Topics
کائنات کیسے تخلیق ہوئی؟
آخری
آسمانی کتاب قرآن کریم میں ہے،
”اللہ آسمانوں اور زمین کا نور
ہے۔“ (النور : ۳۵)
توریت میں لکھا ہے،
”اور خدا نے کہا روشنی اور روشنی
ظاہر ہوگئی۔“
(توریت : کتاب پیدائش ، باب ! ،
آیت ۳)
الہامی کتابوں سے واضح ہے کہ
کائنات ا ور تخلیقات کی بنیاد اللہ کا نور ہے۔
ہم مختلف ساخت کی چیزیں دیکھتے اور
چھوتے ہیں۔ ہوا کو نہیں دیکھتے مگر محسوس کرتے ہیں۔
محسوس کرنا بھی دراصل دیکھنا ہے) ہم
پانی اور تیل کے خواص سے آگاہ ہیں کہ یہ ایک حجم میں رہ کے حالت تبدیل کرتے ہیں،
بہتے ہیں، بخارات بن کر اڑتے ہیں اور درجہ حرارت کم ہونے پر ٹھوس میں تبدیل ہو
جاتے ہیں۔ ٹھوس اشیا میں انتہائی سخت دھاتیں ( لوہا اور اریڈیم) نسبتاً نرم دھاتیں
(سوڈیم اور پوٹاشیم) ، سخت مگر ضرب لگنے سے بکھرنے والی اشیا (پتھر، شیشہ ، نمک)
نرم ، بھر بھری اور ٹھوس اشیا ( مٹی اور ریت) وغیرہ موجود ہیں۔ ٹھوس اشیا میں مادے
کی ایسی حالتیں بھی ہیں جو مذکورہ حالتوں یا ان میں سے دو حالتوں کی درمیانی شکل
ہیں۔
دھواں : گیس اور ٹھوس کی درمیانی
حالت ہے
بھاپ : گیس اور مائع کی درمیانی
حالت۔
گندھا ہوا آٹا یا گندھی ہوئی مٹی :
مائع اور ٹھوس کی درمیانی حالت۔
آدمی سوچتا ہے کہ اگر ان سب چیزوں
کے مادے روشنی سے بنے ہیں تو یہ ہمیں روشن نظر کیوں نہیں آتیں اور ہم انہیں رفتہ
رفتہ روشنی میں تحلیل ہوتے کیوں نہیں دیکھتے؟
سطحی نگاہ کا حامل فرد روشنی کو
مادی حالتوں میں تبدیل ہوتا دیکھتا ہے نہ مادی چیزیں روشنی میں تحلیل نظر آتی ہیں۔
وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ ٹھوس چیزیں گیسوں سے تخلیق ہورہی ہیں یا گیسوں میں تحلیل
ہو رہی ہیں۔
مثال : امونیا
NH2 اور ہائیڈرجن کلورائیڈHC1 بے رنگ سمجھی جانے والی شفاف گیسیں ہیں۔ ان کے سالمات طاقتور خورد
بین سے بھی نظر نہیں آتے۔ ان گیسوں کے جار یا ٹیوب کو کھولا جائے تو یہ غیر محسوس
طریقے سے ہوا میں شامل ہو جاتی ہیں لیکن جیسے ہی ان نادیدہ گیسوں کو اکٹھا کیا
جاتا ہے، ان کے ذرّات تیزی سے تعامل کرتے ہیں اور نوشادر (NH4CI) کے ٹھوس ذرّات تخلیق ہوتے ہیں اور دھوئیں کے مرغولوں کی شکل میں
نمودار ہوتے ہیں پھر جار کی دیواروں اور پیندے کے ساتھ سفوف کی حالت میں جمنے لگتے
ہیں۔ سفوف کو اکٹھا کر کے دباؤ کے عمل کے تحت معدنی نمک کے ڈلوں کی مانند ٹھوس
حالت تبدیل کیا جاتا ہے۔
کیمیا اور سائنس کے طالب علموں کے
لیے یہ تجربہ بہت دلچسپ ہوتا ہے کیوں کہ وہ عام طور پر نہ آنے والی گیسوں سے کوئی
ٹھوس شے تخلیق ہوتی نہیں دیکھتے۔ ایسی بہت سی ٹھوس اشیا ہیں جو براہ راست نادیدہ
گیسوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس مثال میں مادے کی نظر نہ آنے والی دو لطیف
حالتوں کی تخلیق کا ذکر ہے لیکن بہرحال یہ دونوں ہی مادہ (matter)ہیں۔
تحقیق و تلاش (سائنس) اس نتیجے پر
پہنچ چکی ہے کہ مادہ توانائی کی مجتمع حالت ہے لیکن توانائی ایک جگہ جمع ہو کر
مادے میں کیسے تبدیل ہوتی ہے اور کیا آدمی اپنی منشا سے مادے کو روشنی سے تخلیق کر
سکتا ہے__؟
سائنسی تحقیقات اور دریافتیں اس حوالے سے ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن اب تک
کے نتائج سے وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مادے کی بنیاد روشنی ہے۔
سائنسی تجربات اور مشاہدات :
زیادہ فریکوئنسی یا توانائی پر
مشتمل روشنی کی دو شعاعوں کو ایک دوسرے کے مخالف سمت اس طرح گزارا جاتا ہے کہ
دونوں ایک نقطے پر اکٹھی ہوں۔ یہ عمل مصنوعی طور پر پیدا کئے گئے خلا (vacuum) میں کیا جاتا ہے اور اس کو ہزاروں ، لاکھوں
مرتبہ دہرایا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ دونوں شعاعیں ایک دوسرے میں اصل
حالت میں گزر جاتی ہیں اور کوئی عمل واقع نہیں ہوتا۔ اس دوران کئی مرتبہ ایسا ہوتا
ہے کہ جب دونوں کی مقداروں میں درست تناسب اور توازن ہو تو اپنی سمت کسی تبدیلی کے
بغیر آگے بڑھنے کی بجائے یہ شعاعیں ایٹمی مادی ذرّات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ بہت
کم ایسا ہوتا ہے کہ دو دفعہ پیدا ہونے والے ذرّات ایک جیسے ہوں بلکہ ہر مرتبہ چارج
، کمیت اور رویے کے ذرّات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ اپنی نوعیت میں حیرت انگیز اور
متنوع ہے ۔ اس پر طبیعات کا الگ سے شعبہ قائم کیا گیا ہے جسے Two-Photon
Physics کا نام دیا گیا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ دو طلبہ
ہیں، دونوں کے ہاتھ میں ٹارچ ہے۔ وہ فاصلے پر کھڑے ہو کر اپنی ٹارچوں کا رخ ایک
دوسرے کی جانب اس طرح کرتے ہیں کہ ایک ٹارچ کی روشنی دوسری ٹارچ کی روشنی کی سیدھ
میں ہو۔ وہ وقفے وقفے سے ٹارچ بند کر کے کھولتے ہیں۔ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ
دونوں کی روشنی ٹکراتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا لیکن سو میں سے دو تین مرتبہ ایسا
ہوتا ہے کہ جیسے ہی ٹارچ کھلتی ہیں اور روشنی ، روشنی سے ملتی ہے تو پہلے شعاعیں
دو پنگ پانگ گیندوں میں ، دوسری بار ٹینس کی گیندوں میں اور تیسری مرتبہ گالف کی
گیندوں کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ اس تجربے کو الٹ دیا جائے یعنی دو مخالف چارج کے
حامل لیکن ایک ہی وزن کے ذرّات آپس میں ٹکرائیں تو یہ مختلف روشنی کی شعاعوں میں
تبدیل ہو جاتے ہیں۔ شکل نمبر (۱) دیکھئے۔
روشنی کی براہ راست مادے میں اور
مادے کی روشنی میں تبدیلی ان تجربات سے ثابت ہوئی مگر یہ تجربات ایٹم کے انتہائی
چھوٹے ذیلی ذرّات تک محدود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ زمین ، سورج ، ستارے ، سیارے ، چاند
، دیگر اجرامِ فلکی اور جو کچھ ان میں ہے ، وہ روشنی سے کیسے تخلیق ہوئے اور روشنی
مادے میں کس طرح تبدیل ہوئی؟
مادی سائنس ابھی ذرّات کی حدود میں
ہے اور ذرّات کا مشاہدہ سینکڑوں واسطوں سے اس طرح ہے کہ صرف تاثرات اور نتائج کا
جائزہ لیا جاتا ہے۔ ذرّات کی حقیقی شکل و صورت اور رویے کیا ہیں ، یہ باتیں سوالیہ
نشان ہیں۔
کائنات کے اجزا ابتدا میں کیسے
تخلیق ہوئے؟ یہ معلوم کرنے کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک میں کئی کلو میٹر طویل
زیر زمین لیبارٹریاں کثیر لاگت سے قائم کی گئی ہیں جو غریب ممالک کے کئی دہائیوں
کے بجٹ کے برابر ہیں۔
فرانس اور سوئٹرز لینڈ کی سرحد پر
دنیا کی سب سے بڑی زیر زمین لیبارٹری سرن (Cem) قائم کی گئی ہے۔ یہ 574 فٹ کی گہرائی میں ہے۔ یہ ایک بڑے دائرے کی
شکل میں ہے جس کے محیط کی لمبائی 27 کلو میٹر ہے۔ لیبارٹری کا کُل رقبہ 1375 ایکٹر
ہے۔
اس لیبارٹری کی تعمیر کا مقصد کیا
ہے؟
اس میں ایٹمی ذرّات کو رفتہ رفتہ رفتار
بڑھاتے ہوئے روشنی کی رفتار سے کچھ کم رفتار پر ایک دوسرے سے ٹکرایا جاتا ہے۔
ذرّات ٹکرا کر مزید ذرّات میں اور کچھ روشنی کے فوٹان میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اس
تبدیلی سے محقق ذرّات کی اندرونی ساخت جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ معلوم کرنا
چاہتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا ہوئی تو روشنی ذرّات میں کس طرح تبدیل ہوئی اور
ستارے ، سیارے کیسے وجود میں آئے؟
سرن کے قیام کو تقریباً 68 سال ہو
چکے ہیں۔ اس دوران مزید 59 ذیلی ایٹمی ذرّات دریافت کئے گئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ
ذرّات کی مسلس دریافت سے صحیح جواب حاصل ہونے کے بجائے پیچیدگی میں اضافہ ہو رہا
ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ لیبارٹری کارکردگی اور مطلوبہ نتائج مہیا کرنے کے لحاظ
سے ناکافی ہے۔ وہ اس سے بڑی لیبارٹری تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تخلیق کائنات اور روحانی سائنس :
خالقِ کائنات اللہ کا ارشاد ہے،
” اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی
چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا وہ ہو جاتی ہے۔“
(یٰس :
۸۲)
یہ عدم سے تخلیق کا قانون ہے۔
۱۔ کائنات اور موجودات معین مدت تک
زندہ رہنے کے لیے وسائل کہاں سے حاصل کرتی ہیں اور اپنی حالت پر قائم کیسے رہتی
ہیں؟
۲۔ تخلیق کا عمل بار بار کس طرح دہرایا
جاتا ہے اور اس کی بساط کیا ہے؟
۳۔ پرانے سیارے ٹوٹتے ہیں ، ختم
ہوتے ہیں تو نئے سیارے اور زمینیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،
” فضا میں جس قدر عناصر موجود ہیں،
ان میں سے کسی عنصر سے فوٹان کا ٹکراؤ ہی اسے اسپیس دیتا ہے ۔ دراصل یہ فضا کیا ہے__؟ رنگوں کی تقسیم ہے ۔ رنگوں کی تقسیم جس قدر
ہوتی ہے، وہ اکیلے فوٹان کی رو سے نہیں ہوتی بلکہ ان حلقوں سے ہوتی ہے جو خود
فوٹان بنتے ہیں۔ جب فوٹانوں کا ان حلقوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو اسپیس یا رنگ وغیرہ
کئی چیزیں بن جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرنوں میں حلقے کیسے پڑے__؟ ہمیں یہ علم ہے کہ ہمارے کہکشانی نظام میں
بہت سے اسٹارز یعنی سورج ہیں، وہ کہیں نہ کہیں سے روشنی لاتے ہیں، ان کا درمیانی
فاصلہ کم سے کم پانچ نوری سال بتایا جاتا ہے۔ جہاں ان کی روشنیاں آپس میں ٹکراتی
ہیں، وہ روشنیاں حلقے بنا دیتی ہیں جیسے ہماری زمین اور سیارے۔ اس کا مطلب یہ ہوا
کہ سورج سے یا کسی اور اسٹار سے ( جن کی تعداد ہمارے کہکشانی نظام میں دو کھرب
بتائی جاتی ہے) ان کی روشنیاں سنکھوں کی تعداد پر مشتمل ہیں اور جہاں ان کا ٹکراؤ
ہوتا ہے، وہیں ایک حلقہ بن جاتا ہے جسے سیارہ کہتے ہیں۔“
( کتاب : قلندر شعور)
وضاحت کے لیے شکل نمبر (۲) دیکھئے۔
کائنات اور سیارگان کی تخلیق سے
متعلق یہ اقتباس ، روحانی سائنس کی روشن دستاویز ہے۔ کم از کم پانچ نوری سال یا اس
سے زیادہ فاصلے پر موجود ستاروں یا سورج کی روشنیاں آپس میں معین فاصلہ طے کر کے
ٹکراتی ہیں۔ ہر ستارے کی روشنی اپنے اندر منفرد اور مخصوص مقداریں رکھتی ہے۔ جب
کئی ستاروں کی روشنیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ان کی معین مقداروں کا اجتماع ہوتا ہے
اور جو فارمولا ترتیب پاتا ہے ، اس سے نئے سیارے کا کا وجود ظاہر ہوتا ہے یعنی
روشنیوں کے اجتماع سے روشنیوں پر مشتمل ایک نیا وجود بنتا ہے جو ایک درجہ نزول کر
کے کسی سیارے کا مادی وجود بن جاتا ہے۔
اس سے کائنات کی تمام اشیا کی
تخلیق کا راز آشکار ہوتا ہے۔ پہلے روشنی کا جسم تخلیق ہوتا ہے جو مادی جسم کی
تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مادی جسم فنا ہونے کے باوجود روشنی کا جسم
قائم رہتا ہے اور کائنات کے کسی بھی گوشے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادی وجود میں
ظاہر ہو سکتا ہے۔ محقق خواتین و حضرات اور عوام الناس کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔
آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے
میں خالقِ کائنات اللہ کا ارشاد ہے،
” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور
ہے۔“ (النور : ۳۵)
ارشاد ِ ربانی ہے ،
” اور دنیا کی زندگی تو دھوکے
(غرور) کا سامان ہے۔“ (آل عمران : ۱۸۵)
لفظ غرور کا مادہ ”غ رر =غرر“ ہے جس کا لغوی معنی دھوکا یا فریب
ہے۔ دھوکے کا مطلب ہے کہ شے جس طرح ہمیں نظر آرہی ہے، اصل اس سے مختلف ہے۔ رائج
علوم اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ محدودیت میں رہتے ہوئے نہ صرف نگاہ محدود ہوتی ہے
بلکہ باقی چار حواس کی کارکردگی بھی متاثر ہو جاتی ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتے اور سنتے
ہیں، حقیقت اس کے برعکس ہے۔
الف : بہار
کا موسم ہے ۔ طالب علم باغ میں پھولوں کو دیکھ رہا ہے۔ پھولوں کے بادشاہ گلاب کے
پاس سے گزرتا ہے تو خوشبو اور بناوٹ میں منہک ہو جاتا ہے۔ نظر قریب موجود گلِ
ادریسی(hydrangea)
کے جھاڑی نما پودے پر پڑتی ہے جس پر نیلے پھول کھلے ہیں وہ سوچتا ہے کہ جب زمین ،
فضا ، پانی اور دھوپ ایک ہے پھر گلاب سرخ اور گلِ ادریسی نیلا کیوں ہے؟
تحقیق و تلاش (سائنس) کے مطابق
سورج سے آنے والی روشنی بے شمار روشنیوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں وہ سات رنگ شامل ہیں
جس کو مادی آنکھ دیکھتی ہے۔سات رنگ آپس میں مختلف مقداروں میں مل کر ہر وہ رنگ
بناتے ہیں جو محدود نگاہ کو نظر اتے ہیں۔ دھوپ میں کئی رنگ ہیں مگر آدمی سات رنگوں
تک محدود ہے جبکہ زمین پر دیگر نوعیں آدمی سے زیادہ رنگ دیکھتی ہیں۔
گلاب سرخ کیوں نظر آتا ہے؟
سورج کی روشنی گلاب پر پڑتی ہے تو
گلاب سرخ کے سوا تمام رنگوں کی روشنیاں جذب کر کے سرخ روشنی کو منعکس کر دیتا ہے۔
منعکس کرنے کا مطلب رنگ یا روشنی کا سطح سے ٹکراتے ہی واپس ہونا ہے۔ سرخ روشنی جو
گلاب کا حصہ نہیں بنی ، آنکھ کی پتلی میں داخل ہوتی ہے اور ہم گلاب کو سرخ دیکھتے
ہیں۔گلِ ادریسی نیلا کیوں نظر آتا ہے؟
گلِ ادریسی تمام رنگوں کی روشنیاں
قبول کرتا ہے لیکن نیلی روشنی کو منعکس یارد کر دیتا ہے ۔ نتیجے میں نیلی روشنی
آنکھوں میں داخل ہوتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ گلَ ادریسی نیلا ہے۔زمین پر مخلوقات
کے جتنے رنگ نظر آتے ہیں، سب ان کے اندرونی نظام کی طرف سے منعکس یا رد کئے گئے
ہیں اور ہم انہی رنگوں کو ان مخلوقات کا رنگ سمجھتے ہیں۔ اصل رنگ کیسے دیکھا جائے؟
سائنس کے مطابق ایک طریقہ یہ ہو
سکتا ہے کہ گلاب اگر سرخ رنگ کو ظاہر کر رہا ہے تو سرخ روشنی کو گلاب تک پہنچنے سے
روک دیا جائے تاکہ دیکھا جا سکے کہ اب وہ کس رنگ میں ظاہر ہوگا۔
تجربہ : سوڈیم
بلب یا لیمپ ( جس میں سوڈیم کے بخارات کم پریشر میں رکھے جاتے ہیں) کی روشنی صرف پیلے× رنگ پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں مرئی طیف
کے باقی رنگ ( سرخ ، نارنجی ، سبز ، نیلا اور بنفشی ) موجود نہیں ہوتے۔ سوڈیم لیمپ
کی روشنی میں سرخ رنگ موجود نہیں لہذا گلاب اس میں سیاہ نظر آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو رنگ اب نظر آرہا ہے ، کیا سند
ہے کہ وہ اصل ہے؟ ہم نے گلاب کو سرخ رنگ سے دور کر کے پیلی روشنی میں رکھا تو اس
نے سیاہ رنگ ظاہر کیا۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ گلاب سیاہ رنگ ہے __؟ نہیں ۔ اس لئے کہ رنگ بے شک بدل گیا ہو
لیکن دیکھنے والی نگاہ نہیں بدلی۔ محدود نگاہ نے سورج کی روشنی میں گلاب کو پہلے
سرخ دیکھا ، اب سوڈیم بلب کی روشنی میں سیاہ دیکھ رہی ہے۔ تحقیق و تلاش (سائنس) اس
تجربے کو کامیاب کہہ سکتی ہے لیکن باطنی علوم کی روشنی میں جواب تسلی بخش نہیں۔
تجزیہ : ہم نے
شے کو جس رنگ میں دیکھا ، شے نے اس رنگ کو جذب ہی نہیں کیا۔ اپنے دیکھنے کو فریبِ
نظر کے علاوہ کوئی نام نہیں دے سکتے۔سوچنا یہ ہے کہ منعکس ہونے والا رنگ ہمیں نظر
آتا ہے ، جذب ہونے والے رنگ نظر کیوں نہیں آتے؟ ذہن کی اسکرین پر جو رنگ منعکس ہوا
ہے وہ گلاب میں جذب ہونے والے رنگوں کے لئے پردہ بن گیا ہے۔ دراصل نگاہ پردے کو
دیکھتی ہے اور اسے اصل خیال کرتی ہے۔
× پیلا رنگ کتنے رنگوں پر مشتمل ہے؟ تحقیق و تلاش کے
مطابق سرخ ، سبز اور پیلا پرائمری رنگ ہیں جو کسی رنگ کے ملاپ سے نہیں بنتے۔ سوچئے
کہ اگر یہ رنگ دو رنگوں سے مل کر نہیں بنتے تو ان میں تغیر واقع کیوں ہوتا ہے؟
تحقیق و تلاش کے مطابق خارجی سطح
پر موجود ذرّات (ایٹم) دراصل مخصوص روشنیوں کو جذب یا منعکس کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ان کی سطح پر کوئی رنگ موجود نہیں ہوتا۔ دراصل یہ کہہ کر وہ تسلیم کر رہے ہیں کہ
ذرّات بے رنگ ہیں۔ پھر وہ شے کو رنگین کیوں دیکھتے ہیں؟
محققین کا کہنا ہے کہ پلٹ کر آنے
والی روشنی آنکھوں میں داخل ہوتی ہے ، کون اور راڈ کے نظام سے گزرتی ہے جو روشنی
کی مقداروں کو ناپتے ہیں اور برقی اشاروں میں تبدیل کر کے دماغ کو بھیجتے ہیں۔
دماغ ان اطلاعات کو فرد کی شعوری و سعت کے اعتبار سے کسی خاص رنگ میں دکھاتا ہے۔
ہم ہر شے کو رنگ کی وجہ سے پہچانتے
ہیں لہذا رنگ کی طرح مخلوق کی شکل اور سائز بھی ہمیں اصل کے برعکس نظر آتا ہے۔
نظریہ رنگ و نور کے عارف عظیمی صاحب فرماتے ہیں،
”ایک سانپ بہت بڑے چوہے کو اس لئے
نگل لیتا ہے کہ اسے چوہا چھوٹا نظر آتا ہے۔ اگر چوہا اتنا بڑا نظر آئے جتنا بڑا
آدمی کو نظر آتا ہے تو سانپ اسے نگلنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اس کے صاف معانی یہ
ہوئے کہ چوہا سانپ کو اتنا بڑا نظر نہیں آتا جتنا بڑا آدمی کو نظر آتا ہے۔
شیر ہاتھی کے مقابلے میں چھوٹا
ہوتا ہے۔ ہاتھی کا ڈیل ڈول شیر کے مقابلے میں بہت بڑا ہے لیکن ہاتھی شیر سے ڈرتا
ہے۔ ہاتھی شیر کو دیکھ کر مقابلہ نہیں کرتا۔ ڈر کر بھاگ جاتا ہے۔
اس تجزیہ کے تحت ہم یہ کہہ سکتے
ہیں کہ آدمی جب اعلیٰ space
سے نکل کر اسفل spaceمیں
داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر خوف طاری ہوجاتا ہے اور یہی وہ خوف ہے جو اس کو
اعلیٰ space میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ اگر آدمی اسفلspace کو رد کر دے تو از خود اعلیٰspace میں داخل ہو جاتا ہے۔“
( کتاب
: احسان و تصوف )
علم ِ لدنّی کی حکمت سے معمور
اقتباس میں مضمون کی ابتدا میں دی گئی آیت کی تشریح ہے۔ جو ہے اسے نہ دیکھنا اور
جو نہیں ہے اسے دیکھنا اسفل حواس ہیں۔ ان کا پابند رہتے ہوئے جو تحقیق کی جاتی ہے
، اس کی حیثیت فریب ہے۔
باطنی علوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ
جب ایک شے سات رنگوں میں تقسیم ہوگئی ہے تو ان سات رنگوں میں سے کوئی رنگ اس شے کا
اصل رنگ نہیں۔ اصل رنگ وہ ہے جو تقسیم ہونے سے پہلے تھا۔ تقسیم ہونے سے پہلے کے
رنگ کو سفید نام دیا جائے تو اس طرح ہر شے کا رنگ سفید ہوا۔
پھر پہچان کیسے ہوگی؟
جب تک ہمارے ذہنوں میں پہچان کا
تصور رنگوں سے منسوب رہے گا وہ رنگ جو لہر کی ٹوٹی ہوئی شکل ہیں ، ہم فریب ِ نظر
میں مبتلا رہیں گے اور وہ دیکھیں گے جو نہیں ہے۔
تقسیم ہونے سے پہلے ہر شے کا رنگ
ایک ہے یعنی سب کی پہچان ایک مرکز میں سمٹ جاتی ہے جس کو باطنی علوم کے ماہرین بے
رنگی کہتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شے دراصل ”بےرنگ“ ہے۔ بے رنگی میں تغیر نہیں۔
بے رنگی کو وہی دیکھتا ہے جو رنگوں کی تقسیم سے آزاد ہو جاتا ہے۔
کبیر داس کہتے ہیں،
رنگی کو کہیں
نارنگی تنت مال کو کھویا
چلتی کو کہیں گاڑی دیکھ
کبیرا رویا
ب : چولہے
پر کیتلی رکھی ہے جس میں پانی ابل رہا ہے۔ کیتلی لوہے سے بنی ہے۔ شعلہ لوہے کو
مسلسل حرارت منتقل کرتا ہے۔ حرارت توانائی کی ایک قسم ہے۔ طالب علم کیتلی کو ہاتھ
نہیں لگاتا کیونکہ ہاتھ جل جائے گا۔ وہ کیتلی میں کھولتا ہوا پانی نہیں پیتا
کیونکہ زبان جل جائے گی۔
سائنس کی توجیہ یہ ہے کہ توانائی
حرارت کے ذریعے منتقل ہوتی ہے اور ذرّات کے ارتعاش میں اضافہ ہوتا ہے۔ شے اگر ٹھوس
ہو تو ارتعاش ایک ہی جگہ پر آگے پیچھے ہوتا ہے۔ مثلاً لچک دار چھڑی کا ایک سرا
زمین میں گاڑ دیا جائے تو دوسرا سرا فضا میں تیزی سے آگے پیچھے حرکت کرتا ہے مگر
زمین میں نصب چھڑی اپنی جگہ رہتی ہے۔ ٹھوس شے کے برعکس مائع یا گیس کو حرارت
پہنچائی جائے تو اس کی حرکت تیز ہو جاتی ہے۔ وہ اوپر نیچے دائیں بائیں تیزی سے
پھیلتی ہے۔
ہم کیتلی کو کیتلی دیکھتے ہیں جبکہ
محقق اس کو ذرّات سمجھ کر تحقیق کرتا ہے۔ چولہے پر لوہے (کیتلی) کے جو ذرّات شعلے
کی زد میں ہیں۔ ان کی حرکت میں بہت تیزی ہے اور جو ذرّات شعلے سے دور ہیں، ان کی
حرکت نسبتاً سست ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ذرّات کی سطح پر
کیتلی اور پانی کا مشاہدہ کیا جائے تو سائنس کے مطابق وہاں سست اور تیز حرکت کے
سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ کوئی ذرّہ کسی قسم کا درجہ حرارت نہیں رکھتا۔وہ ٹھنڈا ہوتا
ہے اور نہ گرم۔ اس کی حیثیت صرف ذرّے کی ہے جس کی حرکت تیز یا سست ہوتی رہتی ہے۔
محقق ٹھنڈا یا گرم ہونے کا اندازہ ذرّات میں تیزی یا سستی دیکھ کر لگاتا ہے۔
غیر جانبدار ذہن سوال کر سکتا ہے
کہ سردی گرمی مانوس اور طاقتور احساس ہے۔ ان کی بنا پر جاندار نقل مکانی کرتے ہیں
، موسم کی شدت سے محفوظ رہنے کا بندوبست کرتے ہیں لیکن جب سردی اور گرمی کی اصل
تلاش کی جاتی ہے تو وہاں متحرک ذرّات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ پھر گرمی اور سردی
کیا ہوئی؟ ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا محسوس کر رہے ہیں؟
ج : ڈولفن
اور وہیل کی کچھ اقسام دو لاکھ 20 ہزار ہرٹز فریکوئنسی کی آوازیں پیدا کر سکتی ہیں
اور انہیں سننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ آدمی 20 سے 20 ہزار ہرٹز تک کی آوازیں سن
سکتا ہے۔ آدمی کی سماعت کے اعتبار سے 20 ہرٹز سے کم فریکوئنسی کی آوازیں زیریں صوت
(انفراساؤنڈ) اور 20 ہزار ہرٹز سے زیادہ کی آوازیں بالائے صوت (الٹرا ساؤنڈ )
کہلاتی ہیں۔
سمندر میں گہرائی کی طرف جاتے ہوئے
روشنی کم ہوتی جاتی ہے جس کو اندھیرا کہتے ہیں۔ ڈولفن اور وہیل چھوٹی مچھلیوں کے
علاوہ جھینگے شوق سے کھاتی ہیں۔ جھینگے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں گروہ میں سفر
کرتے ہیں۔
ڈولفن اور وہیل دو لاکھ 20 ہزار
ہرٹز تک کی آوازیں پانی میں نشر کرتی ہیں۔ اس حد میں کوئی جاندار موجود ہو تو یہ
فاصلے اور حجم کا صحیح اندازہ لگا کر پیٹ بھرنے کے لئے وہاں کا رخ کرتی ہیں۔
وہیل اور ڈولفن پر طویل تحقیق قور
تجربات کے بعد نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ آبی مخلوقات آواز کی مدد سے اندھیرے میں
قریب یا دور موجود جان داروں کو ذہن کی اسکرین پر دیکھ سکتی ہیں۔ بالفاظ دیگر
روشنی کے بجائے دیکھنے کے لئے آواز سے کام لیتی ہیں۔ یہ طرز ِ عمل سماعت اور بصارت
کی رائج تشریحات سےمختلف ہے۔
تجزیہ : بصارت
ایک حس ہے جس کا میڈیم روشنی ہے اور آنکھیں اس میڈیم کے ذریعے منتقل ہونے والے عکس
کو ظاہر کرنے کی اسکرین ہیں۔ آنکھیں روشنی کی اطلاعات کو قبول کرتی ہیں اور برقی
اشاروں میں تبدیل کر کے دماغ کو بھیجتی ہیں۔ دماغ ان اشاروں سے تصویر کشی کرتا ہے۔
سماعت کی حس میں ہوا کے ذرّات
میڈیم ہیں۔ ان کی مخصوص حرکات کانوں میں پہنچتی ہیں، کان انہیں برقی اشاروں میں
دماغ کو بھیجتے ہیں اور ہمیں آواز کا احساس ہوتا ہے۔ آواز سے ذہن میں خاکہ بنتا ہے۔
اگر ہم آواز دینے والے سے واقف نہیں ہیں تو ذہن بتاتا ہے کہ آواز نئے فرد کی ہے جس
سے تم واقف نہیں۔ ہم فرد کو دیکھنے کئ لیے اس سمت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے
ہیں جہاں سے آواز آئی ہے۔ لیکن ہم ڈولفن اور وہیل کی طرح آواز کی لہروں کے ذریعے
قریب اور دور کی تفصیلات معلوم نہیں کر سکتے۔
اس کا مطلب کیا ہے؟
آواز سے سماعت کے ساتھ ساتھ بصارت
کا کام لینا ثبوت ہے کہ ہم باہر نہیں اندر دیکھتے ہیں۔
سائنس علم ہے اور علم غیر جانبدار
ہوتا ہے۔ جب علم پر مادیت کی عینک لگا دی جائے تو آنکھ عینک کے دیکھنے کو دیکھتی
ہے اور حقائق پس پردہ چلے جاتے ہی۔ ہم وہ دیکھ رہے ہیں جو محدود نگاہ دکھا رہی ہے۔
اندر میں رنگوں کی تقسیم نہیں۔ تقسیم سے اسپیس ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور فریبِ نظر
پیدا ہوتا ہے کہ سارے رنگ الگ ہیں۔ حالانکہ جتنے رنگ ہیں وہ ایک ایسے رنگ کی تقسیم
ہیں جس میں تغیر نہیں۔ اگر نگاہ شے کو ٹکڑوں میں دیکھنے کی عادت ترک کر دے تو ہم
فریبِ نظر سے آزاد ہو جائیں گے۔۔ خواب کی دنیا واضح مثال ہے۔۔