Topics
آپ کا تعلق بغداد سے تھا۔ محدثہ، عالمہ،
فقیہہ، زاہدہ اور واعظہ تھیں۔ رسول اللہﷺ کے علوم کی امین تھیں۔ قناعت پسند تھیں۔
مخلوق کی خدمت سے خوش ہوتی تھیں۔ اخلاص و امر بالمعروف کے اوصاف کی حامل تھیں۔ بہت
بڑی تعداد میں خواتین نے ان سے علم حاصل کیا۔ مسائل کے حل کے لئے خواتین دور دراز
سے ان کے پاس آتی تھیں۔ حضرت ام زینب فاطمہؒ خواتین کو وظیفے تلقین کرتی تھیں۔
خواتین ان سے اس قدر بے تکلف تھیں کہ وہ گھریلو مسائل کے ساتھ ساتھ ’’پردے کے
مسائل‘‘ بھی پوچھ لیتی تھیں۔ کسی خاتون نے ’’پاکی‘‘ کے بارے میں استفسار کیا تو آپ
نے فرمایا۔
مخصوص ایام میں خواتین کو مسجد میں نہیں
جانا چاہئے۔ کعبہ شریف کا طواف کرنا۔ کلام مجید کو چھونا درست نہیں ہے۔ کپڑے میں
لپیٹ کر چھونا اور اٹھانا صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز روزے سے آزاد کر دیا ہے
لیکن روزہ کی قضا واجب ہے۔
نفلی یا فرضی روزے کے دوران ’’ایام‘‘ شروع
ہو جائیں تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
دوران ایام شوہرسے’’ انتہائی قربت‘‘ صحیح
عمل نہیں ہے۔ اگر عورت سحری کے انتہائی وقت میں بھی پاک ہو گئی تب بھی روزہ رکھنا
واجب ہے۔ البتہ غسل روزہ رکھنے کے بعد صبح کے وقت کیا جاتا ہے۔
بچہ کی پیدائش کے بعد جو رطوبت خارج ہوتی
ہے اسے ’’نفاس‘‘ کہتے ہیں۔ جس کی مدت زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہے۔ کم سے کم کوئی
حد نہیں۔ اگر کسی کو ایک آدھ دن نفاس آیا یا بالکل بھی نہیں آیا تو نہانا واجب ہے۔
اگر نفاس کے چالیس دن پورے ہو گئے اور خون آنا بند نہیں ہوا تو وہ استحاضہ ہے۔ پس
چالیس دن کے بعد نہا کر نماز پڑھنا شروع کردے۔ نفاس بند ہونے کا انتظار نہ کرے۔
اگر چالیس دن سے پہلے طبیعت صحیح ہو گئی تو نہا کر پاک ہو جائے۔ اگر غسل کرنے سے
نقصان کا اندیشہ ہو تو تیمم کرکے نماز شروع کر دے۔ حالت نفاس میں نماز معاف ہے
البتہ روزہ معاف نہیں ہے۔
حضرت ام زینب تہجد گزار خاتون تھیں۔ نماز
میں حضور قلب ہو جاتا تھا۔ اور انہیں مرتبہ احسان حاصل تھا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد
گرامی ہے کہ مومن کو مرتبہ احسان حاصل ہوتا ہے۔ مرتبہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی
عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ محسوس کرو
کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
* دنیا میں دولت سے زیادہ بے وفا کوئی چیز
نہیں۔
* ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا مومن
کا شعار ہے۔
* یہ دنیا معنی اور مفہوم کی دنیا ہے۔ جو
جیسے معنی پہنا دیتا ہے اس کے اوپر ویسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔