Topics
زید اپنے ساتھیوں کے ساتھ تقریباً
چھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے دوسرے گاؤں پڑھنے جاتا ہے۔ جن کے پاس سائیکل ہے ،
وہ اسکول پہلے پہنچتے ہیں۔ زید نے سائیکل کی فرمائش کی۔ ابا نے گندم کی فصل کی
کٹائی کے بعد سائیکل دلا دی۔ وہ خوشی سے نہال تقریباً 18 منٹ میں کالج پہنچا۔
زید نے دوستوں سے کہا کہ اگر
سائیکل سے تیز رفتار سواری مل جائے تو کالج پہنچنے کا وقت مزید کم ہو جائے گا۔خیال
آیا کہ رفتار زیادہ سے زیادہ کتنی ہو سکتی
ہے اور تیز ترین سواری کون سی ہے؟
پہلی کلاس فزکس کی تھی۔ زیدنے سر
سے پوچھا کہ ہوائی جہاز سے زیادہ تیز کوئی سواری ہے؟
سر نے بتایا ۔ راکٹ کی رفتار ہوائی
جہاز سے تیز ہے۔ راکٹ کے ذریعے خلا میں مصنوعی سیارے بھیجے گئے ہیں۔ محقق کہتے ہیں
کہ ان میں سے چند ایک ہماری زمین چھوڑ کر دور چلے گئے ہیں اور نا معلوم راستے پر
سفر میں ہیں، ان سیاروں کی رفتار راکٹ سے
زیادہ ہو سکتی ہے۔
سر! کیا قدرت کی کوئی تخلیق راکٹ
سے تیز رفتار ہے؟ سر مسکرا دیئے اور کہا، ایجاد خیال کے تابع ہے اور خیال قدرت کی
طعف سے آتا ہے۔ ہوائی جہاز اور راکٹ پرندوں کو دیکھ کر بنائے گئے ہیں لیکن یہ
پرندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہوائی جہاز چلانے کے لیے پٹرول چاہیے۔ قدرت اسی
عمل کو پرندوں میں سانس کے ذریعے انجام دیتی ہے۔ اور پٹرول کس نے بنایا؟ جتنی
ایجادات ہیں، محقق نے خیال میں تفکر کیا، قدرت نے مدد کی۔ رہا سوال تیز رفتار شے
کا تو محقق روشنی کو کائنات میں سب سے تیز رفتار قرار دیتے ہیں۔
زید نے کچھ دیر سوچتے ہوئے کہا ،
سر! ہو سکتا ہے محقق کو ابھی اتنا ہی پتہ ہو۔
سر کو جواب سن کر خوشی ہوئی۔ قریب
جا کر تھپکی دی اور کہا ، جی ہاں! ایسی تخلیقات ہیں جن کی رفتار روشنی سے زیادہ
ہے۔ سائنس کا طریقِ کار مادے کی حدود میں ہے، ان کو مادے سے پار دنیا کا علم نہیں۔
ممکن ہے مستقبل میں وہ جان لیں کہ مادہ اسل نہیں بلکہ اصل کچھ اور ہے۔
سر! اصل تک پہنچنے کا راستہ کیا
ہے؟
انہوں نے کہا۔ قرآن کریم ۔ علم
اللہ کا ہے اور اللہ کی کتاب سے ہی ملے گا۔ قرآن کو ترجمے کے ساتھ غور و فکر سے
ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا عادت بنا لو، انشا ء اللہ حکمت ظاہر ہوگی اور کائناتی علوم کی
راہ کھلے گی۔ زید نے ممنونیت سے سر کو دیکھا۔
زید نے جب قرآن کریم میں حضرت
سلیمان ؑ کے دربار کا قصہ پڑھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔
” سلیمان ؑ نے کہا ، اے اہلِ دربار
! تم میں سے کون ہے جو اس کا تخت میرے پاس لائے اس سے پہلے کہ وہ سارے فرماں بردار
ہو کر آئیں۔ ایک جن عفریت نے کہا کہ میں اس تخت کو لا سکتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ
اس مقام سے اٹھین، میں اس پر قوی اور امین ہوں۔ دوسرے شخص انسان نے ، جس کے پاس
کتاب کا علم تھا، عرض کیا کہ میں تخت حاضر کر سکتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ پلک
جھپکیں ۔ پس جب سلیمان ؑ نے تخت کو پاس رکھا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے
تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری
کرے تو میرا رب بے نیاز سب خوبیوں والا ہے۔“ (النمل
: ۳۸۔۴۰)
زید کے تصور میں تیز ترین ایجادات
کی فلم گھوم گئی اور ہر ایجاد قرآن میں بیان رفتار کے سامنے بے معنی لگی۔ زید اس
وقت گھر میں تھا ، اگلے لمحے تصور میں خود کو ہزاروں میل دور پہاڑ کی چوٹی پر
دیکھا۔ وہ چونک گیا کہ جو کام ” علم الکتاب“ کے حامل بندے نے کیا، ہم اس مظاہرے
سے خیال کی دنیا میں ہر وقت گزرتے ہیں۔ کیا میں خیال میں تصرف کر کے جسم کے
ساتھ ہزاروں میل کا سفر کر کے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ سکتا ہوں؟ موجودہ علوم ٹائم اور اسپیس کے بارے میں کتنا جانتے
ہیں؟
قارئین ! زید کے سوالات کا جواب
جاننے کے لئے پہلے سائنسی تجربات ، نظریات اور مفروضات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ابتدائی زمانے سے لے کر اب تک شے
کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے ذرائع میں ترقی ہوئی ہے لیکن نقل مکانی کے
اعتبار سے بنیادی یا انقلابی تبدیلی نہیں آئی۔
مثال : الف اور ب دو مقامات ہیں۔ درمیان میں ہزار میل
کا فاصلہ ہے۔ الف سے ب تک 10 ہزار کلو نمک پہنچانا ہے ۔ سو اونٹوں پر سو کلو گرام
فی اونٹ کے حساب سے نمک کی بوریاں رکھی جاتی ہیں۔ باقی 20 اونٹوں پر تاجر اور
مزدور سوار ہیں۔ یہ لوگ آٹھ ہفتوں میں منزل پر پہنچتے ہیں۔ اگر یہ سفر بادبانی
بحری جہاز میں ہو تو سات دن میں طے ہوگا
بشرطیکہ موسم طوفانی نہ ہو اور ہوا افق سمت میں چل رہی ہو۔ موجودہ دور کے
مال بردار بحری جہازوں پر یہ فاصلہ دو سے تین دن میں طے ہوگا۔ اگر ہوائی جہاز کی
رفتار پانچ سو میل فی گھنٹہ ہو تو 10 ہزار کلو نمک تقریباً دو گھنٹے میں منزل پر
پہنچے گا۔ سواریوں میں فرق ہے۔ لیکن راستہ ایک ہے۔
ملکہ بلقیس کے دربار سے تخت پلک جھپکنے
سے کم وقت میں غائب ہوتا ہے اور تقریباً 1500 سو میل کے فاصلے پر حضرت سلیمان ؑ کے
محل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ یہ عمل مادی اعتبار سے لمحے سے کم وقت میں ظہور پذیر
ہوا۔
لمحہ کیا ہے؟ محققین نے سیکنڈ کو
لاکھ ، دس لاکھ ، کروڑ، ارب اور کھرب حصوں میں تقسیم کیا ہے مگر وقت کی ان مختصر
مقداروں کا احسا عملی طور پر کسی محقق کو نہیں ہوا۔ یہ اکائیں حساب و کتاب اور
نظریات و مفروضات کے لیے ضروری مواد مہیا کرتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس شے کا
مشاہدہ نہ ہو، اس کے علم کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
سبا کی ملکہ بلقیس کے تخت کا پلک
جھپکنے سے بھی کم وقت میں تبدیلی اور خرابی کے بغیر نقل مکانی کرنا روایتی نقل و
حمل کے طریقوں سے یکسر مختلف ہے۔ چوپایوں ، گاڑی ، بحری جہاز یا ہوائی جہاز کے
ذریعے اشیا منتقل کرنے بنیادی اصول یہ ہے کہ فاصلہ اور وقت بالترتیب گز بہ گز اور
لمحہ بہ لمحہ طے ہو۔ دوسری طرف ملکہ بلقیس کے تخت کو جس شخص نے منتقل کیا ، وہ
اپنی جگہ موجود رہا اور حکم ملتے ہی تخت حاضر ہو گیا۔ فاصلہ اور وقت یہاں بھی طے
ہوا لیکن رفتار اتنی تیز تھی کہ وقت اور فاصلہ نا قابلِ تذکرہ ہو گئے۔
محققین نے مادے اور توانائی پر
جتنی تحقیق کی ہے ، اس کے آئینے میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہمارے پاس اس توجیہ
کے سوا کوئی جواب نہیں ہے کہ یہ سب لہروں کے نظام کو حرکت میں لانے یا لہروں میں
تصرف سے ممکن ہوا۔
محقق تسلیم کرتے ہیں کہ مادے کی کسی حالت کو انتہائی
حد تک منتشر کیا جائے تو نتیجہ لہر ہے جو ہر شے کی بنیاد ہے۔ مادہ اور توانائی لہر
کے روپ ہیں۔
قانون : تسخیر کا قانون یہ ہے کہ لہر کی صفات کو کسی بھی
شے پر محیط کر کے اس شے کو حسب ِ منشا متحرک کیا جاسکتا ہے۔
محققین نے لہر کی ایک قسم کو دوسری
قسم میں تبدیل کرنے اور دوبارہ پہلی قسم میں منتقل کرنے کا طریقہ کسی حد تک دریافت
کیا ہے لیکن مادے کو لہر میں تبدیل کرنے اور دوبارہ مادی صورت میں لانے میں ابھی
تک کامیابی نہیں ہوئی۔
کچھ تجربات موجود ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے
کہ شے کے مقام کی منتقلی کا عمل لہروں یا غیر مادی ذریعے سے انجام پایا ہے لیکن
محققین کی اکثریت ان کو تسلیم نہیں کرتی۔
معروف مثال فلاڈیلفیا کا تجربہ ہے۔
جنگی بحری جہاز کو فلاڈ یلفیا کے
ساحل سے چشم زدن میں غائب کر کے نیویارک کے ساحل پر ظاہر کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
پھر جہاز کو ٹائم اور اسپیس کی کسی اور جہت میں منتقل کیا گیا جہاں جہاز کے عملے
نے ایسی مخلوقات دیکھیں جن کا مشاہدہ پہلے نہیں ہوا۔ جہاز دوبارہ فلاڈیلفیا کے
ساحل پر ظاہر ہوا۔ جبکہ عملے کے چند ارکان ، جہاز کے دھاتی جسم میں پیوست تھے۔
محققین کی اکثریت اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتی۔
اس طرح کہ کئی دعوے موجود ہیں جن
سے کم از کم یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ محقق
نے الہامی کتابوں میں موجود نقل مکانی کے فارمولے کی طرز پر تجربات کی کوشش کی ہے۔
جب بجلی سے چلنے والے آلات کی
ایجادات کا سلسلہ شروع ہوا تو بجلی پیدا ہونے کے مقام سے لے کر کارخانوں ، دفاتر
اور گھروں میں ترسیل کے لئے ایسے نظام کی
ضرورت تھی جو بجلی کوراستے میں ضائع ہونے سے زیادہ بچا سکے اور مطلوبہ وولٹیج ہر
جگہ پہنچے۔ اس طرح کے مستحکم نظام کے لئے دو نام سر فہرست ہیں۔ تھامس ایڈیسن اور نکولا ٹیسلا ۔ ایڈیسن نے
بجلی کی ترسیل کے لیے مستقل برقی رو (DC)
کی حمایت کی جب کہ ٹیسلا نے متغیر برقی رو (AC) کی وکالت کیاور ایک جنریٹر ایجاد کیا جو آج بھی معمولی تبدیلی کے
ساتھ استعمال میں ہے۔ برقی رو کی اس جنگ میں انجیئنر اور صنعت کار بھی شامل ہوگئے۔
بالآخر متغیر برقی رو (AC)
کے نظریے کو فتح نصیب ہوئی۔
ٹیسلا نے AC کے علاوہ برقی ترسیل کا ایک اور نظام پیش کیا کہ بجلی کو لہروں کے
ذریعے زمین اور فضا میں پھیلایا جائے اور جہاں ضرورت ہو وہاں اس فریکوئنسی سے ہم
آئنگ فریکوئنسی پیدا کر کے بجلی حاصل کی جائے۔ اس خیلا کے مطابق ریڈیو ٹاور کی طرح
ایک ٹاور (ٹرانسمیٹر) سے برقی توانائی کو فضا میں نشر کیا جاتا اور دھاتی سلاخ اور
ٹرانسمیٹر زمین میں کچھ گہرائی تک دبا کر برقی لہریں زمین میں پھیلائی جاتیں ۔
تاہم اس نظریے کو پزیرائی نہیں ملی۔ اب وائر لیس چارجنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے
محقق کو از سر نو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ توانائی ، چاہے کسی بھی قسم کی ہو ،
تار کے بغیر لہروں کے ذریعے ترسیل کی جائے۔
مادہ اور توانائی کی بنیاد لہر ہے۔
محقق اس حقیقت سے کسی حد تک واقف ہے کہ مادے کو توانائی اور توانائی کو مادے میں
منتقل کرنا ممکن ہے۔
توانائی ، آواز ، روشنی ، حرارت ،
تابکاری غرض ہر شے لہروں پر مشتمل ہےاور سب کی فریکوئنسی مخصوص ہے۔ جب ایک لہر
دوسری لہر میں تبدیل ہوتی ہے تو مقداروں یعنی فرکوئنسی اور طول موج میں تبدیلی
واقع ہوتی ہے۔ ریڈیو ، ٹی وی اور موبائل فون وغیرہ میں یہی عمل کار فرما۔ وہ لہر جس پر شے کا قیام ہے، اس کا علم حاصل ہو
جائے تو شے کہیں بھی منتقل کی جا سکتی ہے۔
حضرت سلیمان ؑ کے دربار میں موجود
” کتاب “ کا علم رکھنے والے بندے کا نام آصف بن برخیا بتایا جاتا ہے۔ آسف ب برخیا
نہ صرف تخت کی ماہیت اور تخلیقی مقداروں کا علم رکھتے تھے بلکہ سبا کے محل سے
میلوں میل فاصلے پر رہتے ہوئے تمام احوال سے واقف تھے۔یہ وہ علم ہے جس میں ٹائم اور اسپیس محدود اندازوں
سے ماورا ہے۔
” جو لوگ میرے لئے جدو جہد کرتے
ہیں ، میں ان کے لیے اپنی راہیں کھول دیتا ہوں؛“(العنکبوت : ۶۹)
آصف بن برخیال ، پیغمبر سلیمان ؑ
کے امتی تھے۔ انہوں نے پیغمبر کے حکم پر
لہروں میں تصرف کے علم کا مظاہرہ کیا۔ اس واقعے میں پیغام ہے کہ الہٰی تعلیمات پر عمل
کرنے اور علم ِ حقیقی سیکھنے کے لیے جدوجہد کرنے والے شخص کو حکمت عطا ہوتی ہے ۔
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں :
” اللہ قادر مطلق نے اس بات پر زور
دیا ہے کہ قرآن کریم میں وہ علم موجود ہے جس سے ہم ہر طرح سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
ہر بندے کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے۔ اب اگر کوئی بندہ اس صلاحیت کو اہمیت نہ دے
اور یہ سمجھے کہ میری کیا حقیقت ہے کہ میں اس علم کو سمجھ سکوں تو یہ ناشکری ہے اس
لئے کہ اللہ نے حضرت سلیمانؑ کے قصے میں بندے کا تذکرہ کر کے انسان کے لئے یہ علم
عام کر دیا ہے بشرطیکہ وہ تفکر سے کام لے۔” علم الکتاب“ حاصل کرنے کے لیے روح سے
واقف ہونا ہوگا اور روح سے واقف ہونے کے لیے باطن میں سفر کرنا ضروری ہے۔“۔