Topics
غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی
پھوپھی بی بی خدیجہؒ کو بارگاہِ الٰہی میں مقبولیت کا درجہ حاصل تھا۔ مستجاب
الدعوات ولیہ تھیں۔ ان کی دعاؤں سے لوگوں کی مشکلات دور ہو جاتی تھیں۔
بہت عرصہ تک بارش نہیں ہوئی اور قحط سالی
نے لوگوں کو تباہ حال کر دیا۔ بارش کے لئے بار بار دعائیں مانگی گئیں لیکن موسم
میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آخر کار ایک دن لوگ کثیر تعداد میں بی بی خدیجہؒ کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی اس وقت بی بی خدیجہؒ صحن میں جھاڑو دے
رہی تھیں۔ لوگوں کی پریشانی اور عاجزی سے پریشان ہو کر اللہ کے حضور عرض کیا:
’’یا اللہ! میں نے جھاڑو دے دی ہے، چھڑکاؤ
آپ کروا دیں۔‘‘
کچھ دیر بعد آسمان پر بادل آ گئے، گھٹا
چھا گئی، بجلی کڑکی اور موسلا دھار بارش ہونے لگی۔
بی بی خدیجہؒ نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ
تقریر کرتی تھیں، علم عرفان سے متعلق رموز کو اس طرح بیان کرتی تھیں کہ سامعین
مسحور ہو جاتے تھے۔ ایک بار تقریر کر رہی تھیں کہ نشے میں مدہوش ایک شخص آیا اور
اس نے واہی تباہی بکنا شروع کر دیا، کہنے لگا۔ اللہ کہا ہے؟ اگر ہے تو نظر کیوں
نہیں آتا؟ لوگوں نے اس شخص کو زد و کوب کرنا چاہا لیکن بی بی خدیجہؒ نے منع فرما
دیا۔
بی بی جیلانیؒ نے اس سے پوچھا:
’’تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کیوں
کر رہا ہے؟‘‘
اس شخص نے کہا:
’’میرا باپ ایک نیک دل انسان تھا وہ شدید
بیمار ہو گیا اور بیماری نے اسے جکڑ لیا، میں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! تو
میرے باپ کو اچھا کر دے لیکن میری دن رات کی دعائیں رائیگاں گئیں اور میرا باپ مر
گیا۔‘‘
سیدہ خدیجہؒ نے فرمایا:
’’اے شخص! تیری دعا کی بنیاد غلط ہے اور
اس پر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اگر لوگ کہیں کہ تاریکی اس بات
کی دلیل ہے کہ سورج روشن نہیں ہے تو کیا تو کہے گا کہ سورج تاریک ہے؟ جو آدمی پیدا
ہوا وہ ضرور مرے گا، پیدائش اور موت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔‘‘
بی بی صاحبہؒ کی بات سن کر اس شخص کی
آنکھوں پر سے پردہ ہٹ گیا اور اس نے معافی مانگی۔
* اللہ کو پہچاننے کے لئے اللہ کی سوچ کا
حامل ہونا ضروری ہے۔
* ’’ولی‘‘ اللہ کے دوست کو کہتے ہیں اور
دوست سے قربت صرف الفت و محبت سے ہوتی ہے۔
* ہر عورت کو اللہ نے ذیلی تخلیق کے لئے
بنایا ہے اور عورت اپنی اس ڈیوٹی کو بھرپور طریقہ پر انجام دے رہی ہے، اللہ ماں کی
محبت کو اپنی محبت قرار دیتا ہے۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔