Topics
قدیر و حکیم اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے،
” یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور ابل پڑا تو ہم نے
کہا، ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی۔
سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے ، اس میں سوار کرا دو اور ان
لوگوں کو بھی بتھا لو جو ایمان لائے ہیں ۔ اور تھوڑے لوگ تھے جو نوح علیہ السلام
کے ساتھ ایمان لائے تھے۔“ ( ھود : ۴۰)
” ہم نے اس پر وحی کی کہ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے
مطابق کشتی تیار کر۔ پھر جب ہمارا حکم اجائے اور وہ تنور ابل پڑے تو ہر قسم کے
جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا اور اپنے اہل و عیال کو بھی
ساتھ لے سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے فیصلہ ہو چکا ہے اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے
کچھ نہ کہنا۔ یہ اب غرق ہونے والے ہیں۔“ (المؤمنون
:۲۷)
ان آیات میں تنور کا ذکر ہے۔ لفظ تنور اردو میں عام
ہے۔ اس کا معنی زمین کے اندر ایک گڑھے کی مانند پختہ بناوٹ ہے جس میں آگ جلا کر
روٹیاں پکائی جاتی ہیں۔ یہی معنی عربی بول چال میں لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اردو
اور پنجابی میں اس لفظ کی ایک معمولی تبدیل شدہ شکل ں آگ جلا کر روٹیاں پکائی جاتی
ہیں۔ یہی معنی عربی بول چال میں لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اردو اور پنجابی میں اس
لفظ کی ایک معمولی تبدیل شدہ شکل تندور بھی استعمال ہوتی ہے۔
عربی لغات میں تنور کا بنیادی مادہ نور بیان
کیا گیا ہے یعنی روشنی ۔ چونکہ زمین میں گڑھے جیسی ساخت میں آگ روشن کی جاتی ہے تو
تنور کا معنی روشن کیا گیا بھی ہے۔۔ ایسا گڑھا جو آگ کے جلنے یا انگارے
دہکنے سے روشن ہو۔
تنور کا دوسرا معنی زمین سے پھوٹنے والا گرم چشمہ ہے۔ اکثر
ایسے چشموں کا پانی جوش کھاتے ہوئے زمین سے نکلتا ہے اور بعض اوقات فضا میں کئی فٹ
تک بلند ہوتا ہے۔
قرآن کریم کی جن دو آیات میں تنور کا ذکر ہے ، وہ طوفانِ نو ح
علیہ السلام سے متعلق ہیں۔ آیات کے مطابق طوفان کا حکم ہوتے ہی تنور ابلنے لگا۔
پہلے زمین کے اندر سے پانی نکلنے کا آغاز ہوا پھر باد و باراں بھی طوفان میں شامل
ہو گئے۔ اس طرح طوفان میں شدت آئی اور دنیا غرق ہو گئی۔
۱۔ یہ تنور جس میں سے پانی ابلنا شروع ہوا ، زمین میں کہاں
واقع تھا۔۔؟
۲۔ تنور کی اصل کیا ہے۔۔۔؟
قرآن کریم کی آیات میں غورو فکر سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ
تنور کسی ساخت یا شے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک نظام ہے جو قدرت کی منشا سے مخصوص
وقت میں حرکت میں آتا ہے اور خشک زمین کو پانی میں گم کر دیتا ہے۔
نظریہ رنگ و نور کے بانی محترم عظیمی صاحب نے عراق کے تاریخی
شہر کوفہ سے متعلق اپنے کالم ” صدائے جرس “ میں لکھا ہے،
” وہ تنور بھی یہیں کہیں تھا جہاں سے عظیم سیلاب پھوٹا تھا۔“
مؤرخین اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔
کوفہ دریائے فرات کے کنارے عراق کا ایک مشہور و معروف اور
ممتاز شہر ہے۔ عظیم سیلاب کا آغاز یہاں سے ہوا پھر خشک زمین کے ساتھ ساتھ دنیا کے
بلند ترین پہاڑ بھی ڈوب گئے۔
دنیا کے نقشے پر کوفہ کا علاقہ ایک نقطے کی مانند ہے جس میں
تنور کا مقام پھر ایک بہت ہی مختصر یا چھوٹے نقطے جیسا ہے ۔ خواتین و حضرات ! عظیم
سیلاب اور اس کی ابتدا پر غور کریں تو تنور کے میکانزم کی تشریح روشن ہوتی ہے۔
عظیم سیلاب کا آغاز پہلے ایک نقطے یا تنور سے ہوا پھر درجہ
بدرجہ زمین میں موجود دیگر تنانیر(تنور کی جمع)
ابلنے لگے۔ ساتھ ہی آسمان سے تیز بارش برسنے کا
سلسلہ جاری رہا۔
نکتہ: زمین سے پھوٹنے والے چشموں کے بارے میں قرآن
کریم میں لفظ عین استعمال ہوا ہے جس کا لغوی معنی آنکھ ہے۔ اردو لفظ
چشمہ دراصل اسی لفظ کا ترجمہ ہے۔۔۔ زمین کی آنکھ یا شگاف جہاں سے پانی نکلتا ہے۔
قرآن کریم میں چشموں کے ابلنے اور بہنے کا کئی بار آیات میں
ذکر ہے۔ جنت میں بھی چشموں کی موجودگی کا تذکرہ ہے۔ زمین کے تقریباً ہر پہاڑی خطے
میں چشمے ہیں۔
دنیا کے قدیم چشموں میں سے ایک ”زم زم“ ہے جو ابوالا نبیا
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے جاری ہے۔ آج تک اس میں پانی کم یا ختم نہیں
ہوا۔ سال بھر مختلف ممالک سے لاکھوں زائرین آتے ہیں اور زم زم کا ہدیہ ساتھ لے
جاتے ہیں۔ یہ چشمہ ہزاروں سال جاری ہے۔
طوفانِ نوح علیہ السلام کے بعد اب تک دنیا میں کسی مسلسل بہتے
ہوئے چشمے سے یہ صورت تا حال پیدا نہیں ہوئی کہ وہ سیلاب بنے اور آس پاس کا علاقہ
ڈوب جائے یا دنیا کے تمام چشموں کا پانی عظیم سیلاب میں تبدیل ہو جائے بلکہ چشموں
کا پانی اکٹھا ہو کر دریا کی شکل میں بہنے لگتا ہے، زمین کی پیاس بجھاتے اور اسے
زر خیز بناتے ہوئے سمندر کے پانی سے جا ملتا ہے۔
طوفانِ نوح علیہ
السلام میں تنور کا ابلنا ، کسی چشمے کے ابلنے سے مختلف صورتِ حال کا پیدا
ہونا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایسے حالات میں چشمے ، تنور میں تبدیل ہو جائیں اور زمین
ایک بڑے طوفان کی زد میں آجائے۔
طوفانِ نوح علیہ السلام ختم ہوتے ہی باد و باراں کا سلسلہ رک
گیا اور تنور ابلنا بند ہوگئے لیکن زمین کے مختلف مقامات پر چشمے بہتے رہے اور آج
بھی بہہ رہے ہیں کیوں کہ اگر چشمے بہنا بند ہو جائیں تو دریا خشک ہو جائیں گے اور
زمین پر پانی سوالیہ نشان بن جائے گا۔
تنور کی سائنسی
توجیہ : ارضیاتی تحقیقات کے امریکی سرکاری ادارے UCGS کے مطابق
اب تک معلوم نہیں کہ زمین پر موجود گلشیرز اور قطبین کی جمی ہوئی برف میں پانی کی
کُل مقدار کتنی ہے البتہ انہوں نے قیاس کیا ہے کہ اگر یہ سب پگھل جائیں تو سمندروں
میں پانی کی سطح 70 میٹر تک بلند ہو سکتی ہے جس سے دنیا کے تمام ساحلی شہر سیلاب
کی نذر ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ ایک اندازہ ہے کیوں کہ محققین کو نہیں معلوم کہ برف
کے ذخائر میں پانی کتنا ہے۔ اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ ظاہری علوم سے وابستہ ماہرین
سمجھتے ہیں کہ زمین کے تمام خشک حصوں کا غرق آب ہونا بہت مشکل ہے۔ ان کے نزدیک غیر
معمولی شدت کے زلزلوں سے کسی حد تک ایسا ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرہ ارض کے
خشک علاقے بشمول کوہستانی سلسلے زیر آب آنے کے لیے ، تمام سمندروں کے پانی سے دگنا
پانی موجود ہونا ضروری ہے۔
ایک دور کی کوڑی یہ لائی جاتی ہے کہ اگر قشرِ ارض جسے زمین کا
سب سے بڑا بیرونی پرت قرار دیا جاتا ہے، رفتہ رفتہ زیر زمین لاوے کے ذخائر میں حل
ہوتا رہے تو پوری زمین ڈوب سکتی ہے۔
2014 میں کینیڈا کی یونیورسٹی آف البرٹا کے ماہرین نے برازیل
میں تحقیق کے دوران چند ہیرے دریافت کئے جن کے اندر پانی کی معدنیات مرکب حالت میں
موجود تھیں۔ تحقیق کے دوران ماہرینِ ارضیات نے اندازہ لگایا کہ ان مخصوص ہیروں کی
پیدائش کا مقام سطح ِزمین سے 400 میل یا 640 کلو میٹر نیچے ہو سکتا ہے جسے وہ Transiction Zone
کا نام دیتے ہیں۔
حیرانی یہ تھی کہ زمین کی اتنی گہرائی میں پانی کیسے موجود ہے
کیوں کہ زمین پر سمندروںکی حتمی گہرائی 11،022 میڑ یا تقریباً گیارہ کلو میٹر تک
دریافت کی گئی ہے۔ ماہرینِ ارضیات کے مطابق اس سے نیچے پانی موجود ہونا مشکل ہے،
خصوصاً 600 کلو میٹر کی گہرائی میں ناممکن ہے لیکن ہیروں کی دریافت سے یہ بات
مفروضہ ثابت ہوئی۔ اب محققین سمجھتے ہیں کہ زمین کے بیرونی پرت کی ٹیکٹونک پلیٹوں
کے نیچے ایک نامعلوم دنیا آباد ہے
زمین کی اندرونی ساخت کے حوالے سے مفروضات پر مبنی نقشے تیار
کئے گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک محققین کی قشرِ ارض (Earth Crust) سے
آگے رسائی نہیں ہے۔قشرِ ارض میں ابھی تک سب سے گہرا سوراخ محض 12 کلو میٹر تک کیا
جا سکا ہے۔ روس کے جزیرہ نما علاقے کولا میں یہ کولا کے کنوئیں
کے نام سے موجود ہے۔
زمین کی پلیٹوں کی حرکت پر تحقیق سے حاصل ہونے والے مواد (Seismic Data) سے
محققین اب قائل ہیں کہ سمندر کے فرش اور قشرِ ارض سے بہت نیچے سمندروں جیسے آبی
ذخائر کا موجود ہونا ممکن ہے ، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ جب ارضیاتی پلیٹیں اپنے
کناروں پر ایک دوسرے سے رگڑ کھاتی ہیں تو سمندروں کا پانی ان دَرزوں (Rifts) سے نیچے
، پانی کے وسیع ذخائر سے متصل ہو سکتا ہے۔ اس طرح پانی نچلے ذخائر سے دباؤ کے تحت
اوپر سمندروں کے پانی میں شامل ہو کر ان میں غیر معمولی اضافہ کر سکتا ہے اور اپنی
حالت میں واپس بھی جا سکتا ہے۔
2014ء کے بعد مزید ایسے ہیرے دریافت ہوئے جن میں پانی کی مرکب
معدنیات وافر مقدار میں ملیں۔ اب ارضیاتی ماہرین زمین کے درمیانی پرت جسے انہوں نے
مینٹل (Mantle) کا نام دیا ہے ، میں سمندروں جیسے آبی ذخائر کی موجودگی کے قائل
ہیں۔
اس سے دو اشارے ظاہر ہوتے ہیں۔
¨ زمین کی اندرونی ساخت اور
ہیئت کے بارے میں بہت کچھ جاننا باقی ہے اور اس حوالے سے موجودہ علم تربوز کے
بیرونی باریک گہرے سبز چھلکے سے آگے ختم ہو جاتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ سبز چھلکے کی
موٹائی کے بارہویں حصے تک محض ایک سوراخ کیا جا سکا ہے۔ تربوز کی ساخت اور اس کے
اندر کیا ہے ،اس پر مفروضے موجود ہیں لیکن مشاہدہ نہیں ہے۔
¨ براعظمی پلیٹوں کے کنارے
جہاں ملتے ہیں ، وہاں زیادہ دباؤ کا کنارہ ، کم دباؤ کے کنارے کو زیر ِ زمین
دھکیلتا ہے ۔ اس سے پیدا ہونے والی درز ، قشر ارض سے شروع ہو کر نچلی تہ تک جاتی
ہے اس طرح اوپر موجود سمندروں کا پانی نیچے موجود آبی ذخیرے سے مل جاتا ہے۔ فی
الحال دستیاب ارضی سائنس کی تحقیق کے مطابق درز یا شگاف کی اس توجیہ سے ” تنور “
کے ابلنے ے میکانزم کو کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔
عظیم سیلاب یا طوفان جس تنور سے شروع ہوا ، وہ عراق کے شہر
کوفہ میں ایک مقام ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی کے ارضیاتی
اور براعظمی سائنس کے شعبے ، اور مشرق وسطیٰ کے ملک شام کے پیٹرعلیم کے سرکاری
ادارے کی تحقیقات کے مطابق عراق میں دریائے فرات جس کے کنارے کوفہ شہر واقع ہے ،
دراصل دو براعظمی پلیٹوں ۔۔۔ عرب پلیٹ اور یوریشن پلیٹ کے سنگم پر واقع ہے۔ دیگر
اداروں کے ارضیاتی سروے میں اس کی تصدیق کی گئی ہے۔ پلیٹوں کے جوڑ کے عین اوپر
تنور ابلنے کا آغاز ہونا معنی خیز ہے۔۔ اس طرح یہ سمجھنا آسان ہے کہ اس تنور کے
بعد زمین کی دوسری پلیٹوں کے باہم متسل کناروں پر تنور ابلنے کا عمل ممکن ہے۔
زمین پر موجود چشمے زیر ِ زمین آبی ذخائر سے پانی حاصل کرتے
ہیں۔ یہ آبی ذخائر قشر ارض میں ہی واقع ہیں لیکن طوفانِ نوح علیہ السلام جیسی
صورتِ حال میں ، قدرت انہیں زمین کے نچلے طبقے کے پانی سے ملا دیتی ہے اور چشمے ،
تنور میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ زمین کے طبقعات کو ملانے اور بند کرنے والے طاق کہاں
واقع ہیں اور انہیں کون کھولتا یا بند کرتا ہے؟
قرآن کریم میں ہے ،
” اور تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟“
طوفانِ نوح علیہ السلام سے متعلق محترم عظیمی صاحب کی تحریر
کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔
” حضرت نوح علیہ السلام کو حکم ہوا اپنے ماننے والوں
کے ہمراہ کشتی میں سوار ہو جائیں اور ہر جاندار کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لیں۔
جب وحیِ الہٰی کی تعمیل ہو گئی تو حکم ہوا،
اے پانی ! برسنا شروع ہو جا۔“
اور زمین کے چشموں کو حکم دیا گیا،
'وہ پوری طرح ابل پڑیں۔؛
باد و باراں کے اس عظیم طوفان میں حضرت نوح علیہ
السلام کی کشتی بحفاظت تیرتی رہی۔ طوفانی ہواؤں اور بارش کا سلسلہ ایک مدت تک جاری
رہا یہاں تک کہتمام منکرین غرق آب ہو گئے اور مکافاتِ عمل کے قانون کے مطابق انجام
کو پہنچ گئے۔“
}خواتین و حضرات۔۔۔ یہ الفاظ کہ ” وہ پوری طرح ابل
پڑیں“ تنور کے نظام اور طرز عمل کو سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔