Topics

روشنی میں تصّرف

زید تجربہ کار اور ماہر کمہار(کوزہ ) ہے۔ اس کے بنائے ہوئے مٹی کے ظروف نفاست ، خوب صورتی اور اعلیٰ معیار کی وجہ سے مشہور ہیں۔ وہ مٹی کی اقسام اور اس کے اجزائے ترکیبی سے واقف ہے۔ کنکر اور موٹے ذرّات کو مرحلہ وار عمل کے ذریعے باریک ذڑّات سے الگ کرتا ہے۔ باریک ذرّات کو ایک عرصہ تر رکھتا ہے پھر بار بار گوندھ کر کوٹنے کے عمل سے گزارتا ہےتاکہ زرّات کی آپس میں چپک زیادہ سے زیادہ ہو جائے اور کوئی شکل دینے میں آسانی ہو ۔ وہ گوندھی ہوئی نرم مٹی کے ڈھیلے کوچاک(پہیہ جس پر کمہار گُندھی مٹی کو مختلف شکلیں دیتا ہے)    پر رکھتا ہے ، چاک گھماتا ہے اور ہاتھوں سے مٹی کے بہروپ بناتا ہے۔

کسی شکل میں ڈھلنے سے پہلے مٹی کی تیاری ہفتوں اور مہینوں کا وقت لیتی ہے۔ باریک زرّات الگ کرنا ، کوٹنا ، تر رکھنا ، بار بار گوندھنا ، ان میں گھاس یا چھال کے باریک ریشے شامل کرنا پھر گوندھنا اور بالآخر مٹی کا چاک تک پہنچنا ، کمہار کے ذہن کے مطابق نئی نئی شکل میں ظاہر ہونا__کمہار کا مٹی میں تصّرف ہے۔ کمہار نے ذہنی صلاحیتیں مٹی میں مرکوز کیں۔ ارتکاز اور توجہ سے مٹی کی صفات آشکار ہوئیں اور وہ مٹی کو مختلف صورتیں دینے کے قابل ہو گیا۔

مٹی کیا ہے__؟ عناصر اور ان کے مرکبات کا آمیزہ ہے جن کی کمی بیشی سے مٹی کے رنگ اور قسمیں بنتی ہیں۔ تحقیق و تلاش (سائنس) کے مطابق ”عنصر“ ایسا مادّہ ہے جس کے تمام ذرّات تعداد میں ایک جیسے ہیں۔

یہ ایک طرح سے مادے کی مفرد اور منفرد قسم ہے۔ عناصر ٹھوس ، مائع ، گیس ، غیر دھاتی ٹھوس ، بھر بھرے یا دھاتی ہو سکتے ہیں۔ چند ایک دھاتوں کے سوا جو مائع شکل میں ہیں جیسے پارا اور سیزیم ، تمام دھاتیں سختی ۔ لچک، چمک ، چادروں اور تاروں میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بعض دھاتیں اوسط درجے کی اور بعض انتہا درجے میں سخت ہیں۔ دوری جدول  میں لوہا اور لوہے پر مشتمل گروپ (اوپر سے نیچے قطار) تمام دھاتوں اور عناصر سے زیادہ سختی اور مضبوطی رکھتا ہے۔ لوہے کی یہ خاصیت قرآن کریم میں چودہ سو سال پہلے بیان کر دی گئی ہے، جب اسے پرکھنے اور ناپنے کے لئے  مادی طریقہ موجود نہیں تھا۔

” اور ہم نے لوہا نازل کیا۔ اس میں سختی ہے شدید اور لوگوں کے لیے بہت سے فوائد ہیں۔“                (الحدید : ۲۵)

تمام عناصر مٹی یا مادے کے روپ ہیں۔ کسی عنصر یا عناصر کے ایک گروہ میں غور و فکر ، طبعی اور کیمیائی   خصوصیت معلوم کرنا ، انہیں مختلف طریقوں سے استعمال کرنا اور نئی ایجادات ، مٹی میں تصرف کرنا ہے۔ جن اقوام نے لوہے میں تفکر کیا ، لوہے کی صفات اُن پر آشکار ہوتی گئیں اور ہزاروں ایجادات ظاہر ہوگئیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے ۔ آج ہر ایجاد اور ٹیکنالوجی میں لوہے کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔

مثال :     کمپیوٹر پہلے بھاری بھر کم ،زیادہ بجلی خرچ کرنے اور بہت کم کارکردگی کی حامل سست مشین تھی۔

 نیم موصل  عناصر جیسے سلیکان ، سنکھیا ، سرمہ اور بسمتھ وغیرہ کی خصوصیات معلوم ہونے سے کمپیوٹر کا حجم کم ہوتا گیا اور کارکردگی زیادہ ہوتی گئی ۔ آج ان نیم موصل مادوں کی بدولت موبائل فون طاقتور کمپیوٹر کی شکل میں ہر فرد کی جیب میں ہے۔

تمام ایجادات مٹی یا مادّے کی مختلف اقسام میں ” تصرف“ کا نتیجہ ہیں۔ ایک نکتہ سب میں مشترک اور قابل توجہ ہے۔ مٹی کے برتن جیسی سادہ اور کمپیوٹر جیسی پیچیدہ ، ایجاد تک ، سب کے اجزائے ترکیبی ، ان کے لئے درکار توانائی اور وسائل پہلے سے موجود ہیں۔

 

کمہار ، انجینئر اور محقق کوئی شے نئے سرے سے نہیں بنا سکتے۔ وہ زمین میں موجود وسائل کو اکٹھا کرتے ہیں پھر کم و بیش مقداروں کو یکجا کر کے نئی چیز بناتے ہیں۔ سادہ مثال ہے کہ پانی ، دودھ ، شکر ، پتی ، چولہا اور ایندھن پہلے سے موجود ہیں۔ زید ان کو یکجا کر کے چائے تیار کرتا ہے لیکن ہر جز کو الگ اور نئے سرے سے تخلیق کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔

اس دور کو سائنسی ایجادات کی معراج قرار دیا جاتا ہے لیکن آثار ِ قدیمہ سے ظاہر شواہد بتاتے ہیں کہ ماضی میں اس سے زیادہ ایجادات اور ترقی ہو چکی ہے۔ اہرام مثال ہیں۔

قرآن کریم میں ایجاد و تصرف کا ایک رخ اور بیان کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

”میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل بناتا ہوں اور پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔“    (آل عمران  :  ۴۹)

 ” اس شخص نے کہا کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا ، میں اسے آپ کے پاس لے کر آتا ہوں ، اسسے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے۔“  (النمل :۴۰)

اللہ نے حضرت ابراہیم ؑ کو چار پرندے ذبح کر کے ، چاروں کے ٹکڑے ملا کر پھر الگ الگ پہاڑوں پر رکھنے کا حکم دیا۔

” پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دو پھر انہیں پکارو ، وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے ۔“

(البقرۃ   :   ۲۶۰)

حضرت عیسیٰؑ کا مٹی سے پرندے بنانا، ان میں پھونک مارنا ، ذبح شدہ ٹکڑوں میں تقسیم ، پرندوں کا حضرت ابراہیم ؑ کی آواز پر اصل حالت میں آ موجود ہونا ، حضرت داؤد ؑ کے ہاتھوں میں لوہا پگھلنا ، بھاری بھر کم تختِ بلقیس کا مادی وسیلے کے بغیر پلک  جھپکنے سے پہلے سینکڑوں میل دور منتقل ہونا ، خاتم النبین حضرت محمدﷺ کے معجزات جیسے چاند کا دو ٹکڑے ہو کر یکجا ہونا، غروب ہونے والے سورج کا واپس آنا، یہ مادی وسائل کے بغیر تصرفات ہیں۔

انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات متوجہ کرتے ہیں کہ تصرف کی یہ نوعیت جس سے اشیا کی ماہیت قلب ہو جائے ، محض مادی وسائل میں تصرف نہیں بلکہ یہ تصرف ایسی سطح پر ہے جو مادے سے ماورا ہے اور مادی وجود کے قیام کی بنیاد ہے۔ یہ کون سی سطح ہے اور مادی سائنس ابھی تک اس کو دریافت کیوں نہیں کر سکی؟

مادی علوم چونکہ مادے پر اکتفا کرتے ہیں اس لئے مادے کی حدود سے باہر کسی بھی شے کو جاننا ان کے دائرے میں نہیں آتا۔ محقق یہ جاننے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ مادے کی انتہا روشنی ہے یعنی روشنی چکر کھا کر ، گندھی ہوئی صورت میں ذرات کی شکل اختیار کرتی ہے جن میں ثقل موجود ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ روشنی مادے کی اصل ہے لیکن تخت دور کی بات ، وہ ابھی تک ٹھوس نظر آنے والی پنسل کو روشنی اور روشنی کو ٹھوس پنسل میں منتقل نہیں کر سکے۔

کیا ابھی تک ایسی ایجاد ہو سکی ہے جس کا حتمی نتیجہ صرف روشنیوں کا مجموعہ ہو؟ چند ایجادات کسی نہ کسی طور اس ضمن میں شمار کی جا سکتی ہیں۔

۱۔      ہولو گرافی :  ہولو گرام روشنیوں سے بنی سہ جہتی تصاویر ہیں۔ فضا میں روشنیوں سے بنے اجسام کھلی آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں۔

۲۔     روشنی سے کی جانے والی مجسمہ سازی:  یہ ہولو گرافیسے ایک مختلف طریقہ ہے جس میں ہوا کے ذرّات اور لیزر کی مدد سے فضا میں معلق یا تیرتی ہوئی سہ جہتی اشکال بنائی جاتی ہیں۔

مادے اور روشنی کے امتزاج پر مشتمل چند ایجادات کا ذکر  بھی ضروری ہے۔

۱۔  فوٹو لیتھو گرافی:  روشنی سے بنے پیٹرن لیزر کی مدد سے نیم موصل مادوں پر کندہ کئے جاتے ہیں ۔ اس طریق پر مائیکرو چپس بنائی جاتی ہیں۔

۲۔ لیزر سے کٹائی اور نقاشی :  لیزر کی مدد سے اشیا کو مختلف شکلوں میں کاٹا جاتا ہے اور ان پر نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔

ہولو گرافی اور لیزر سے بنائے جانے والے پیٹرن اور متحرک تصاویر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ صرف روشنیوں کی مدد سے ایسا کیا جا رہا ہے جب کہ ان میں واضح طور پر مادی آلات کا عمل دخل ہے۔ مادی حواس اور ان پر مبنی علوم کی مجبوری ہے کہ وہ مادے کی عینک کے بغیر دیکھنے سے قاصر ہیں تاہم ایسی ایجادات جن میں روشنی کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے ، باقی ایجادات سے  کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔

روشنی کو روشنی کے حواس سے سمجھا جائے تو تخلیق اور تدبیر کی وہ جہتیں آشکار ہو سکتی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔

مادے اور روشنی میں تصرف کے حوالے سے ” نظریہ رنگ و نور“ کے بانی محترم عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں۔

” ایک تصرف ہے جو وسائل میں کیا جاتا ہے۔ ان وسائل میں جن کا ظاہری وجود ہمارے سامنے ہے۔ جس طرح لوہا ایک وجود ہے، اسی طرح روشنی بھی ایک وجود ہے۔ وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کرتا ہے تو جس طرح لوہے (دھات) میں تصرف کے بعد وہ عظیم مشینیں ، ریل گاڑیاں ، کنکارڈ ، بڑے بڑے ہوائی جہاز ، میزائل ، نیپا بم ، خلائی اسٹیشن ، بحری جہاز اور دوسری چھوٹی بڑی ایجادات میں لوہے کو استعمال کرتا ہے،اس طرح روشنیوں کا علم حاصل کر کے وہ روشنیوں کے ذریعے بہت ساری تخلیقات وجود میں لے آتا ہے۔“

روشنی میں تصرف کیا ہے اور کس طرح ہوتا ہے ، خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں،

اللہ اپنی تخلیق میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ جب وہ کوئی چیز تخلیق کرتا ہے تو تخلیق کے لئے جتنے وسائل موجود ہونا ضروری ہیں ، وہ خود بہ خود موجود ہو جاتے ہیں جبکہ بندے کا تصرف یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تصرف کرتا ہے اور یہ تصرف دو طرح  سے ہوتا ہے۔ ایک طریقہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل مجتمع کر کے کوئی نئی چیز بنائی جاتی ہے اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرف کرنا ہے یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے، ان روشنیوں میں حرکت دے کر تصرف کیا جاتا ہے۔ تصرف کا یہ طریقہ انسان کے اندر روشنیوں سے متعلق ہے۔ روشنیوں کے اس ذخیرے کو حاصل کرنے کا طریقہ ہی دراصل روحانیت ہے۔ روحانیت میں یہ بات روشن دن کی طرح سامنے آ جاتی ہے کہ زمین پر موجود  یا کائنات میں موجود ہر شے کی بنیاد اور بساط روشنی ہے اور یہ روشنی اللہ کی صفت ہے۔“

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم