Topics

بی بی غریب نوازؒ (مائی لاڈو)

آپؒ کا نام لاڈو تھا۔ عوام انہیں بی بی غریب نوازؒ کہتے تھے۔ مولانا سعید الدین رضوی کی صاحبزادی تھیں جن کا شجرہ نسب حضرت امام موسیٰ رضا تک پہنچتا ہے۔

رہائش دہلی میں تھی بعد میں برولی تشریف لے گئیں۔ بی بی غریب نوازؒ سلسلہ قادریہ میں شیخ محی الدین ریاسنائیؒ سے بیعت تھیں۔ آپؒ کی رسائی حضرت فاطمہؓ کے دربار میں تھی۔ اسی نسبت سے آپؒ نے بحالت مراقبہ اپنے بیٹے شاہ نیاز بے نیاز کو چار ماہ کی عمر میں جناب سیدہؓ کے قدموں میں ڈال دیا۔ حضرت فاطمہ زہرہؓ نے حضرت نیاز بے نیازؒ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا:

’’یہ ہمارا بچہ ہے۔‘‘

حضرت نیاز بے نیازؒ فرماتے ہیں:

’’ایک روز بی بی غریب نوازؒ نے مجھے طلب فرمایا۔ جب میں حاضر ہوا تو اپنا ہاتھ میرے سامنے کرتے ہوئے فرمایا۔
’’دیکھ یہ کیا ہے؟‘‘

میں نے عرض کیا:

’’آپ کا ہاتھ ہے۔‘‘

آپؒ نے پھر کہا:

’’دیکھ یہ کیا ہے؟‘‘

میں نے وہی جواب دہرایا۔ تیسری مرتبہ نہایت تیز لہجے میں فرمایا:

’’غور سے دیکھ یہ کیا ہے؟‘‘

میں نے دیکھا کہ بی بی غریب نوازؒ کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں مشعل کی طرح روشن ہیں۔

ایک روز بی بی غریب نوازؒ مراقبہ میں تھیں کہ ایک کالا سانپ نکل آیا۔ شور ہونے پر بی بی صاحبہؒ نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سانپ رک گیا۔ آپؒ نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’لا الہ الا اللہ‘‘ سانپ نے سر اٹھایا اور پھر زمین پر رکھ دیا۔ بی بی صاحبہؒ نے انگلی کی جنبش سے اتنی ضربیں لگائیں کہ سانپ میں ہلنے کی طاقت نہیں رہی۔ ایک خادمہ نے سانپ کواٹھا کر دروازے کے باہر رکھ دیا اور کہا کہ خبردار آئندہ گھر میں نہ آنا۔
عرصہ تک بارش نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ لوگوں نے یہ بتائی کہ دریا کے کنارے ایک مجذوب شکستہ جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ جب آسمان پر ابر اٹھتا ہے تو وہ ڈنڈا لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بادشاہ وقت نے کئی بزرگوں سے رجوع کیا۔ انہوں نے باری باری مجذوب کو سمجھایا لیکن وہ ہر دفعہ یہی کہتے تھے کہ ہم نہیں برسنے دینگے، ہماری جھونپڑی بہہ جائے گی۔

لوگوں نے بی بی سے درخواست کی کہ وہ مجذوب کو سمجھائیں، بی بی نے کہا کہ جب اس نے مردوں کا کہنا نہیں مانا تو مجھ عورت کے کہنے کا اس پر کیا اثر ہو گا؟ بالآخر انہوں نے اپنی دوست بی بی نورن کو بلایا اور کہا کہ تم مجذوب کے پاس جا کر عاجزی سے کہو کہ مخلوق خدا پریشان ہو رہی ہے۔ آپ ایسا نہ کریں۔ بی بی نورین نے کہا۔ اگر انہوں نے میری بات نہ مانی تو پھرَ بی بی غریب نوازؒ نے کہا کہ تم ان کے قدموں میں سر رکھ کر التجا کرنا۔ بی بی نورن چند قدم چلیں اور واپس آ کر کہا کہ اگر اس پر بھی وہ نہ مانے تو کیا کروں؟ بی بی غریب نوازؒ نے کہا کہ ان سے کہنا کہ اگر کسی دوسرے نے برسا دیا تو ان کی بات کچی ہو جائے گی۔ اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو بارش برسا دینا میری دعائیں تیرے ساتھ ہیں۔

بی بی نورن مجذوب کی خدمت میں پہنچیں اور جس طرح بی بی غریب نوازؒ نے حکم دیا تھا اس کے مطابق درخواست کی لیکن مجذوب نہ مانے۔ انہوں نے مجذوب کے قدموں میں سر رکھ دیا لیکن مجذوب پھر بھی نہ مانے آخر میں بی بی نورن نے کہا کہ اگر کسی اور نے برسا دیا تو آپ کی کیا بات رہے گی؟

مجذوب نے غصے میں کہا کہ تو پھر تو برسا دے۔ یہ سن کر بی بی نورن ڈولی میں سوار ہو کر جمنا کے کنارے پہنچیں اور لوگوں سے کہا:
’’میری چادر شامیانے کی طرح تانو۔‘‘

جب چادر شامیانہ بن گیا تو وہ ڈولی سے اتر کر نیچے مراقبہ میں بیٹھ گئیں۔ آدھے گھنٹے کے بعد آسمان پر بادل چھانے شروع ہو گئے۔ مجذوب نے ڈنڈا اٹھا کر گھمایا، لیکن ڈنڈا گھمانے کے باوجود بادل قائم رہے۔ یہاں تک کہ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا اور پانی برسنے لگا۔ اتنی بارش ہوئی کہ دریائے جمنا میں طغیانی آ گئی۔ بی بی نورن ڈولی میں سوار ہو کر مجذوب صاحب کے پاس گئیں جب ڈولی مجذوب کی جھونپڑی کے پاس پہنچیں تو لوگوں نے دیکھا کہ بارش کا کوئی قطرہ مجذوب کی جھونپڑی پر نہیں گرا تھا۔ آس پاس کی زمین خشک تھی۔ بی بی نورن نے مجذوب صاحب سے معذرت کی اور گھر چلی گئیں۔

حکمت و دانائی

* اللہ کے کام نرالے ہیں جس سے جو چاہے کام لے لیتے ہیں۔

* غیر معمولی طاقت اس کو ملتی ہے جو اس کا موزوں استعمال جانتا ہے۔

* اللہ کے دوست ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو خوش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔

* حقیقت ایک ہوتی ہے ہزاروں لاکھوں نہیں۔

* حقیقت میں تغیر نہیں ہوتا۔

* اللہ کے علاوہ ہر چیز فانی ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔