Topics
قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری
پوری کوشش کرتی تھیں۔ اتنی پاکیزہ اور منور تھیں کہ جب بھی آپ کو خاندان والوں کی
طرف سے تکلیف پہنچی آپ نے انہیں اللہ کے لئے معاف کر دیا۔
چودہ سال کی عمر میں سورہ رحمٰن کی تلاوت
کے دوران روشن اور چمکتا ہوا ستارہ نظر آیا، ان کی نظر ستارے پر گئی تو ستارہ اپنی
جگہ سے ہٹتے ہٹتے بادل کے ایک ٹکڑے کے پاس چلا گیا، پھر یہ ستارہ ان کی پیشانی پر
چمکنے لگا اور بی بی سائرہؒ حضورﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئیں۔ رسولﷺ نے فرمایا:
’’تم نے دنیا میں آ کر اپنا وعدہ پورا
کیا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ روز محشر تمہاری شفاعت کرونگا۔‘‘
بی بی سائرہؒ کو حضورﷺ سے والہانہ محبت
اور عقیدت تھی، کثرت سے درود شریف پڑھتی تھیں۔ حج کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے
گئیں اور روضۂ اطہر پر حاضری دی تو دیکھا کہ حضورﷺ باہر تشریف لائے اور ایک ہاتھ
میں تھالی ہے جس میں سفید گلاب کے پھول ہیں اور بڑی بڑی کھجوریں ہیں۔ آپﷺ نے ان کے
سرپر ہاتھ پھیرا اور فرمایا
’’خدا دین و دنیا میں تیرا بھلا کرے۔‘‘
آپ نہایت کم گو تھیں اور زیادہ تر مراقبے
میں مشغول رہتیں تھیں۔
بی بی سائرہؒ نے اپنا ایک مراقبہ لکھا ہے۔
’’میں نے مراقبہ میں دیکھا کہ کوئی مجھے
آسمان کی طرف لے جا رہا ہے اور میں ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہوں وہاں میں نے ایک
سریلی آواز سنی ’’آسمان پر رہنے والے تم سے خوش ہیں اور میں بھی تم سے خوش ہوں۔‘‘
ساتھ ہی سفید رنگ کی روشنی سے فضا معمور ہو گئی ۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ آواز
اللہ کی آواز ہے۔‘‘
* بندے کے اوپر یہ فرض ہے کہ وہ اللہ
تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کر لے۔
* یقین تلاش میں سرگرداں رہتا ہے تو حقیقت
عیاں ہو جاتی ہے۔
* متقی سے مراد وہ انسان ہے جو سمجھنے میں
بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے۔ ساتھ ہی دل میں بدگمانی کو راہ نہیں دیتا۔
* قرآن آئینہ کی طرح ہے جو آپ کے اندر ہر
ہر داغ اور دھبے کو نمایاں کر کے پیش کرتا ہے۔
* حضرت سائرہؒ کو یہ فضیلت عطا ہوئی کہ
انہوں نے اللہ کی آواز سنی۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
مسلمانوں کے عیبوں کے پیچھے نہ پڑو جو شخص
اپنے مسلمان بھائیوں کے پوشیدہ عیبوں کے درپے ہوتا ہے۔ اللہ اس کے چھپے ہوئے عیبوں
کو طشت ازبام کر دیتا ہے اور جس کے عیب افشاں کرنے پر اللہ متوجہ ہو جائے تو پھر
اس کو رسوا کر کے ہی چھوڑتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر گھس کر بیٹھ جائے۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔