Topics

بی بی راستیؒ

بی بی راستیؒ فرغانہ کی شہزادی تھیں۔ حسن و جمال میں یکتا تھیں۔ حسن کا شہرہ سن کر آس پاس کی ریاستوں کے شہزادے، امراء شہزادی سے شادی کے خواہشمند تھے لیکن شہزادی کو کسی سے دلچسپی نہیں تھی۔ بی بی راستیؒ عام شہزادیوں سے بہت مختلف تھیں۔

انتہائی پرہیز گار اور عبادت گزار تھیں، اپنی عبادت و ریاضت کے باعث وہ عالم ناسوت سے عالم ملکوت میں داخل ہو چکی تھیں۔

شہزادی کے والد سلطان جمال الدینؒ بھی ایک درویش صفت بزرگ تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ جلد از جلد بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔

ایک دن سلطان نے بیٹی سے شادی کے لئے بات کی تو شہزادی نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا:

’’بابا حضور! جب اللہ کی مرضی ہو گی یہ کام بھی ہو جائے گا۔ آپ کیوں فکر مند ہوتے ہیں؟ ہمیں خدا کے حکم کا انتظار کرنا چاہئے۔‘‘
بی بی راستیؒ اکثر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جاتی رہتی تھیں۔ قیام کے دوران خانہ کعبہ میں روزانہ عبادت کرتی تھیں۔ حسب معمول

یک دفعہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں کہ ایک خوبصورت شخص کو دیکھا۔

نوجوان شخص کی پشت سے شعاعیں منعکس ہو رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ نور کا سیلاب ہو۔ شہزادی اس شخص کو غور سے دیکھتی رہیں۔ طواف ختم ہونے کے بعد نوجوان سے مخاطب ہوئیں:

’’کیا میں پوچھ سکتی ہوں آپ کا نام کیا ہے؟ اور آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

نوجوان نے کہا:

’’میرا نام صدر الدین ہے اور میں ملتان شہر کا رہنے والا ہوں۔‘‘

شہزادی نے پوچھا:

’’آپ بہاؤالدین ذکریاؒ کے شہر سے تشریف لائے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔ میں ان کا بیٹا ہوں۔‘‘

’’کیا آپ شادی شدہ ہیں؟‘‘

نوجوان نے کہا۔ ’’نہیں۔‘‘

شہزادی نے کسی قدر جھجکتے ہوئے کہا:

’’اگر آپ شادی کے خواہشمند ہوں تو میں ایک ایسے رشتے تک آپ کی رہنمائی کر سکتی ہوں جو آپ کے لئے مناسب رہے گا۔‘‘
صدرالدین نے کہا:

’’جہاں تک شادی کا تعلق ہے میرے والدصاحب ہی فیصلہ کرینگے۔

شہزادی نے فوراً فرغانہ کا سفر شروع کر دیا اور فرغانہ پہنچ کر اپنے والد کو پورا واقعہ سنایا۔ والد سن کر خوش ہوئے کہ شہزادی کو کوئی تو پسند آیا۔ چنانچہ انہوں نے فوراً ملتان کے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ ملتان پہنچنے پر حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ نے شاہی مہمانوں کا شاندار استقبال کیا۔ دوسرے دن دوران ملاقات سلطان جمال الدین نے حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ سے دلی خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی مخدوم صاحبزادے سے کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت بہاؤالدین نے فرمایا:

’’میرے بیٹے آپ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ آپ جسے چاہیں اپنی فرزندگی میں لے لیں۔‘‘

سلطان جمال الدین نے سلطان صدر الدین کی طرف دیکھا اور بہاؤالدین ذکریاؒ سے کہا:

’’حضور میں صدر الدین کے لئے اتنی مسافت طے کر کے ملتان آیا ہوں۔‘‘

حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ نے اس رشتے کو قبول کر لیا اور اس طرح دونوں کی شادی ہو گئی۔

ہر مہینے کی چاند کی پہلی تاریخ کو حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ اپنی بہو بیٹیوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حسب معمول حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ کے تمام بہوئیں اور بیٹے حجرے میں داخل ہوئے اور سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گئے۔ جب شہزادی راستیؒ کی باری آئی تو حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ ایک دم کھڑے ہو گئے اور تعظیماً تھوڑا سا جھک گئے۔ یہ دیکھ کر شہزادی راستیؒ نہایت شرمندہ ہوئیں اور نہایت عاجزی سے عرض کیا:

’’بابا! میں شرمند ہ ہوں میں اس تعظیم کے قابل نہیں ہوں، میں تو آپ کی خادمہ ہوں۔‘‘

حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ نے فرمایا:

’’بیٹی یہ تعظیم ہم نے اس وجود کو دی ہے جو تمہارے بطن میں پروان چڑھ رہا ہے۔ ہم اپنے دور کے قطب الاقطاب کی تعظیم میں کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘

یہ سن کر راستی بی بیؒ نے خوشی سے اپنا سارا اثاثہ حاجت مندوں میں خیرات کر دیا۔

آخر ۹ رمضان ۶۴۹ ؁ بروز جمعہ حضرت رکن الدین عالمؒ پیدا ہوئے جن کے لئے بی بی راستیؒ نے برسوں سے امید لگا رکھی تھی اور جس کے لئے انہوں نے تخت و تاج چھوڑ دیا تھا۔

بی بی راستیؒ حضرت شاہ رکن الدین عالمؒ کو دودھ پلانے سے بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم ضرور پڑھتی تھیں چونکہ خود حافظ قرآن تھیں اس لئے لوری کے بجائے قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ رکن الدین عالمؒ نے پہلا لفظ ’’اللہ‘‘ بولا تھا۔

حکمت و دانائی

* صادق وہی ہے جس کا صدق اقوال و احوال میں قائم رہے۔

* پھول بن جاؤ جسے مسل بھی دیں تب بھی اپنا رنگ اور خوشبو چھوڑ جاتا ہے۔

* دھول نہ بنو خود بھی آنکھیں ملو گے اور دوسرے بھی پریشان ہوں گے۔

* علم سیکھو جہاں سے بھی علم حاصل ہو۔

* مرشد سے غیر معمولی عقیدت مرید کو مرشد کا عکس بنا دیتی ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔