Topics
ارشاد باری تعالی ٰ ہے :
” زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں
اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندوں لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو
اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی
ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں۔“ (آل
عمران : ۱۹۰۔۱۹۱)
”یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر
میں اور ہر اس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں
ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔“ (یونس : ۶)
دن اور رات کے رد و بدل پر قرآن
کریم میں متعدد آیات ہیں جن میں غور و فکر کی دعوت دی گئی اور ان لوگوں کی صفات
بیان کی گئی ہیں جو اس نظام میں تفکر کرتے ہیں۔ ایسے لوگ عقلِ سلیم کے حامل ہیں۔
قرآن کریم نور ہے جس کی ہر کرن نوع
آدم کو فلاح کے راستہ پہ گامزن کرتی ہے۔ نظام کائنات میں تفکر فرد کو حیوانی شعور
سے نکال کے کائناتی شعور کی وسعتوں کی
آگہی دیتا ہے۔ دن اور رات کے تبدیل ہونے کے نظام میں خالق کائنات کی بے
شمار حکمتیں اور نشانیاں ہیں۔ آئیے ان حکمتوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
ہم جس سیارہ پر آباد ہیں وہ اپنے ”سورج“ سے قریباً 9.3 کروڑ میل دور بتایا جاتا ہے۔ یہ فاصلہ زمین
پر معتدل ماحول کے لیے موزوں ترین ہے۔ فاصلہ کم ہوتا تو زمین سورج سے قریب تر ہونے
کی وجہ سے اتنی گرم ہوتی کہ تمام آکسیجن خلا میں تحلیل ہو جاتی اور پانی محض
بخارات کی صورت میں موجود ہوتا۔ احتمال یہی ہے کہ پانی کے بخارات بھی بتدریج کشش
ثقل سے آزاد ہو کر خلا ئے بسیط میں منتشر ہو جاتے۔ اس کے برعکس زمین کا سورج سے
فاصلہ موجود فاصلہ سے زیادہ ہوتا تو ماحول یخ بستہ ہو جاتا اور برفانی گلیشیئرز کے
سوا یہاں کچھ نہ ہوتا۔
زمین کی سورج کے گرد گردش تقریباً 365.256 دنوں میں مکمل ہوتی ہے، سورج کے گرد زمین
قدرے بیضوی(elliptical)
حالت میں گردش کرتی ہے اس طرح کہ زمین کا سورج سے فاصلہ کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔
اس کے ساتھ زمین اپنے محور کے گرد بھی مسلسل گردش میں ہے۔ زمین کی محوری گردش ، اس
کی طولانی گردش کے عین عمودی (perpendicular)
ہونے کے بجائے قدرے ترچھی ہے۔ یعنی زمین کا محور تقریباً23.4 ڈگری پر جھکا ہوا ہے۔
اس جھکاؤ میں اللہ تعالیٰ کی
بےشمار حکمتیں ہیں۔ نمایاں ترین حکمت یہ ہے کہ اس خم کے سبب زمین پر موسموں میں
پیدا ہونے والا توازن حیات کی نمو کے لئے نہایت موزوں ہے۔ بصورت دیگر موسم میں شدت
سے زندگی کی نشونما ممکن نہ ہوتی۔
زمین کی محوری گردش کا دورانیہ
تقریباً 24 گھنٹے ہے۔ اس گردش کے دوران جو حصہ سورج کے سامنے ہوتا ہے وہاں ہم دن
کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور جو حصہ اندھیرے میں ہوتا ہے اسے رات کہتے ہیں۔
زمین کرہ نما جسم ہے، اس کا نصف
حصہ ہمہ وقت روشن اور دوسرا تاریک ہوتا ہے۔ زمین کے محور میں 23.4 ڈگری جھکاؤ ہے اس وجہ سے یہاں مختلف خطوں
میں دن اور رات کے دورانیہ میں فرق ہے۔ سیارہ زمین کے محور کو اگر عموداً لیا جائے
تو اس محور کے گرد گردش کرنا عرضی سمت میں ہوگا۔
پیمائش میں آسانی کے لیے دونوں
مقداروں کو جغرافیہ دانوں نے فرضی خطوط کی مخصوص تعداد میں تقسیم کیا ہے۔ جو خطوط
شمالی قطب سے جنوبی قطب اور پھر جنوبی سے شمالی قطب تک مکمل دائرہ بناتے ہیں انہیں
”خطوط طول بلد“ کہا گیا ہے ، یہ تعداد میں 360 ہیں۔ ”خطوط عرض بلد “ تعداد میں 181
ہیں۔ تمام طولانی خطوط(longitudes)
یکساں لمبائی رکھتے ہیں جو زمین کا محیط ہے__ ان خطوط کا مرکز ، زمین کا مرکز ہے۔
عرضی خطوط کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ
شرقاً غرباً فرضی خطوط ہیں۔ جیسے جیسے قطبین یعنی شمالی اور جنوبی قطب کے قریب
جائیں ، خطوط عرض بلد کے دائرے چھوٹے ہوتے چلے جاتے ہیں اور قطبین سے فاصلہ بتدریج
بڑھنے سے عرضی دائروں کے قطر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔زمین کے قطبین کے عین درمیان خط
کا فاصلہ قطبین سے اپنی انتہا پر ہے اس خط کو صفر درجہ عرضی خط مانا گیا ہے اور خط
استوا کہلاتا ہے کیونکہ یہ زمین کے عرضی محیط کے عین برابر ہے اور اس کے دائرہ کی
مستوی(plane)
زمین کے مرکز سے گزرتی ہے لہذا یہ عرضی خطوط میں سب سے بڑا خط ہے۔ فرضی طولانی اور
عرضی خطوط کی مختصر وضاحت اگلے مرحلہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ مختلف خطوں میں
دن اور رات کے فرق کو ان خطوط کی مدد سے سمجھنا آسان ہے۔ آیئے ان میں دلچسپ فرق کو
سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
استوائی علاقوں کے دن اور رات : خط استوا گیارہ ممالک میں سے گزرتا ہے جن میں
صومالیہ ، کینیا، انڈونیشیا ، ری پبلک آف کانگو ، یوگینڈا ، ایکواڈور ، گیبون ،
کولمبیا ، ساؤ ٹومے اور پرنسپے کے جزائر اور برازیل شامل ہیں۔ استوائی خطوں کے
دن رات اور موسمی حقائق دلچسپ و عجیب
ہیں۔ رات اور دن سارا سال مستقل بارہ بارہ گھنٹے کے دورانیہ پر مشتمل ہیں اور ان
کے اوقات میں تقریباً کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ طلوع اور غروب آفتاب کا دورانیہ
دنیا کے دوسرے علاقوں کی نسبت سب سے کم ہے کیونکہ سورج ہمیشہ عین افق کے درمیان
عموداً نمودار اور غائب ہوتا ہے۔ دن کا دورانیہ رات سے قدرے زیادہ اس لئے رہتا ہے
کہ طلوع آفتاب سے قبل اور غروب آفات سے کچھ دیر بعد تک فضا میں موجود گیسوں اور
گرد کے ذرّات سے روشنی منعکس یا منتشر ہوتی رہتی ہے۔ بہر حال طلوع اور غروب کے
اوقات یکساں رہتے ہیں۔
دوسرا عجوبہ یہ ہے کہ استوائی خطوں
میں موسم سارا سال ایک رہتا ہے یعنی زیادہ تر علاقے گرم مرطوب ہیں۔ موسم کی
تبدیلی، سردی ، بہار ، خزاں کا یہاں کوئی تصور نہیں۔ البتہ جو علاقے سطح سمندر سے
زیادہ و بلند یا پہاڑی ہیں وہاں موسم سرد
ہے۔ باقی علاقہ انتہائی گرم مرطوب ہے۔ سال میں دو سو (200) دن تک بارش ہونا معمول
ہے۔ آب و ہوا کی یہ صورت حال بیش تر استوائی خطہ کی ہے کیونکہ بعض علاقے مخصوص
حالات کی بنا پر کسی حد تک مستثنیٰ ہیں۔
موجودہ غیر معمولی موسمیاتی
تبدیلیوں کی وجہ سے استوائی خطہ بھی متاثر ہو رہا ہے ، موسم خشک ہونے کی وجہ سے
قحط سالی دیکھی گئی ہے۔ مستقل ایک جیسا موسم اور دن رات کے اوقات یکساں رہنا ایسے
عوامل ہیں جو اس خطہ میں رہنے والوں کے رویوں ، مزاج ، تہذیب ، ثقافت ، معاشرت ، رسم
و رواج ، رنگت اور زندگی کے بے شمار
پہلوؤں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
زیادہ تر استوائی خطہ ہریالی اور
جنگلات سے بھر پور ہے کیونکہ بارشیں اور گرم مرطوب آب و ہوا نباتات کے لیے موزوں
ترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔ آسمان سال کے بیشتر
اوقات میں بادلوں سے دکھا رہتا ہے۔ تاہم یہ صورتحال اب موسمیاتی تبدیلیوں
سے بتدریج تبدیل ہو رہی ہے۔
قطبی علاقوں کے دن اور رات : شمالی اور جنوبی قطب کے علاقوں پر مشتمل خطہ کے
شب و روز میں استوائی خطہ کے برعکس ہیں۔ زمین کا محور 23.4 ڈگری پر جھکا ہوا ہے لہذا ایک وقت میں ایک زمینی قطب کا رخ سورج
کی طرف تو دوسرے قطب کا رخ اندھیرے کی طرف ہوتا ہے۔ قطبین چونکہ محور کے قریب ترین
علاقے ہیں اس وجہ سے محوری گردش کی مقدار دوسرے علاقوں سے کم ترین ہے۔
دوسرے الفاظ میں یہ علاقے استوائی
دائرہ کے برعکس سب سے چھوٹے عرضی دائرہ میں گردش کرتے ہیں چناچہ جس قطب کا جھکاؤ
سورج کی طرف ہے وہاں چھ مہینے تک دن رہتا ہے اور جس وطب کا جھکاؤ اندھیرے کی طرف
ہے وہاں چھ مہینے رات ہوتی ہے۔
خط استوا سے 66 ڈگری شمال اور 66
ڈگری جنوب کی طرف جو علاقے شروع ہوتے ہیں انہیں بالترتیب آرکٹک اور انٹارکٹک کے
نام دیئے گئے ہیں۔ جو علاقے آرکٹک یا انٹا رکٹک کے کناروں پر ہیں وہاں سال میں دو
اہم ترین واقعات کا ذکر ضروری ہے۔
21 جون کو قطب شمالی کی بیرونی حد
یعنی آرکٹک سرکل میں سورج غروب نہیں ہوتا اور افق پہ رہتا ہے۔ اسے آدھی رات کا
سورج(midnight sun)
کہا جاتا ہے کیونکہ جو اوقات رات 12 بجے کے ہیں ان اوقات میں بھی سورج پر معلق نظر
آتا ہے۔
اس سے مختلف صورتحال قطب جنوبی کی
بیرونی حد یعنی انٹارکٹک سرکل(Antarctic circle)
میں ہوتی ہے۔ 21 جون کو اس علاقہ میں سورج طلوع نہیں ہوتا اور مسلسل رات رہتی ہے۔
اسے قطبی رات (polar night)
سے موسوم کیا جاتا ہے۔
جو علاقے خط استوا سے 66 ڈگری سے
مزید اندر کی طرف قطبین کے قریب تر ہیں وہاں ایک قطب میں چھ مہینے دن تو دوسرے
قطب میں چھ مہینے تک رات ہوتی ہے۔ محترم
قارئین! ایسے علاقہ میں سکونت اختیار کرنے کا تجربہ کیسا ہوگا؟
معتدل خطوں کے شب و روز : جو خطے قطبین (شمالی اور جنوبی قطب) اور
استوائی کے درمیان ہیں وہاں مجموعی طور پر موسمیاتی صورتحال اور دن رات کے اوقات
کے حوالہ سے اختلاف ، معتدل ہے۔ شمالی نصف کرہ میں خط سرطان (23.5 ڈگری شمال) اور آرکٹک سرکل (66.5 ڈگری شمال) کے درمیان کا علاقہ ، شمالی
معتدل خطہ ہے۔ دوسری طرف جنوبی نصف کرہ میں خط جدی (23.5 ڈگری جنوب) اور انٹار کٹک سرکل(66.5 ڈگری جنوب) کے درمیان کا علاقہ جنوبی معتدل خطہ ہے۔
ان خطوں میں عموماً چار موسموں کی معروف اصطلاح
استعمال ہوتی ہے کیونکہ سال میں موسم
نمایاں تبدیلیوں سے گزرتا ہے جنہیں گرمی ، سردی ، بہار اور خزاں سے موسوم کیا جاتا
ہے۔ ان میں یورپ ، شمالی ایشیا ، شمالی اور وسطی براعظم امریکہ ، شمالی نصف کرہ
میں جبکہ جنوبی آسٹریلیا ، جنوبی امریکہ اور جنوبی افریقہ ، جنوبی نصف کرہ میں
واقع ہیں۔
پاکستان نیم استوائی علاقہ میں
واقع ہے۔ نہ استوائی خطہ کی طرح سارا سال گرمی پڑتی ہے اور نہ موسم بالکل معتدل
ہے۔ گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے البتہ موسم سرما میں موجودہ غیر معمولی
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سردی کی شدت
میں کمی آگئی ہے۔
معتدل خطوں میں دن اور رات کے
دورانیہ میں موسم بدلنے کے ساتھ نمایاں فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ فرق اتنا
زیادہ نہیں ہوتا کہ دن کے اوقات کار زیادہ تر رات کے حصہ میں چلے جائیں ۔ عموماً
دن اور رات کے دورانیہ میں دو سے چار یا چھ گھنٹے کا فرق آتا ہے۔ زیادہ شمالی اور
جنوبی معتدل حصوں میں یہ فرق آٹھ نو گھنٹوں تک ہو سکتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ معتدل خطے زمین
کے تقریباً 51 فیصد رقبہ پر مشتمل ہیں۔ جو خطے پاکستان کی طرح نیم استوائی ماحول
رکھتے ہیں عموماً معتدل حصہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔
دنیا کی بیشتر آبادی شمالی نصف کرہ
میں آباد ہے کیونکہ خشکی کا حصہ جنوبی نصف کرہ کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ اسی طرح معتدل
خطوں میں آبادی کا تناسب دوسرے خطوں سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ انسانی طبع کے لیے یہ
ماحول موزوں ترین ہے۔ فی الحال انسان کرہ ارض کے تقریباً تمام حصوں پر آباد ہے یہ
الگ بات ہے کہ تمام حصے دریافت ہوئے ہیں یا نہین۔
محترم قارئین ! دنیا کے مختلف خطوں
میں اگر چہ دن اوررات کے دورانیہ میں اختلاف ساوی وقفوں سے لے کر گھنٹوں تک اور چھ
مہینے تک محیط ہو سکتا ہے لیکن کوئی بھی خطہ زمین ، رات دن کے انے جانے سے مستثنیٰ
نہیں۔ دن اور رات کی اصل حقیقت کیا ہے__؟
کیا یہ محض اندھیرے اور روشنی کے دو نام ہیں یا ان کے اندر رب العالمین نے تلاش
کرنے والوں کے لیے گہری حکمتیں رکھی ہیں؟
محترم عظیمی صاحب رقم طراز ہیں:
” قرآن کریم کے مطابق نیند رات ہے
اور بیداری دن ہے۔ باری تعالیٰ کاارشاد ہے
:
” اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے
آتا ہے اور د ن کو رات میں ۔“ (لقمٰن : ۲۹)
” رات سے دن اور دن سے رات نکلانے
والا اللہ ہے۔“ (الحج : ۶۱)
” رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے۔“ (االنور
: ۴۴)
ان ارشادات میں تفکر سے یہ بات سامنے اتی
ہے کہ رات اور دن دو حواس ہیں یعنی زندگی دو حواس میں منقسم ہے یا سفر کرتی ہے۔
ایک کا نام دن اور دوسرے حواس کا نام رات ہے۔ دن کے حواس میں ہمارے اوپر زمان و مکان کی جکڑ بندیاں مسلط ہیں اور رات کے حواس
میں ہم زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔ قانون یہ بنا کہ اگر کوئی انسان اپنے
اوپر رات دن کے وقفہ میں رات کے حواس غالب کرے تو وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد
ہو جاتا ہے اور زمان و مکان سے آزادی دراصل غیبی انکشافات کا ذریعہ ہے۔“
دن اور رات حواس کی دو طرزیں ہیں
لیکن ان دونوں طرزوں کا مخزن ایک ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ہم دن کو رات پر
سے ادھیڑ لیتے ہیں اور رات پر سے دن کو ادھیڑ لیتے ہیں۔ اس آیت میں تفکر طلب بات
ادھیڑنا ہے یعنی دن اور رات ایسے حواس ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے
ہیں ۔ اس کی مثال نیند اور بیداری ہے۔ بندہ جو کچھ بیداری میں کرتا ہے تقریباً وہ
سارے کام خواب میں بھی کرتا ہے، کھانا پینا، چلنا پھرنا، غضب ناک ہونا، رحم دل
ہونا ۔ انتہا یہ کہ جسمانی تقاضے سیکس(sex)
کا پورا ہونا دونوں صلاحیتوں میں متحرک ہے۔ جب ہم دن کے حواس سے آزاد ہو کر رات کے
حواس میں خود کو موجود پاتے ہیں تو وہ تمام کیفیات جو دن میں ہمیں خوش کرتی ہیں ،
دونوں صورتوں میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
ابدال حق قلندر بابا اولیاء ؒ نے
کتاب ” لوح وقلم“ میں ارشاد فرمایا ہے :
” رات اور دن میں جو کچھ رہتا اور بستا ہے وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے ۔
انسان کے ادراک و حواس میں جو کچھ ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر
دیا ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق رات کے حواس سے ہے۔ یہ دو دائرے ہیں یا ان کو حرکت
دوری کی وہ سطح کہیں گے۔ یہ دونوں سطح مختلف حواس کا سر چشمہ ہیں۔ اس ہی وجہ سے
اللہ تعالیٰ نے لیل و نہار کے الگ الگ الفاظ استعمال کئے۔ یہ امر یہاں قابل ذکر ہے
کہ رات کے حواس کو تاریکی ، غنودگی یا نیند کہہ کر غیر حقیقی تصور کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی کے الفاظ سے اس تصور کی تردید ہو جاتی ہے اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ کے نزدیک رات اور دن کے حواس یکساں ، ٹھوس اور حقیقی ہیں۔ اگر ہم ذرا
سا تجزیہ کریں تو یہ بات ہمارے سامنے آجائے گی کہ دن کے حواس کو اجتماعی شہادت
حاصل ہے اور رات کے حواس کو انفرادی۔ لیکن یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی
کہ اجتماعی شہادت میں بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح انفرادی شہادت
میں۔“
رات اور دن دونوں میں تقاضے یکساں
ہونے کے باوجود ایک وضح فرق ہے۔ وہ یہ کہ رات کے حواس میں زندگی کے تقاضے پورے
ہونے کے باوجود اسپیس اور ٹائم وہ نہیں ہوتا جو بیداری میں ہے۔ فاصلے معدوم ہو
جاتے ہیں لیکن اسپیس موجود رہتی ہے۔
دوسری طرف ٹائم یا وقت کی صورت حال
یہ ہے کہ فاصلے (اسپیس) موجود ہونے کے باوجود فاصلوں کی گرفت نہیں رہتی یعنی ہم
فاصلوں یا اسپیس کے طول و عرض کی پیمائش نہیں کر سکتے۔
جب ہم لاشعوری دائرہ کار میں زندگی
گزارتے ہیں تو فاسلے یعنی ما و سال اور وقت کی طوالت یا کمی محسوس نہیں ہوتی جبکہ
اعمال اثر انداز ہوتے ہیں۔ آدمی شعور سے لاشعور میں داخل ہوتا ہے اور ایک منٹ سے
کم وقت میں میلو میل کا فاصلہ طے ہو جاتا ہے۔ زندگی ایسا مرحلہ ہے جس سے گزرے بغیر
زندگی ، بندگی نہیں بنتی۔