Topics

بیر بہوٹی

          ( اللہ آسمان سے بارش برسا کر مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے ۔ بارش سے زمین پر قسم قسم کے رنگ اور ثمرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ بارش کے قطرے سڑک پر گرتے ہیں تو ان کے ساتھ چنے کے دانے کے برابر یا معمولی بڑے مینڈک اچھلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ صرف مینڈک نہیں، ٹڈی دَل، مچھلیاں اور بیر بہوٹی کو بھی بارش کے قطروں کے ساتھ زمین پر گرتے دیکھا گیا ہے۔ کیا یہ بھی بارش کے ساتھ آسمان سے برستے ہیں؟ اسی طرح قطعہ زمین جس پر بارش نہیں ہوئی ، ہل چلایا گیا ہے اور نہ کاشت کی گئی ہے، وہاں بارش سے ہزاروں اقسام کے پھول بوٹے اگ آتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ زندگی جن مقداروں کی مرہونِ منت ہے ، قدرت نے وہ مقداریں بارش میں منتقل کر دی ہیں۔)

          محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،                                                       

          ” زمین پر بارش کے چھینٹے پڑنے سے زمین پر پھیلی ہوئی چکنی مٹی پھیل جاتی ہے اور زمین کی نظر نہ انے والی دراڑوں میں سے بیر بہوٹی× جنم لیتی ہے۔ جیسے بارش کی چھینٹیں زمین پر پڑنے سے ایک مخصوص گیس فضا میں اڑتی ہے۔ اس مخصوص گیس سے بارش کے قطرے ہم جان ہو تے ہیں تو فضا سے مینڈک کے چھوٹے چھوٹے بچے زمین پر برستے ہیں۔ جیسے پتّوں پر بارش برستی ہے تو پَتوں میں موجود رگیں ٹڈے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور ٹڈا اس پتّے کا ہم شکل ہو کر ہوا میں اڑتا ہے۔

          قانون یہ ہے کہ جب جان سے جان ملتی ہے تو تیسری جان خدو خال بن جاتی ہے۔“

          اس اقتباس میں بیر بہوٹی ، مینڈک اور ٹڈے کی بارش سے تخلیق کا طریقِ کار ہے۔ مشاہدہ یا تجربہ کر نا چاہیے تاکہ یقین حاصل ہو۔ آلودگی سے پاک پُر فضا اور فطری ماحول سے قریب علاقے میں اس منظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔

×بیر بہوٹی ( بھائی کی دلہن)

          دیہات میں دادا دادی اور نانا نانی پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو بتاتے ہیں کہ برسات میں مینڈک برستے ہیں۔ وہ ایسا اس لئے کہتے ہیں کہ انہیں بارہا مشاہدہ ہوا ہے۔ اگر چہ انہوں نے وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی۔

          مکالمہ : رابعہ کی عمر 40 سال ہے۔ وہ بیٹے زید کے ساتھ گھر کے برآمدے میں بیٹھی ہے۔ تیز بارش ہو رہی ہے۔ بیٹا تحقیقی و تلاش کا شوق رکھنے والا ذہین نوجوان ہے۔

          رابعہ پوچھتی ہے ، بیر بہوٹی دیکھی ہے؟

          زید کہتا ہے ، نہیں اماں ! یہ کیا شے ہے؟ پہلی مرتبہ نام سنا ہے۔

          ماں مسکرا کر کہتی ہے ، آج دیکھ لو گے۔

          بارش کے رکتے ہی ماں بیٹا گاؤں سے دور نہر کے قریب ہموار میدان کی طرف جاتے ہیں۔ رابعہ کی نظریں زمین پر کچھ تلاش کر رہی ہیں۔

          زید ہوچھتا ہے ، آپ کیا ڈھونڈ رہی ہیں؟

          وہ چلتے چلتے ایک جگہ رک جاتی ہے اور جھک کر انتہائی شوخ رنگ کے خوبصورت کیڑے ہتھیلی پر رکھ کر کہتی ہے، یہ دیکھو!

          زید دیکھتا ہے کہ شوخ سرخ کیڑے ہیں جن کو قدرت نے حسین مخملیں لباس عطا کیا ہے۔ زید ان کے مخملیں لباس سے متاثر ہوتا ہے۔

          ماں سے پو چھتا ہے کہ کیا یہ کیڑے بارش کے علاوہ بھی یہاں ہوتے ہیں؟

          وہ کہتی ہے کہ نہیں، بارش میں نکلتے ہیں۔

          وہ تجسس سے پوچھتا ہے کہ بارش میں ہی کیوں نکلتے ہیں؟ ان کا بارش سے کیا تعلق ہے؟

          ماں کو اس سوال کا جواب نہیں معلوم۔۔۔ وہ سوچ میں گم ہو جاتی ہے۔

          دیہاتوں میں بارش کے بعد بیر بہوٹی تلاش کرنے کا شوق دو تین دہائی قبل عام تھا ۔ بچے گھر سے برتن لے جاتے ، جہاں بیر بہوٹی کے بل اور کیڑے نظر آتے ،وہاں کی ریت سے برتن بھرتے اور چند کیڑے رکھ کر گھر لے آتے۔

 

          ابا نے علی سے کہا، موشیوں کے لیے دو دن کا چارہ لانا ہے ، علی ڈیرے پر گیا۔ چارہ لادنے کے لئے گدھے پر واھنا باندھنا ، درانتی سنبھالی اور کھیتؤں کی طرف چل پڑا۔ گدھے کی رسی ایک درخت سے باندھ کر چارہ ( جوار کی فصل) کاٹنے لگا۔ بادل برسے۔ علی جلدی جلدی چارہ گدھے پر لاد کر ڈیرے پر آیا اور محفوظ کر دیا۔

          صبح کے نو بج رہے تھے۔ بارش تین گھنٹے جاری رہی۔ کھیت پانی اور کیچڑ سے بھر گئے۔

          علی کے ابا ڈیرے پر آئے اور کہا کہ آج کے لیے اتنا کافی ہے ،کل کی غذا کل۔

          اگلے دن ظہر کے وقت باپ بیٹا کھیت میں گئے ۔ علی نے دیکھا کہ ہر طرف ٹڈوں کی بھر مار ہے۔۔۔ اتنے زیادہ ہیں کہ جوارکی فصل کاٹنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔

          علی حیران ہوا کیوں کہ وہ جوارکی فصل تقریباً ایک ہفتے سے ضرورت کے مطابق کاٹ رہا تھا۔ اکا دکا ٹڈے نظر آتے تھے لیکن بارش کے بعد تو ٹڈوں کی بارات آگئی تھی۔

          یہ مشاہدہ ہر کسان کا ہے اور اس شخص کا بھی جو تحقیق و تلاش سے وابستہ ہے۔ قرآن کریم کے مطابق ان کی کنہ سے وہی لوگ واقف ہیں کو جدو جہد (تفکر) کرتے ہیں۔

 

          قرآن کریم میں ہے کہ اللہ پانی سے لدے ہوئے بادلوں کو مردہ زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں مینہ برسا کر طرح طرح کے پھل نکالتا ہے۔ ان الفاظ میں ایک حکمت یہ ہے کہ زندگی جو لباس اختیار کرتی ہے، اس کی حیثیت مردے کی ہے۔ لباس میں جب تک حرکت ہے، اس کی حیثیت زندہ کی ہے ، حرکت منقطع ہوتے ہی لباس مردہ ہو جاتا ہے۔

          نیا لباس بھی پہننے سے قبل ساکت یا مردہ ہے۔ زیب تن ہونے کے بعد حرکت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور لوگ اسے مردہ سے زندہ سمجھتے ہیں۔

          زمین ماں ہے۔۔۔ اپنے اوپر ظاہر ہونے والی تمام مخلوقات کو لباس فراہم کرتی ہے ۔ نباتات ، حیوانات ، آدمی اور تمام نوعوں کا زمین پر مظاہرہ زمین سے حاصل کردہ لباس پہن کر ہوتا ہے۔ حتی کہ نوعوں کو افزائش ِ نسل کے لیے جس مائیکرو فلم (بیج) پر انحصار کرنا پڑتا ہے ، وہ بھی لباس یا خول میں بند ہے۔

          قرآن کریم کے مطابق اللہ نے زمین کے اندر ہر نوع کے لباس کا انتظام رکھا ہے۔ بارش کے میکانزم سے اس لباس میں زندگی منتقل ہوتی ہے اور مخلوق زمین پر ظاہر ہو جاتی ہے۔

                   ” اور زمین میں الگ الگ قطعے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں اور انگور کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ ایک تنے کے ہیں اور کچھ زیادہ تنے کے ہیں۔ سب کو ایک پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور ہم بعض کو بعض پر کھانے کے معیار کے اعتبار سے فضیلت دیتےہیں۔ بے شک ان آیات میں اولی الالباب کے لئے نشانیاں ہیں۔“ (الرعد : ۴)

 

          ہر مخلوق کے جسم کی ڈائی یا سانچہ زمین میں ہے۔ اللہ کا حکم ہوتا ہے تو کبوتر کی ڈائی کبوتر اور باز کی ڈائی سے باز برآمد ہوتا ہے۔

          خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں،

                   ” تخلیق کا راز یہ ہے کہ مٹی کے اندر خالق کائنات کا امر متحرک ہے جو مٹی کو مختلف سانچوں میں ڈھال کر مختلف شکلوں میں ظاہر کر رہا ہے کنکر ، پتھر ، پودے ، مختلف قسم کے جانور اورانسان دراصل مختلف سانچے ہیں۔“

          کائنات میں جتنی اشیا ہیں ، سب کا جسم ڈائیوں میں تیار ہو رہا ہے۔ آدمی شو پیس یا بچوں کے کھلونے بناتا ہے تو قدرتی نظام سے انسپائر ہو کر ڈائی سے مدد لیتا ہے۔ چڑیا کی ڈائی میں پلاسٹک یا پلاسٹر آف پیرس ڈال کر چڑیا بنائی جاتی ہے اور کبوتر کی ڈائی میں پلاسٹک ڈالنے سے کبوتر بنایا جاتا ہے، اسی طرح قدرت کی بنائی ہوئی ڈائیوں میں مسالہ ایک خاص طریقِ کار سے منتقل ہوتا ہے اور نئی نئی صورتیں وجود میں آتی ہیں۔

          احسن الخالقین اللہ کا ارشاد ہے،

                   ”وہ اللہ ہے جو ماں کے رحموں میں تمہاری جیسی چاہتا ہے ، صورتیں بناتا ہے۔“ ( آلِ عمران :۶)

          ماں کسی نوع کی ہو ، اس کا رحم بچے کے لیے ڈائی ہے۔ زمین بھی ماں ہے جس میں بے شمار ڈائیاں ہیں اور اس کا مظاہرہ زمین پر قسم قسم کی مخلوقات کی شکل میں ہے۔

          ڈائی میں مسالا کیا ہے۔۔؟

          خالق ِ کائنات اللہ کا ارشاد ہے،

                   ” اور ہم نے ہر زندہ شے پانی سے پیدا کی۔“  (الانبیآء :۳۰)

          آیت میں اشارہ ہے کہ پانی وہ مسالا ہے جو ڈائیوں میں منتقل ہوتا ہے اور ڈائی کی شکل کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔

          بارش کے قطروں میں زندگی کی مقداریں موجود ہیں ۔ بارش کے عمل کو حرکت کے سواکیا نام دیا جا سکتا ہے؟ ہر قطرہ ایک جان ہے جو زمین سے ہم آغوش ہونے کے لیے بے قرار ہے۔

          آدمی ، جنات ، حیوانات ، پرندے ، پودے اور پہاڑ وغیرہ سب کے جسم کی تخلیق اسپرم سے ہوتی ہے ۔ اسپرم سر تا پا تغیر ہے اور زمین میں جذب ہونے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اسپرم کی جان بیضہ کی جان سے ملتی ہے تو اللہ کے قانون کے مطابق ایک نئی جان کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

          بارش کے قطرے ایک دوسرے کے مشابہ نظر آتے ہیں۔ زمین کی اسکرین پر بکھرتے ہی زمین کی جان سے ملتے ہیں اور بے شمار اقسام کی مخلوقات کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

          الہامی علوم سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ بے شک زمین کے کسی قطعے میں بظاہر زندگی موجود نہ ہو ، وہ قچعہ بنجر اور ویران کیوں نہ ہو ، اس میں زندگی کے سانچے ، اشکال اور مقداریں پنہاں ہیں۔جب خالق و مالک اللہ چاہتا ہے ، بارش سے وہ سانچے اور اشکال زندہ مخلوقات کی صورت میں ظاہر ہوجاتے ہیں۔

          پانی اور مٹی کے ملنے سے زمین پر زندگی ظاہر ہوتی ہے ۔ کیا ہم واقعی جانتے ہیں کہ

          ۱۔        پانی کیا ہے؟

          ۲۔        پانی کا حقیقی فارمولا کیا ہے؟

          ۳۔      کیا مٹی محض عناصر کا مجموعہ ہے یا اس کی حقیقت اس سے کہیں بڑی ہے؟

بیر بہوٹی

 

          (بیر بہوٹی کا رنگ شوخ سرخ اور ساخت مخملیں ہے۔ بارش میں تیزی سے پیدا اور نشونما پانے والے اس حشرے کا ےعلق مکڑی کے خاندان سے ہے۔ یہ غیر فقاری یعنی ریڑھ کی ہڈی سے عاری حشرہ ہے۔ اوسط لمبائی چار ملی میٹر ( ایک انچ سے کم ) ہے۔ سال میں ایک بار انڈے دیتی ہے جن کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ انڈے گیلی مٹی میں دیتی ہے ۔ بلوغت تک غذا کے لیے دوسرے جان داروں پر انحصار کرتی ہے ، اس کے بعد خود شکار کرتی ہے۔ تین سو سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔

          پاکستان اور بھارت میں بیر بہوٹی کا تیل فالج کت مرض میں استعمال ہوتا ہے۔ بیر بہوٹی دن میں متحرک ہوتی ہے اورسورج غروب ہوتے ہی مٹی میں چھپ جاتی ہے۔)


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم