے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکا پھر میرے ذہن میں یہ
خیال آیا مجھے تو یہ تصور قائم کر نا ہے کہ ساری دنیا اور میں نور میں ڈوبا ہوا
ہوں ۔اور پھر میں نور کی تلاش میں نکل پڑا ۔دریا اور سمندر دھند کی شکل میں سامنے
آتے رہے ۔ رات کے مراقبہ میں دیکھا کہ ایک پہاڑ ہے جس پر میں کھڑا ہوا ہوں نیچے
جھا نکا تو کہیں سے سفید رنگ کی رو شنی آتی ہو ئی دکھا ئی دی ۔ ذرا اور آگے بڑ ھ
کر دیکھا تو سفید اور نیلے رنگ کی تو رو شنی چا روںطرف پھیلی ہو ئی
تھی ۔ میں نے چاہا کہ اس میں غوطہ لگا ؤں ۔ قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہو ا یہ تو
ابلتے ہو ئے پا نی کا چشمہ ہے وہاں میں ایک ایسی وادی میں پہنچ گیا جس کے مکا نات
سیاہ اور سنہرے پتھروں سے بنے ہو ئے تھے ۔یہ مکانات بہت اونچے تھے اور چاند
کی رو شنی ایسا سماں پیدا کر رہی تھی کہ مجھے پر ستاں کا گمان ہو نے لگا ۔پھر میں
نے ایک دروازہ کھو لا تو دیکھا کہ ایک نہر ہے جس میں پانی کے بجا ئے نور ہی نور ہے
۔اس طر ح میں نے تین چار دوازے کھولے اور دروازے کے اندر ایک نہر دیکھی جس کا پا
نی سفید اور نیلا تھا رنگ بڑا چمکدار تھا ۔تب میں نے اپنے ذہن میں یہ تصور قائم
کیا کہ میں خود اور ساری دنیا نور میں ڈوبے ہو ئے ہیں ساری دنیااور خود کو بھی چا
ند کی چا ندنی میں ڈوبا دیکھا ۔پھر میں نے بلب کی روشنی کی طرح لہریں دیکھیں ۔ یہ
لہریں شمال سے جنوب کی طر ف جا رہی تھیں ۔
۳۱۔
اکتوبر : مرا قبہ میں دیکھا کہ نور کا رنگ اس طر ح تھا جیسے چا ندنی میں تھوڑی سی
نیلا ہٹ ملی ہو ئی ہو ۔ یکایک میں اڑا اور
ایک پہاڑی پرجا پہنچا ۔ اور ایک غار میں کھڑے ہو کر اللہ کے گھر کی طر ف دیکھا
۔وہاں نور ہی نور برس رہا تھا ، میں اس غار سے نکل کر ایک پتھر پر جا بیٹھا۔وہ
پتھرمجھے لیکر اوپر اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمانوں سے اندر ہو تا ہوا کسی
ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں سفید دیواروں پر سیاہ رنگ کے حاشیے بنے ہو ئے تھے ان
سیاہ حاشیوں میں NEON SIGN کی طرغ کو ئی عبا رت
لکھی ہو ئی تھی ۔ابھی میں یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے تا یا جان
نے مجھے آواز دی اور میں نے مراقبہ ختم کر دیا گھڑی دیکھی تو آدھا گھنٹہ گزر
چکاتھا ۔
رات
کو مراقبہ میں ٹیلی ویژن کی طرح ایک اسکرین نظر آئی اور مختلف خیالات ذہن میں
آتے رہے ۔پھر پہاڑیوں اور وادیو ں کی سیر کر تا ہو ا ایک دروازے کے سامنے جا
پہنچا ۔ دورازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو خود کو ایک جنت نما با غ میں پا یا ۔وہاں
چا روں طر ف مر کر ی لائٹ پھیلی ہو ئی تھی ۔ کچھ دیر وہاں ٹھہر کر میں دروازے سے
با ہر آگیا اور دروازہ بند کر دیا۔
۵۔
نومبر : مرا قبہ شروع کیا اور میں نے دیکھا کہ فضا میں اڑ رہا
ہوں ۔ اڑتے اڑتے ایک پہاڑی پر قیام کیا ۔ وہاں سے اڑا تو خلا میں جا پہنچا ۔خلا
میں سے زمین اور چا ند کا مشاہدہ کیا ۔ معلوم ہوا کہ زمین گول ہے اور چا ند کی سطح
پر غار اور ٹیلے ہیں پھر میں ایک سیارے پر اتر گیا ۔پتا چلا کہ یہ مر یخ ہے ۔وہاں
سے ایک کرسی پر بیٹھ کر اوپر اٹھنے لگا اور سورج کے بہت قریب جا پہنچا سورج میرے
سرپر تھااور کہکشانی نظام میرے سامنے اچانک میرے ذہن میں سوال ابھر ا کہ سورج کے
نزدیک ہو تے ہو ئے سورج کی تپش مجھے کیوں محسوس نہیں ہو رہی ؟ جواب ملا کہ تم نور
کے ایسے حلقے میں ہو جہاں سورج کی تپش اثر انداز نہیں ہو تی ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔