Topics

بی بی جوہربراثیہؒ


بی بی جوہربراثیہؒ جوانی میں عباسی خلیفہ کی کنیز تھیں۔ ایک بار کسی درسگاہ کے سامنے سے گزریں تو دیکھا کہ ایک بزرگ بڑے وقار سے طلبہ کو درس دے رہے ہیں۔ آپ رک کر ان کا بیان سننے لگیں۔ بزرگ کی باتوں کا آپ کے اوپر اثر ہوا۔ محل میں واپس آ کر گوشہ نشین ہو گئیں اور خاموش رہنے لگیں۔ جب سکون نہ ملا تو محل چھوڑ کر جنگل میں چلی گئیں۔ ساتھی کنیزوں نے پوچھا کہ ’’امیر‘‘ آپ کے بارے میں پوچھیں تو کیا جواب دیں۔ بی بی جوہرؒ نے فرمایا:’’اب میں اللہ کے علاوہ کسی کی کنیز نہیں۔ یہی بات امیر سے کہہ دینا۔‘‘

ایک بار خلیفہ نے انہیں دس ہزار دینار بھیجے۔ انہوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ دنیا کا مال طبیعت میں تکبر اور رعونت پیدا کرتا ہے۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ خلیفہ نے دوبارہ بیس ہزار دینار بھیجے اور کہا کہ اسے قبول کر لیں اور غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیں۔ پھر بھی جوہر براثیہؓ نے یہ دینار قبول کرنے سے انکار کر دیا اور قاصد سے کہا! امیر سے کہنا کہ میں ایک گوشہ نشین عورت ہوں اور نہیں جانتی کہ ان دیناروں کا مستحق کون ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ امیر المومنین جہاں بہتر سمجھیں یہ دینار تقسیم کر دیں۔

ایک بار حاکم وقت نے بی بی جوہر براثیہؓ سے درخواست کی کہ آپ ہمیں خدمت کا موقع دیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ شاہی محلات اور فقیر کی کٹیا میں بڑا فرق ہے۔ میں ایک سیدھی سادی عورت ہوں اور کٹیا میں اپنے جیسے لوگوں کے درمیان رہنا مجھے پسند ہے۔

بی بی جوہرؒ درختوں، حیوانوں اور پرندوں سے باتیں کرتی تھیں۔ اکثر زخمی پرندے اور جانور آ کر آپ کے قریب بیٹھ جاتے تھے۔ آپ ان کا علاج کرتی تھیں۔ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتی تھیں۔ ان میں درندے بھی شامل تھے۔

حکمت و دانائی

* جس طرح رئیس کو محل میں آرام ملتا ہے اور کٹیا میں بے سکون رہتا ہے اسی طرح فقیر کو کٹیا میں سکون ملتا ہے اور محل میں ویرانی محسوس ہوتی ہے۔

* اللہ کی دوست کو جاہ و جلال اور مال و دولت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

* جب کوئی اللہ کا بن جاتا ہے تو دنیا اس کی محکوم بن جاتی ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔