Topics
ایک اندازہ کے مطابق پاکستان کے
کُل رقبہ کا 45 فی صد علاقہ زراعت کے لیے موزوں ہے۔ اگر آپ پاشی کے نہری نظام اور
دیگر ذرائع میں جدید اصلاحات کی جائیں اور زرعی ٹیکنالوجی میں جدت لائی جائے تو
مذکورہ رقبہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کوہستانِ نمک سے جنوب کی سمت ملتان
تک کا علاقہ دنیا کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے۔ وسطی پنجاب میں پیدا ہونے والے
باسمتی چاول ، گندم ، کماد (گنّا) اور متفرق انواع کی دوسری فصلوں کو معیار اور
ذائقہ کے لحاظ سے دنیا اعلیٰ و عمدہ قرار دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ citrus خاندان کے پھل اور پاکستانی آموں کا معیار دنیا بھر میں بہترین
ہے۔
موسمی اجناس ہوں یا پھل دار فصل __بھر پور پیداوار کے لیے ضروری ہے کہ فصل
کے اعتبار سے زمین کی معدنی اور نامیاتی ضروریات پوری کی جائیں۔ قدرتی اور مصنوعی
کھاد مطلوبہ مقدار میں مہیا کی جائے اور فصل کو بروقت پانی دیا جائے وغیرہ۔ علاوہ
ازیں محنت و مشقت بھی درکار ہے۔
زمینی مدار میں موجود مصنوعی
سیاروں کی مدد سے زمین کی جو تصاویر حاصل کی گئی ہیں ان میں واضح طور پر دیکھا جا
سکتا ہے کہ سبزرنگ کے علاقے زمین کی زرخیزی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں
نسبتاً سب سے وسیع اور زیادہ سرسبز علاقہ جنوبی امریکا کی وادی ”امیزون“ ہے۔
وادی امیزون__امیزون
کے وسیع و عریض جنگل اور اس کے روح رواں دریائے امیزون پر مشتمل ہے۔ وادی کا رقبہ
تقریباً 55 لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ اتنے بڑے رقبہ میں زیادہ تر برازیل ، پیرو ،
کولمبیا ، وینزویلا ، ایکواڈور ، بولیویا ، گیا نا ، فرانسیسی گیانا اور سوری نام
کے حصے شامل ہیں۔ تحقیق کے مطابق زمین پر موجود نباتات اور حیوانات کی تمام اقسام
میں سے کم از کم نصف اقسام اس علاقہ کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں۔
قارئین کرام ! اتنے بڑے رقبہ پر
مشتمل انتہائی گنجان حیاتیاتی نظام (ecosystem)
کی غذائی ضروریات کس طرح پوری ہوتی ہیں؟
حیوانات اور حشرات کا دارومدار
نباتات پر ہے۔ امیزون میں موجود لاکھوں کروڑوں صحت مند ، تناور اور جسیم درخت ،
جھاڑیاں ، جڑی بوٹیاں، گھاس اور جتنی اقسام کے نباتات موجود ہیں سب کو نشوونما کے
لئے معدنیات، نائٹروجن ، پوٹاشیم ، فاسفورس ، کلو رائیڈ وغیرہ کی فراہمی ضروری ہے۔
صرف دریائے امیزون کا پانی اور بارشیں علاقہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے
ناکافی ہیں۔
اس ترقی یافتہ دور میں وادی امیزون
کے لئے اتنی بڑی مقدار میں معدنیات اور کھاد مہیا کرنا اور پورے علاقہ میں بقدر
ضرورت بکھیرنا ناممکن ہے۔ اس کے باوجود امیزون کا علاقہ تا حال سر سبز و شاداب اور
قائم و دائم ہے۔ قدرت نے اس کا کیا انتظام کیا ہے؟
وادی امیزون سے مشرق کی طرف
بحِراوقیانوس کے پاربراعظم افریقا ہے۔ یہاں صحرائے اعظم ” صحارا“ کے جنوب مشرق میں
نشیبی صحرائی علاقہ ہے جسے بوڈیل ڈپریشن (Bodele
Depression) کہتے ہیں۔ یہ ملک چاؤ میں واقع نشیبی صحرائی
علاقہ ہے اور لیبیا کے جنوب میں ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اس جگہ کئی ہزار سال
پہلے چھوٹا سمندر تھا جس طرح آج ایران کے شمال میں بحیرہ قزوین (Caspian sea) ہے۔ جب یہ سمندر خشک ہوا تو مردہ آبی حیات
جیسے مچھلیاں ، نباتات اور پلانکٹن وغیرہ کی باقیات وقت گزرنے کے ساتھ تحلیل ہو کر
ذرّات میں تبدیل ہوگئیں۔ چنانچہ اس صحرائی علاقہ کی ریت نباتات کے لیے مفید معدنیات
(فاسفورس ، پو ٹاشیم ، نائٹروجن اور لوہا وغیرہ ) سے بھر پور ہے۔
اللہ رب العالمین ہیں،
خیر الرازقین ہیں اور جسے چاہیں بے حساب رزق عطا فرماتے ہیں۔ روزانہ معمول کی طرز
پر دوپہر اور سہ پہر کے اوقات میں یہاں تیز ہوائیں چلتی ہیں اور مٹی ریت کے ان
مفید ذرّات کو فضا میں بلند کرتی ہے۔ یہ ذرّات اپنے منبع سے اڑ کر تقریباً آٹھ
ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہوئے شمال مغربی افریقہ اور بحرِ اوقیانوس پارکر کے
امیزون میں گرتے ہیں اور حیات کے لیے قوت لایموت( اسقدر خوراک جو خاکی جسم کا نظام
قائم رکھنے کے لیے کافی ہو)
جب امیزون میں برسات کا
موسم ہوتا ہے تو یہاں سے مشرق کی طرف صحارا کے خطہ میں گرد و غبار کے عظیم طوفان
اٹھتے ہیں جو کئی سو کلو میٹر وسیع اور 100منزلہ عمارت سے زیادہ بلند ہوتے ہیں۔ یہ
طوفان افریقہ کے مغربی ساحل تک پہنچتے پہنچتے فضا میں مزید کئی کلو میٹر بلند ہو جاتے
ہیں اور بحرِ اوقیانوس پار کرتے ہوئے امیزون کے اوپر موجود گھنے برساتی بادلوں سے
ٹکراتے ہیں۔ اس طرح بارش کی شکل میں پورے امیزون میں نشو و نما اور افزائش کے لیے
ضروری معدنیات وافر مقدار میں برستے ہیں۔
برساتی
موسم کے اختتام پر سورج آب و تاب سے نکلتا ہے تو ان معدنیات کی بدولت بے شمار
انواع و اقسام کے نباتات کا سیلاب امڈ آتا ہے۔ جہاں ایک پتّا ہے وہاں تین پتّے اور
نکل آتے ہیں۔ اس طرح امیزون کا حیاتیاتی نظام اپنے شباب پر لوٹ آتا ہے۔
مصنوعی سیاروں کی مدد سے لگائے گئے
اندازوں کے مطابق صرف ایک دن میں 54 ہزار ٹن گرد و غبار کے ذرّات آٹھ ہزار کلو
میٹر کا سفر طے کر کے امیزون پہنچتے ہیں ۔ مضمون میں دی گئی تصویر دیکھئے۔
یہ محض ایک عمل کا احوال ہے جو کرہ
زمین کے متحرک نظام کو جاری وساری رکھنے کے لیے اس جیسے
ہزاروں
عوامل کا حصہ ہے۔ وسائل کی فراہمی کا یہ نظام مٹی کے ذرّات کو ( جو زندگی کو قائم
رکھنے کی مقداروں پر مشتمل ہے) کرہ زمین کے تمام حصوں تک پہنچانے اور تقسیم کرنے
کا ذمہ دار ہے۔
صحرا ، پہاڑ اور زرخیز میدان سب
مٹی کے ذرّات سے مل کر بنے ہیں۔ ذرّات میں مقداروں کی ترکیب مختلف ہے۔ مختلف
تراکیب جب آپس میں ملتی ہیں تو زندگی نئے نئے لباس زیب تن کرتی ہے۔
زمین کے ہر خطہ میں مٹی کے ذرّات
کی ترکیب دوسرے خطہ سے مختلف ہے لیکن جس خطہ میں جن مقداروں کی ضرورت پڑتی ہے،
وسائل کی ترسیل کا یہ حیرت انگیز قدرتی نظام ان مقداروں کو وہاں پہنچانے کا
بندوبست کرتا ہے۔
شمالی امریکا کے وسیع زرعی میدان
دور دراز گلیشئرز سے لائے ہوئے ذرّات کی بدولت زرخیز ہیں۔ گندم اور مکئی کی ریکارڈ
ہیداوار یہاں سے حاصل ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش میں دریائے گنگا کا ڈیلٹا لوہے کے معدنی
مرکبات سے پُر ہے جو ہمالیہ کی بلند چٹانوں سے طویل فاسلہ طے کر کے آئے ہیں اور
چاول کی فصل اگانے کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔
زمین کے دوسرے حصوں میں کہیں برف
اور کہیں ہوا کے ذریعے ذرّات کی ترسیل جاری ہے۔ براعظم انٹارکٹیکا پر جب چھ مہینے
کی طویل شب کا آغاز ہوتا ہے تو براعظم کے ارد گرد بحرِ جنوبی منجمد ہونا شروع ہوتا
ہے۔ سمندر کا پانی جمتا ہےتو اندر موجود نمک کے ذرّات خارج کرتا ہے اس عمل کے
دوران نمک کے ذرّات پانی سے بالکل جدا نہیں ہوتے بلکہ انتہائی مرتکز (concentrated) محلول کی صورت میں باقی رہ
جانے والے پانی سے خارج ہو جاتے ہیں۔ محلول کی شکل میں ذرّات سمندر کی سطح سے نیچے
کی طرف سفر شروع کرتے ہیں۔ بحر منجمد جنوبی کی سطح سے خارج ہونے والے نمک کے ذرّات
کا مرتکز محلول ، پانی کے اندر نیچے کی طرف عظیم آبشار کی صورت میں سفر کرتا ہے۔
ارضیاتی ماہرین کے مطابق یہ عظیم
آبشار جو انتہائی خاموشی اور تاریکی میں زیرِ سمندر بہتی ہے ، اس کے حجم اور مقدار
کا صحیح اندازہ محال ہے۔ اس آبشار میں نمک کے ذرّات آکسیجن کے ذرّات (مالیکیولز۔
سالمات) کے ساتھ چپکے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ سمندر کے پیندے میں سینکڑوں کلو
میٹر تک پھیل جاتے ہیں۔ سمندری رو جب چلتی ہیں تو آکسیجن اور نمکیات سے بھر پور ان
ذرّات کو دنیا کے تمام سمندروں میں ترتیب سے بکھیر دیتی ہیں۔ ایک طرف سمندری حیات
کو درکار ضروری آکسیجن اور نمکیات و معدنیات مہیا ہوتے ہیں، دوسری طرف یہ وہاں کے
پانی کا درجہ حرارت متوازن رکھتی ہیں۔
اس طرح کے ہزاروں حیرت انگیز عوامل
ظاہر کرتے ہیں کہ زمین جیتا جاگتا ، سانس لیتا ہوا، زندہ متحرک وجود ہے، قدرت زمین
کا نظام قاعدہ اور ترتیب سے چلاتی ہے اور اس نظام کی دیکھ بھال اور مرمت بھی کرتی
ہے ۔ وسائل کی تقسیم میں ذرّات کا کردار انتہائی اہم اور بنیادی ہے۔ اگر ابنِ آدم
زمین کے نظام اور تشخص سے واقف ہونا چاہتا ہے تو اسے ذرّہ کے تشخص اور میکانزم سے
واقف ہونا پڑے گا۔
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،
” زمین بھی ظاہر الوجود اور باطن
کے غلاف میں بند ہے۔ زمین جب ظاہر الوجود ہے تو ٹھوس ہے اور جب باطن الوجود ہے تو
خلا ہے۔ ظاہر الوجود زمین کششِ ثقل ہے اور باطن الوجود روشنی ہے۔
زمین بھی عقل و شعور رکھتی ہے۔ وہ
ادراک بالحواس بھی ہے۔ زمین یہ جانتی ہے کہ انار کے درخت میں امرود نہیں لگے گا
اور امرود کے درخت میں انار نہیں لگے گا۔ وہ مٹھاس ، کھٹاس ، تلخ اور شیریں سے
واقف ہے۔ اس کے علم میں یہ بات بھی ہے کہ کانٹے بھرے پودے میں پھول زیادہ حسین
لگتا ہے۔ کانٹے سے بغیر پودے میں کتنا ہی رنگ پھول ہو، پھول میں کتنے ہی رنگوں کا
امتزاج ہو لیکن پھول کی قیمت وہ نہیں جو کانٹوں کے ساتھ لگے پھول میں ہوتی ہے۔
زمین اس بات کا بھی علم رکھتی ہے کہ اس کی کوکھ میں رنگ برنگ ، قسم قسم بیجوں کی
نشوو نما ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے، 'اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں
اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا کی ہیں، ان میں غورو فکر کرنے والوں کے لیے نشانی
ہے۔' (النحل : ۱۳) زمین جہاں بے شمار رنگوں سے مزین پھول پیدا کرتی ہے ، تلخ و
شیریں پھل اگاتی ہے، پرندوں ، چوپایوں کی تخلیق کرتی ہے، وہاں اپنی حرکت کو متوازن
رکھنے کے لئے پہاڑ بھی بناتی ہے۔ لیکن یہ میلوں میل طویل اور آسمان سے باتیں کرتے
ہوئے بلند و بالا پہاڑ جب ظاہر الوجود میں نظر آتے ہیں تو زمین پر جمے ہوئے نظر
آتے ہیں اور جب باطن الوجود پہاڑ دیکھے جاتے ہیں تو اڑتے ہوئے بادل دکھائی دیتے
ہیں۔ ظاہر الوجود پتلا نہیں تھا تب بھی زمین تھی۔ ظاہر الوجود پتلا نہیں ہوگا تب
بھی زمین رہے گی۔ ظاہر الوجود پتلا نہیں ہوگا تب بھی زمین رہے گی۔ ظاہرالوجود ایک
ذرّہ تھا، ذرّہ میں دوسرا ذرّہ شامل ہوا تو ذرّات ایک سے دو ہوئے اور ذرّات کی
تعداد اتنی بڑھی کہ ایک وجود بن گیا۔ قلندر دو حروف جانتا ہے اور دو حروف یہ ہیں:
کوئی نہیں ، کبھی نہیں _دانش ور ، علامہ
،مفتی ، مشائخ کہتے ہیں لفظ دو ہیں : نفی ، اثبات ۔ قلندر کہتا ہے کہ اثبات نہیں
صرف نفی ہی مادہ کی اصل ہے۔“
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے اس عمل کو
مثال سے سمجھایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں،
” آئیے ! تجزیہ کریں تاکہ تجزیہ
مشاہدہ بن جائے۔ سامنے مٹی کا ایک ڈھیلا ہے اس کا وزن دو کلو ہے۔ اس دو کلو وزنی
ڈھیلے کو کسی آدمی کی کمر پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی۔ مٹی کے ڈھیلے کو پیس کر
ذرّات میں تبدیل کر لیں۔ سوال یہ ہے کہ دو کلو وزن کدھر گیا ہے؟ کیا اس پسے ہوئے
ڈھیلے کے ذرّات کو کسی کی کمر پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی ؟ تجربہ شاہد ہے کہ چوٹ
نہیں لگے گی۔ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ مٹی کے ڈھیلے کو کتنا ہی پیس لیا جائے ، ذرّات
موجود رہیں گے اور کسی طریقہ پر ان ذرّات کو پھر ایک جگہ کر دیا جائے اور کسی آدمی
کی پشت پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت زیادہ ذرّات کا جمع ہونا ،
ایک دوسرے میں پیوست ہو جانا یا باہم دیگر ہم آغوش ہو جانا کشش ثقل یعنی اثبات ہے
اور ظاہرالوجود ہے۔ ظاہرالوجود تو رہے گا مگر ظاہر الوجود کی اصل یا بنیاد فنا ہے۔
قلندر جب فنائیت کا ذکر کرتا ہے تو وہ ظاہر الوجود کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ نفی
کرتا ہے ؟ اس لئے کہ اس کی نظر باطن الوجود کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی۔“
محترم قارئین ! آپ نے ”فقیر“ کی
الہامی شعور پر مبنی بصیرت افزا تحریر کا مطالعہ کیا۔ تحریر میں مخفی رموز محققین
، دانش وروں اور مفکرین کے لیے مادی شعور کی بھول بھلیوں سے نکلنے اور حقیقت شناس
فہم سے واقف ہونے کے لیے مشعل راہ ہیں۔
ماہرین فلکیات جب بڑی بڑی رصدگاہوں
میں جدید دور بینوں اور کمپیوٹر کی مدد سے خلا میں جھانکتے ہیں تو انہیں خلا کی
وسعتوں میں ستاروں اور سیاروں کے علاوہ جو واضح اوراہم ترین وجود نظر آتا ہے وہ
مٹی کے ذرّات کے انتہائی وسیع و عریض بادل ہیں اور نیبولا (nebula)
کے نام سے معروف ہیں۔
محققین کہتے ہیں کہ ذرّات چکر کھا
کر ایک مرکز میں جمع ہوتے ہیں تو حرارت کششِ ثقل کے زیر اثر کسی بڑے جسم ، سیارہ ،
ستارہ یا شہابیہ کو تشکیل دیتی ہے۔
لیکن یہ سوال اہم ہے کہ گرد وغبار
، گیسوں اور مٹی کے ذرّات پہلے سے وہاں کس طرح موجود ہیں؟ یہ کیسے وجود میں آئے؟
ان ذرّات کی تخلیق کا سورس کیا ہے؟ محققین نے ذرّات کو مزید ذرّوں میں تقسیم کیا
حتی کہ ایٹم کا نظریہ سامنے ایا۔ ایٹم جن ذرّات پر مشتمل ہے ان کا کھوج لگانے کی
کوشش کی گئی لیکن بات مٹی کے ذڑّہ سے آگے نہیں بڑھی۔
عظیمی صاحب فرماتے ہیں۔
” آپ یہ نہ سمجھئے کہ ایٹم مٹی کا
ذرّہ نہیں ہے۔ ایٹم بھی مٹی کا ذرّہ ہے۔ جب محققین نےتفکر کے ساتھ جدو جہاد کی تو
مٹی کا وہ ذرّہ جس کا نام ایٹم ہے، بول اٹھا کہ میرے اندر عظیم طاقت چھپی ہوئی
ہے۔“
دور حاضر کے محقق نے مادہ کی اکائی
، ذرّہ کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہےلیکن ظاہر پر تکیہ کرنے کی وجہ سے وہ
ذرّہ کے باطن کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ جب تک باطن میں غور نہیں کرے گا، تحقیق
میں تخریب کا عنصر غالب رہے گا۔۔