Topics

آئن اسٹائن کے انتقال کے بعد

ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اور ستاروں کے درمیان وسیع خلا ہے لیکن اسٹرنگ تھیوری کے مطابق زمین پر اور خلا میں لا شمار ڈائی مینشن موجود ہیں اور ہر ڈائی مینشن ایک دنیا ہے۔عالمین کے خالق اللہ کا ارشاد ہے،

”آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب کا رب ہے۔ اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔“

(الدّخان : ۷)

زمین سیارہ ہے جس پر بے شمار مخلوقات آباد ہیں، براعظم اور سمندر ہیں، میدان ، ریگستان، پہاڑ اور جنگلات ہیں۔ قرآن کریم میں عالمین کا لفظ ایک سے زائد مرتبہ ہے۔ ہماری زمین کی طرح کائنات میں بے شمار زمینیں ہیں۔

چند دہائیاں پہلے محققین اور ماہرینِ فلکیات تسلیم کرنے سے گریزاں تھے کہ زمین کے علاوہ بھی کائنات میں بہت آباد سیارے یا زمینیں ہیں۔ جدید دور بینیں ایجاد ہونے کے بعد وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری زمین کے علاوہ کائنات میں لاشمار زمینوں کی موجودگی ممکن ہے۔

قرآن کریم میں سماوات کا بھی ذکر ہے۔ مادی علوم سماوات کی تشریح سے قاصر ہیں کہ زمین کے شعور سے سماوات کو سمجھنا اور ان میں داخل ہونا ممکن نہیں__ زمینی شعور میں رہتے ہوئے زمین سے نکلنا بھی ناممکن ہے۔

” اے گروہ جن و انس! تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل دکھاؤ ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔“        (الرحمٰن : ۳۳)

سماوات ، زمین اور ان کے درمیان: قرآن کریم میں یہ تین حصے کئی آیات میں یکساں وزن کے ساتھ اکٹھے بیان ہوئے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ ” وما بینھما“ میں وضاحت ہے کہ زمین اور آسمان کے درمیان دنیائیں آباد ہیں۔

سائنسی تحقیقات اور نظریات :

۱۔ کائنات کی بنیاد کس شے پر ہے؟

۲۔ ابعاد (Dimensions) کی حقیقت کیا ہے؟

اس موضوع پر تحقیق و تلاش ( سائنس) کا سفر دلچسپ ہے۔ تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونانی فلسفی ویمقراطس نے کہا کہ مادی کائنات کی بنیاد انتہائی چھوٹے ذرّات ( ایٹموں) پر ہے۔ دیمقراطس کے ہم عصر فلسفی اور ریاضی دان فیثا غورث نے مختلف نظریہ پیش کیا کہ کائنات ارتعاش یا وئبریشن پر مبنی ہے اور ا س ارتعاش کو آواز بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق ہر شے ارتعاش کی مخصوص فریکوئنسی ہے۔

دیمقراطس کے ایٹمی نظریے کو زیادہ پذیرائی ملی۔ تقریباً دو ڈھائی ہزار سال بعد دریافت ہوا کہ ایٹم جزوِ لا تجزّا نہیں ہے بلکہ مزید ذرّات پر مشتمل ہے اور یہ ذرّات بھی کئی چھوٹے ذرّات پر مشتمل ہیں اس کے بعد ہر سال نئے قسم کے ذرّات دریافت ہونے لگے اور تعداد دو سو سے تجاوز کر گئی۔ ابتدا میں اس پر نوبیل انعام دیئے گئے۔ تعداد بڑھنے پر نوبیل انعام دینے والے ادارے کو فکر لاحق ہو گئی۔

نیا نظریہ پیش ہوا کہ بعض ذرّات کسی محرک کی بنا پر یا وقت گزرنے کے ساتھ دوسری قسم کے ذرّات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ محقق یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ایٹمی اور ذیلی ذرّات کی بیناد ایک ہی شے ہے اور یہ روشنی یا توانائی کی لہریں ہیں جو ڈوریوں کی صورت میں حرکت کرتی ہیں ۔ یہاں سے نظریہ خیوط وجود میں آیا جسے انگریزی میں String Theory کہتے ہیں۔

خیوط__ خیط کی جمع ہے جس کے معانی فیتے ، ڈوریاں یا لہریں ہیں یعنی توانائی کی چھوٹی چھوٹی لہریں فیتوں کی شکل میں ہیں۔ جس طرح ڈوری یا فیتے کو اوپر نیچے حرکت دینے سے سینکڑوں اقسام کی فریکوئنسی کی لہریں پیدا ہوتی ہیں ، اسی طرح توانائی کے فیتے مختلف فریکوئنسی کی لہروں میں حرکت کرتے ہیں اور ہر حرکت سے ایک ذرّہ پیدا ہوتا ہے۔

(مثال: بچے کے ہاتھ میں لچک دار فیتے کا سرا ہے جس کا مخالف سرا دیوار پر کیل سے بندھا ہوا ہے۔ بچہ فیتے کو حرکت دیتا ہے تو مخصوص لہریں پیدا ہوتی ہیں جس سے الیکٹران وجود میں آتا ہے۔ بچہ فیتہ ہلانے کی تعداد تبدیل کرتا ہے یعنی دوسری فریکوئنسی میں فیتے کو حرکت دیتا ہے تو اس سے پروٹان ، تیسری فریکوئنسی سے نیوٹران ، چوتھی فریکوئنسی میں ہلانے سے پازیٹران اور پانچویں میں حرکت دینے سے نیوٹر ینو وجود میں اتا ہے۔ الغرض رسّی یا فیتے میں پیدا ہونے والی ہر لہر مختلف ذرّات کو جنم دیتی ہے۔ اس طرح اسٹرنگ تھیوری کے مطابق ہر قسم کے ایٹمی ذرّات کی بنیاد ایک ہی تونائی یا روشنی ہے۔

اس نظریے کو بڑی پذیرائی ملی نامور محققین نے اسے آئن اسٹائن کی جدو جہد کی تکمیل قرار دیا۔ آئن اسٹائن نظریہ اضافیت اور کشش ِ ثقل کا نیا نظریہ پیش کرنے کے بعد ایسے نظریے کی تلاش میں تھا جو کائنات کی تمام توانائی اور عوامل کی یکجا طور پر وضاحت کرے۔ اس نے اسے Theory Of Evrything کا نام دیا۔ اردو میں اسے نظریہ کل شئی کہا جاتا ہے۔

اس قسم کے نظریے کی تلاش میں بہت مشکل پیش آئی۔ وجہ یہ تھی کہ اس سے پہلے اس پیش کئے گئے نظریہ اضافیت میں مادے کی پیمائش ، اس کی ایٹمی سطح کی تحقیق ، کشش ِ ثقل کے ضمن میں زمین ، چاند ، سورج ، سیارے اور ستارے حوالے کے طور پر موجود تھے مگر تھیوری آف ایوری ٹھنگ کی تشکیل کے لیے کوئی مادی حوالہ موجود نہیں تھا۔ آئن اسٹائن اس صورتِ حال سے فکر مند رہنے لگا۔ زندگی کی مہلت ختم ہوئی اور کوشش ادھوری رہ گئی۔

کوانٹم طبیعات میں جب یہ دریافت ہوا کہ چھوٹے ایٹمی ذرّات مثلاً الیکٹران ایک ہی لمحے میں دو جگہ پر موجود ہو سکتے ہیں اور ایک ہی لمحے میں ایک جگہ تخلیق پانے والے ایٹمی ذرّات خواہ مخالف کناروں پر ہوں ، ان میں ایک خاص رابطہ رہتا ہے تو آئن اسٹائن اور کوانٹم طبیعات کے ماہرین کے لیے یہ دریافت بہت عجیب تھی کیوں کہ اس سے ایک طرف نظریہ اضافیت میں ابہام پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ نظریہ روشنی کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آئن اسٹائن کے انتقال کے بعد جب اسٹرنگ تھیوری آئی تو محققین خصوصاً نظریاتی و ریاضیاتی ماہرینِ طبیعات نے اسے بخوشی قبول کر کے تھیوری آف ایوری تھنگ کی بنیاد قرار دیا۔ یہ تھیوری کائنات میں تمام قوتوں اور مظاہر کو یکجا طور پر سمجھنےمیں مددگارر ہی البتہ تجرباتی طور پر ثابت نہ ہونے کی وجہ سے محققین کی ایک بڑی تعداد اس نظریے پر تنقید کرتی ہے پھر بھی ان کے لئے اسے رد کرنا مشکل ہے کیوں کہ ریاضی میں اس کی جڑیں گہری ہیں۔

دوسرا یہ کہ ایٹم کے زیلی ذرّات کی بنیادی ساخت کے بیان کے لیے فی الحال اس سے بہتر کوئی نظریہ ان کے پاس نہیں۔

دلچسپ خصوصیات : اسٹرنگ تھیوری بیک وقت لاشمار کائناتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس امکان کو Multiuniverse کہا جاتا ہے۔ یہ نظریہ تین جہات ( تھری ڈائی مینشن) کی بجائے بہت سی جہتوں یا ڈائی مینشن کی موجودگی کا انکشاف کرتا ہے۔

مثال : رات کو ستارے نظر آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اور ستاروں کے درمیان وسیع خلا ہے لیکن اسٹرنگ تھیوری کے مطابق زمین پر اور خلا میں لاشمار ڈائی مینشن موجود ہیں اور ہر ڈائی مینشن ایک دنیا ہے۔

اعتراضات : یہ نظریہ زیادہ تر ان چیزوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جنہیں مادی طور پر پرکھا نہیں جا سکتا۔ اس کی حمایت اور رد میں محققین میں گروہ بن چکے ہیں۔جنہوں نے اس نظریے میں پی ایچ ڈی کی ہے ، وہ اسے انقلابی نظریہ قرار دیتے ہیں کیوں کہ یہ نظریہ ریاضی اور نظریاتی طبیعات میں اہمیت رکھتا ہے اور یونیورسٹیوں میں اس کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔

غیر جانبدار فر دیکھتا ہے کہ جن نظریات کو رد کیا گیا ، ان میں ریاضی کی رُو اور تکنیکی اعتبار سے غلطیاں تھیں البتہ وہ نظریات جو تجرباتی طور پر ثابت نہ ہو سکے لیکن ان کی جڑیں ریاضی میں مضبوط تھیں ، ان کو رد نہیں کیا جاسکا۔ سائنس اور ریاضی میں جذبات کی بجائے استدال ، اطلاق ، تکنیک اور تجربے کی اہمیت ہے۔ا سٹرنگ تھیوری کی جڑیں ریاضی میں گہری ہیں ، اسے رد کرنا ممکن نہیں پھر بہت سے محققین اسے رد کرنے پر مُصر کیوں ہیں__؟ تحقیق کی دنیا میں یہ طرز عمل پہلے نہیں دیکھا گیا ۔ کسی نظریے کے بارے میں جذباتی بات کی جاتی تو اس رویے کو سائنس اور ریاضی کے منافی قرار دیا جاتا۔ اس نظریے کے لئے یہ رویہ کیوں نہیں؟

عظیم روحانی سائنس دان ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیا ؒ فرماتے ہیں،

((”بیسویں صدی کے نصف اول میں انسان تمام میدانوں سے بھاگ نکلا۔ اس نے فیصلہ کر دیا کہ ایتھر موجود نہیں ہے ، یہ صرف پہلے لوگوں کا مفروضہ تھا۔ اس دور کے سائنس دان روح سے بیزار ہو ہی چکے تھے۔ ان کو یہ خیال ہوا کہ کہیں ایتھر کی جگہ روح نہ آجائے۔ ان نظریات کو کہ آنکھوں کی روشنی باہر دیکھتی ہے ، وہ پہلے ہی نظر انداز کر چکے تھے۔ نئے نظریات کی رُو سے خارجی دنیا کی روشنی ہماری آنکھوں میں داخل ہو کر دماغی اسکرین پر شبہیں اور علامتیں بناتی دکھائی دینے لگیں۔“))

ایتھر کے نظریے سے روح کی موجودگی کا امکان ظاہر ہوا تو محققین کے ایک گروہ نے اس کو رد کر دیا۔ یہی صورت ِ حال اسٹرنگ تھیوری کے ساتھ پیش آئی لیکن ریاضی اور ریاضیاتی طبیعات میں اس کی بنیاد مستحکم ہونے کی وجہ سے اسے رد کرنا فی الحال ممکن نہیں۔

قارئین کرام! سائنس کی بنیاد اگر چہ مادی حواس ہیں لیکن سائنس کا طریق ِ کار اپنی اصل میں غیر جانبدار ہے اور اس طریقِ کار کے تحت کی گئی تحقیقات لامحالہ اس جانب بڑھ رہی ہیں کہ مادی کائنات کے پسِ پردہ حقائق کچھ اور ہیں اور وہی حقائق کائنات کا اصل رخ ہیں۔ روح سے فرار سائنس کے طریقِ کار میں شامل نہیں۔ ایسا کرنے والوں کا طرز عمل ذاتی اور غیر سائنسی ہے۔ سائنس کا اصل نظریہ غیر جانبداری سے کھوج لگانا ہے اور جو حقائق ظاہر ہوں انہیں کھلے دل سے تسلیم کرنا ہے۔

یہ ضروری نہیں کہ مخفی ڈائی مینشن ( دنیائیں) کائنات کے دور دراز گوشوں میں ہوں ، ہمارے ارد گرد بھی ہو سکتے ہیں۔ روح میں سلاحیت ہے کہ وہ کسی بھی ڈائی مینشن میں داخل ہو جاتی ہے۔ عام آدمی اور محقق دونوں سے سوال ہے ،

۱۔ جنات کی دنیا کہاں ہے؟

۲۔ فرشتوں کی دنیا کون سی ہے؟

۳۔ روح کہاں سے آتی ہے اور آدمی کے مرنے کے بعد جہاں منتقل ہوتی ہے ، وہ دنیا کہاں ہے؟

۴۔ خواب کا ڈائی مینشن کون سا ہے؟

۵۔ ڈائی مینشن سے مراد شعور کی ایک سطح بھی لے سکتے ہیں۔ شعور کی کتنی سطحیں ہیں؟

۶۔ ایک ڈائی مینشن مادی زندگی ہے جسے قرآن نے دن کہا ہے۔

۷۔ ایسے میں صرف ایک ڈائی مینشن کو کُل کائنات سمجھنا نامناسب نہیں؟


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم