Topics

ستاروں کی مجلس

چمکتے دمکتے ستارے آسمان کی زینت ہیں۔ دیکھنے والوں ( اولی الالباب) کے لئے ان ستاروں میں دنیائیں آباد ہیں۔ وہ ان دنیاؤں کا نظارہ کرتے ہیں اور رب کریم کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں۔

یہ مت سمجھیں کہ زمین  پر سے ستاروں کو دیکھنا ان سے واقف ہونا ہے۔ جب تک دو کے درمیان فاصلہ ایک نہ ہو ، واقفیت کی تکمیل نہیں ہوتی۔

ستاروں کی دنیا تک سب کی رسائی نہیں ۔ بروج فکشن سوچ رکھنے والوں کی پہنچ سے دور ہیں۔

فکشن سوچ کے حامل لوگ کون ہیں__؟

 ہر وہ شخص جو دن رات تغیر میں رہتا ہے اور تغیر کو زندگی سمجھتا ہے ، فکشن میں مبتلا ہے۔

قرآن کریم میں ”نجوم“ کا لفظ نو (9) اور ” نجم“ چار مرتبہ آیا ہے ۔ چند آیات یہ ہیں:

۱۔ اور اس نے تمہارے لئے مسخر کئے رات اور دن ۔ اور سورج اور چاند اور سب ستارے بھی اس کے حکم سے مسخر ہیں۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لئے جو صاحبِ عقل و فہم ہے۔     ( النحل : ۱۲)

۲۔ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ کے لئے سر بسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے آدمی۔ اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔ اور جسے اللہ خوار کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔        (الحج   :   ۱۸)

۳۔ پھر جب ستارے ماند پڑ جائیں گے۔   (المرسلٰت : ۸)

۴۔ پھر جب ستارے بکھر جائیں گے۔   (التکویر : ۲)

۵۔اس نے علامتیں رکھیں اور ستاروں سے بھی لوگ راہ پاتے ہیں۔   ( النحل    :  ۱۶)

۶۔ قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہوا۔       (النجم     :  ۱)

اجرامِ فلکی سے متعلق آیات یکجا کر کے مطالعہ کیا  جائے تو فلکی اجرام کی تخلیق ، دور ِ حیات ، حرکیات ، ہیئت اور موت سے متعلق علوم کی تفہیم ملتی ہے۔نیز اللہ تعالیٰ نے چاند ، ستاروں اور سورج کی اصل کو سمجھنے والوں کو صاحب ِ عقل و فہم قرار دیا ہے۔

        جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ستاروں کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں وہ کیا ہیں۔

۱۔ خشکی اور تری میں ستاروں سے راہ نمائی :

زمین تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی پر مشتمل ہے یعنی چاروں حصے کُل زمین ہے۔ خشکی اور تری کے معاملات کا حساب سےتاروں سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ زمانہ قدیم سے دورِ حاضر تک زمین کے ماہ و سال اور اوقات کے تعین میں ستاروں سے مدد لی جاتی ہے۔ جہاز رانی میں راہ نمائی کے لیے ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ خشکی میں موسمی تغیرات کے حوالے سے سورج ، چاند ستاروں کے گردشی ادوار ، اپنے مدار میں قرب (Perigee) اور بعد (Apogee) کے اوقات کے تعین سے قمری و شمسی کیلنڈر ، برسات اور خشک سالی کے جدول (table) تیار کئے جاتے ہیں۔

۲۔ دن رات اور اجرامِ فلکی کا مسخر ہونا :

نوع ِ آدم میں آدمی اور انسان دو کیٹگری ہیں۔ انسان کے مرتبے پر فائز ہستیاں ستاروں کے نظام ، تخلیق و ترکیب ، گردش و مدار اور ان سے متعلق دیگر امور پر دسترس رکھتی ہیں اور اللہ کے ھکم سے ان میں تصرف کرتی ہیں۔

۳۔ اجرامِ فلکی سمیت مخلوقات کا اللہ کو سجدہ کرنا :

ستارے اور اجرامِ فلکی باشعور ہیں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور فہم حاصل ہے۔ علم ہے کہ خالق کون ہے اور وہ خالق کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس سے رائج تاثر کہ ستارے محض گیسوں اور آگ کے بھڑکتے گولے یا بے جان اجسام ہیں، کی نفی ہوتی ہے۔

۴۔ ستاروں کے مواقع مقرر ہونا :

مواقع سے مراد مدار ، محوری و طولانی گردش ، مدار کی شکل اور طول  و عرض ، کہکشانی نظام میں مقام کا تعین ، دوسرے ستاروں اور نظاموں سے فاصلہ وغیرہ ہے۔

۵۔ ستاروں کی روشنی مقررہ وقت کے بعد ختم :

 ہماری طرح ستاروں کی زندگی کے ادوار ( پیدائش ، بچپن ، لڑکپن ، جوانی ، بڑھاپا اور موت ) ہیں۔

۶۔ ستاروں کا بکھرنا :

بکھرنے سے مراد موت ہے۔

” اور جب ستارے بکھر ( انکدرت ) جائیں گے۔“       (التکویر  : ۲)

” انکدرت “ کے لغوی معنی بکھرنے اور ماند پڑنے کے ہیں۔ وضاحت ہوتی  ہے کہ ستارے جب موت سے ہمکنار ہوتے ہیں تو اپنے مقام پر قائم نہیں رہتے، ذرّات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ان کی روشنی تحلیل ہو کر دیگر مخلوقات کے کام آتی ہے۔

۷۔ ستاروں کا چمکنا :

 قرآن کریم میں ستاروں میں روشنی کے نظام کو سمجھنے  کے لیے زمین کے کناروں سے نکلنے کا فارمولا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

” اے جن و انس ! تم زمین و آسمان کے کناروں سے نکل سکتے تو نکل کر دکھاؤ۔ تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے ۔“       ( الرحمٰن  :   ۳۳)

محققین نے ستاروں سے آنے والی روشنی کی طول ِ موج سے اندازہ لگایا ہے کہ مخصوص طولِ موج کی روشنی مخصوص گیسوں یا مادوں سے خارج ہوتی ہے۔ اس بنا پر متعلقہ ستارے میں عناصر کی ترکیب و مقدار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ قارئین! ستاروں کی ہیئت اور ترکیب جاننے کی محققین کی کوشش قابلِ تعریف ہے تاہم اندازے قیاس پر قائم ہیں کیونکہ نہیں معلوم آنے والی روشنی ستارے کی  ہے یا__؟

محققین نے سمندروں کی تہوں سے متعلق اندازے لگائے۔ جب وہ تہ میں اترنے کے قابل ہوئے اور عجائبات دیکھے تو اندازے غلط ہو گئے۔ بحری جغرافیہ کے ماہر اور معروف غوطہ خور David Gallo اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سمندروں کو اب تک جتنا کھنگال اور سمجھ سکے ہیں وہ سمندروں کے کل حجم کا پانچ فی صد بھی نہیں۔“

ڈیوڈ گیلو کے بیان سے محققین اتفاق کرتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سمندر زمین کے تین چوتھائی رقبے پر محیط ہیں اور ہم ان کے بارے میں پانچ فی صد سے کم علم رکھتے ہیں۔ اگر خشکی کے تمام حصے کی دریافت کا دعویٰ کیا جائے پھر بھی زمین کا بڑا حصہ ہماری معلومات سے دور ہے۔

روحانی ماہرین فرماتے ہیں،

”محقق خود مشاہدے کے بغیر کسی چیز کو نہیں مانتے پھر بغیر مشاہدے کے اپنی تحقیق پر نظریات اور شعبہ جات کیسے قائم کر لیتے ہیں؟ جب تک مشاہدہ نہ ہو، علم ادھورا ہے۔“

۸۔ ستارے اور آسمانی دنیا کی زینت :

قرآن کریم میں آسمان کو چھت سے تشبیہ دی گئی ہے اور انہیں عمارت کی منازل کی طرح بیان گیا ہے۔ جدید ریاضی اور طبیعات کی رو سے چھت سطح مستوی(plane)ہے جو ایک جیسے نقطوں کے ایک سطح پر جمع ہونے سے بنی ہے۔ نقطے متصل ہیں، ان کے درمیان خلا نہیں ہے۔ یعنی تمام نقطے لمبائی ، چوڑائی ، اور اونچائی میں ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہیں۔

ریاضی کے سطح مسوی کے تصور کا اطلاق اگرچہ زمینی اجسام کی پیمائش تک محدود ہے تاہم کہہ سکتےہیں کہ اگر ایک آسمان روشنیوں کی مخصوص مقداروں پر مشتمل ہے تو دوسرے اور تیسرے آسمان کی مقداریں مختلف ہیں۔ آسمان میں اجرام اپنے ماحول کی مناسبت سے ہیں۔ جاننے کے لیے آسمان کی روشنی کا علم ضروری ہے۔

ستارے اور مسلم محققین :   قرآن کریم میں تفکر و تحقیق کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مسلمان محققین نے رصد گاہیں قائم کیں۔قمری و شمسی کلینڈر میں اصلاحات کیں۔دوسری زبانوں کی کتب کے تراجم کر کے ان میں قابلِ قدر اضافے کئے۔ علم فلکیات میں مسلمانوں کی اتنی خدمات ہیں کہ ستاروں اور سیاروں کے بیش تر نام عربی ہیں یا عربی ناموں سے ماخوذ ہیں۔ ستاروں کے مشہور جھرمٹوں(constellations) کے نام ، طلوع کے اوقات اور سمت کا تعین زیادہ تر مسلمان ماہرین فلکیات کا دریافت کردہ ہے۔

مثال :  ستاروں کے معروف جھرمٹ ” الجبار“ کا انگریزی نام Orion ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ  یہ دنیا کے تقریباً ہر علاقے سے نظر آتا ہے اور ہر تہذیب کے زیر مطالعہ رہا ہے۔ اس میں موجود سات بڑے ستاروں کے نام بنیادی طور پر عربی ہیں۔ اسلام سے پہلے اس جھرمٹ کے مختلف نام رکھے گئے مگر جو نام مسلمان محققین نے رکھا ، زبان زد عام ہوا اور ان کی تحقیقات کو بعد کے ادوار میں تسلیم کیا گیا ہے۔

محققین کی جانب سے معروف جھرمٹ ”الجبار“ میں ستاروں کو دیئے گئے نام اور خصوصیات یہ ہیں۔

٭      المیسان (Meissa) روشن چمک دار :

مسلمان محققین نے جدید اور بھاری بھر کم دور بینوں کی مدد کے بغیر بظاہر ایک نظر آنے والے اس ستارے کو دو ستاروں کا نظام (Binary System) قرار دیا۔ موجودہ تحقیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔

مغربی ماہرین فلکیات کے مطابق دو ستاروں میں سے ایک حجم میں سورج سے دس گنا اور کمیت میں 28 گنا بڑا ہے جبکہ اس کا ساتھی ستارہ سورج سے تقریباً دو سے پانچ گنا بڑا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان کے ہمراہ مدہم اور کم حجم کا بھورے رنگ کا بونا ستارہ (Brown Dwarf) موجود ہے جو مادی آنکھ سے نظر نہیں آتا۔

٭     ابط الجوزاء  (Betelgeuse) وسط کا اندرون :

مادی آنکھ سے نظر آنے والے ستاروں میں دسویں نمبر پر روشن ستارہ سمجھا  جاتا ہے ۔ حجم اور وزن کے بارے میں محققین کا خیال ہے اسے ہمارے سورج کی جگہ رکھ دیا جائے تو عطارد ، زہرہ ، زمین ، مریخ اور غالباً مشتری مدار سمیت اس کے اندر آجائیں گے۔ ان کے مطابق مطلع صاف ہونے پر رنگ قدرے سرخی مائل جبکہ دور بینوں سے سرخ گولے کی مانند نظر اتا ہے۔ روشنی کم و بیش ہوتی رہتی ہے جس کی وضاحت کے لیے مختلف مفروضات قائم کیے گئے ۔ حقیقت کیسے معلوم ہو__؟ طریقہ اگلی قسط میں پڑھیں۔

٭     انجید (Bellatrix) فاتح :

مادی آنکھ سے نظر آنے والے ستاروں میں 25 ویں نمبر پر روشن ستارہ بتایا جاتا ہے۔ سورج سے تقریباً 8.6 گنا کمیت میں زیادہ ہے۔ رنگ نیلگوں سفید ہے۔ 1275ء کے ستاروں کے عربی جدول اور نقشوں میں نام ”المرزم“ (ببر شیر) درج ہے۔ محققین نے نیلگوں سفید رنگ کا سبب درجہ حرارت کو قرار دیا ہے جو سورج سے چار گنا زیادہ بتایا جاتا ہے۔

٭     النطاق(Alnitak) کمر بند :

دورِ حاضر کی تحقیق کے مطابق یہ تین ستاروں پر مشتمل نظام(triple Star System) ہے اور تینوں کا رنگ نیلا ہے۔ ستاروں کے رنگ سے متعلق جدید تحقیق بتاتی ہے کہ درجہ حرارت اور مقدار ِ مادہ بڑھنے سے ستاروں کا رنگ بھورے سرخ  سے سرخ ، سرخ سے نارنجی ، نارنجی سے پیلا ، پیلے سے سفید ، سفید سے نیلگوں سفید اور نیلگوں سفید سے نیلا ہو جاتا ہے۔

٭     النظم (Alnilam) موتی پرونے کا دھاگا:

الجبار گروہ میں درمیانی تین ستاروں کی بیلٹ کا وسطی ستارہ بتایا جاتا ہے۔ رنگ نیلگوں سفید ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی روشنی کی شدت سورج کی روشنی سے دو لاکھ75 ہزار گنا اور درجہ حرارت سورج سے تقریباً ساڑھے چار گنا زیادہ ہے۔

٭     المنطقہ (Mintaka) علاقہ یا خطہ :

جدید تحقیقات کی رو سے تین سے زائد ستاروں کے باہمی نظام پر مشتمل ہے اور مجموعی طور پر نیلگوں سفید رنگ کا تاثر دیتا ہے۔

٭     رجل الجبار (Rigel) الجبار کا پیر:

”الجبار “ جھرمٹ میں روشن ترین ستارہ ہے اور مادی آنکھوں سے نظر آنے والے ستاروں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اسے پہلے ایک ستارہ سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں کہا گیا کہ چار ستاروں پر مشتمل ہے۔ ماہرین ِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ”رجل الجبار“ سورج سے تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار گنا روشن ، حجم میں 74 گنا بڑا اور کمیت میں 22 گنا زیادہ ہے۔

 محققین نے جو اعداد و شمار دیئے ہیں ان میں سے بیش تر مفروضات پر قائم ہیں۔

اگلے شمارے میں آپ پڑھیں گے :

٭     ستاروں کی تخلیق کیسے ہوتی ہے/

٭     کیا ستارے باتیں کرتے ہیں؟

٭     ستاروں کے گرد سیارے کیسے تخلیق پاتے ہیں؟

٭     روحانی ماہرین اس حولے سے کن اسرار سے پردہ اٹھاتے ہیں۔

 

***********

 

سورج کی ساخت اور طرز عمل جاننے کے لئے طاقت ور دور بینوں سے مدد لی گئی ہے البتہ قائم کردہ نظریات ٹیکنالوجی میں جدت کے بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سورج کے علاوہ کسی اور سیارے کی واضح تصاویر حاصل نہیں کی گئیں۔ وجہ درمیانی فاصلہ بتایا جاتا ہے۔

مثال :  کہا جاتا ہے کہ آسمان پر سورج کے بعد قریب ترین ستارہ شعریٰ (Sirius) ہے۔ مسلمان ماہرینِ فلکیات کہتے ہیں کہ اس ستارے کا ذکر قرآن کریم میں ”الشعریٰ“ کے نام سے موجود ہے۔

” اور بے شک وہی شعریٰ کا رب ہے۔“       (النجم : ۴۹)

 دور بین ”ہبل “ اور دیگر دور بینوں سے حاصل کردہ تصاویر میں ” اشعریٰ “ محض نیلگوں سفید نقطہ نظر آتا ہے۔ چناچہ مفروضات کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مادی آنکھوں سے اس ستارے کا مشاہدہ  تقریباً سال بھر کیا جا سکتا ہے۔ یہ آسمان پرستاروں کے مشہور گروہCanis Major (کلب اکبر) کے بالائی حصے میں واقع ہے۔ اسے ”الجبار“ (Orion) کے نیچے بائیں جانب دیکھا جا سکتا ہے۔

قدیم مصری تہذیب میں اس ستارے کی مدد سے دریائے نیل کے سیلابی ادوار کی نشان دہی کی جاتی تھی اور یونانی تہذیب میں شدید گرمی کے دنوں کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ بحر الکاہل کے جزائر میں آباد اقوام(Polynesians) اس سے جہاز رانی میں سمت کے تعین میں مدد لیتی تھیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے چلی کے صحراAtacama  میں یورپی خلائی رصد گاہ (ESO)کی دور بینوں سے ستارے ” ابط الجوزا ء“ اور ”قلب العقرب “  (Antares) کی تصاویر حاصل کی ہیں۔ تصاویر میں یہ نارنجی مائل سفید رنگ کے دھندلے نقطے نظر آتے ہیں۔ مصوروں نے مفروضات کی مدد سے اس کی تصاویر بنا کر تفصیل دکھانے کی کوشش کی ہے۔

واضح رہے کہ مضمون کے پہلے حصے میں  ستاروں سے متعلق دی گئی تفصیلات ، براہ راست مشاہدات کے بجائے ماہرین کے تجوید کردہ اندازے ہیں جن میں غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے۔

قرآن کریم میں بارہا ستاروں اور اجرام فلکی کو ”انسان“ کے لیے مسخر قرار دیا گیا ہے۔ سورج ، چاند اور ستارے مقررہ اوقات میں طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ زمین کو ان سے حرارت مہیا ہوتی ہے۔ فصلیں اور پھل پکتے ہیں۔ پھلوں میں مٹھاس پیدا  ہوتی ہے۔ ہوائیں چلتی ہیں ۔ سمندر  میں مدوجزر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ سب نظام کے تحت ہے۔ تسخیر کا مطلب جزئیات ، حرکات، حیات وادوار اور تخلیقی فارمولوں سے واقف ہونے کے بعد تصرف ہے۔ تسخیر کا مفہوم اس وقت پورا ہوتا ہے جب انسان اللہ کے عطا کردہ اختیار سے اجرام ِ فلکی پرتصرف کرے۔

اللہ تعالیٰ نے اجرامِ فلکی کی پیدائش ، ادوار ، طریقِ کار ، اقسام ، مدار اور گردش ( محوری ، طولانی) ، زمین کے لحاظ سے ان کی حرکات ( طلوع و غروب) ، ستاروں کی روشنی میں کمی بیشی ، موت سے قریب صورت حال اور موت کو بیان کیا ہے۔ تسخیر کی طرزیں اور فارمولے بتائے ہیں۔ ستاروں کی روشنی کا ماخذ کیا ہے ۔۔؟

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

” جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب ستارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور اکٹھے کئے جائیں گے۔“    (التکویر : ۱۔۵)

سورج اور ستاروں کی روشنی ختم ہونا اور موت سے ہم کنار ہونا زمین کے نظام سے منسلک ہے۔ جب سورج کی حالت میں تبدیلی واقع ہوگی تو اثر لا محالہ زمین پر پڑے گا کیونکہ زمین پر نظام زندگی جاری رکھنے میں سورج ایک اہم ذریعہ ہے۔ قرآن کریم کی کئی آیات میں زمین پر تبدیلیوں کو سورج کی حالت میں تبدیلی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی زمین اور سورج میں ربط ہے۔ وہ ربط کیا ہے اور اس ربط میں اولیت اور ثانویت کس کو حاصل ہے؟

سائنس کے طلبا و طالبات جانتے ہیں کہ نظام شمسی میں پہلے زمین کو مرکزیت دی جاتی تھی۔ بتایا جاتا تھا کہ سورج اور باقی سیارے زمین کے گرد گردش کرتے ہیں۔ بعد ازاں محققین نے اس نظریے کو رد کر کے سورج کو مرکز قرار دیا اور کہا کہ سیارے  سورج کے گرد اپنے مدار میں محو گردش ہیں۔

موجودہ تحقیق (Science) اس نظریے کی حمایت کرتی ہے۔ تاہم پرانے نظریے کو رد کرنے کے حوالے سے سوالات بہر حال موجود ہیں۔

۱۔ ممکن ہے کہ پرانے نظریے میں زمین کی مرکزیت سے مراد اس کے مقام کی مرکزیت نہ ہو بلکہ اہمیت اور طریقِ کار کا ذکر کیا گیا ہو۔

۲۔ ہو سکتا ہے پرانا نظریہ مخصوص حقائق پر مبنی ہو جن کی تشریح بعد میں پس پردہ چلی گئی۔

سورج ، ستاروں اور سماوات کی ایات میں زمین کا ذکر ہے جس سے ان میں ربط کی نشان دہی ہوتی ہے۔ محترم عظیمی صاحب کتاب ” محمد رسول اللہ ﷺ۔جلد دوم“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ سورج میں روشنی نہیں ہے، زمین روشن ہے۔ زمین محوری و طولانی گردش میں حرکت کر رہی ہے۔ روشن زمین کا انعکاس سورج کے اوپر ہوتا ہے اور سورج کا یہ انعکاس دھوپ ہے۔

” زمین ایک گلوب ہے جو اپنے مدار پر ہر وقت متحرک رہتا ہے۔زمین کے دو وجود ہیں۔ ایک وجود ظاہری ہے اور  زمین کا دوسرا وجود باطنی ہے۔ زمین کا باطنی وجود ایسی ماورائی لہروں سے بنا ہوا ہے جو براہ راست نور سے فیڈ ہوتی ہیں یہ روشنیاں ماورائے بنفشی شعاعیوں سے زیادہ لطیف ہیں ۔ کسی بھی مادی وسیلے سے بھی نظر نہ آنے والی روشنیاں سورج کے اوپر منعکس ہوتی رہتی ہیں۔ سورج ایسا سیاہ طباق ہے یا توے کی طرح ہے جس میں اتنی تاریکی اورسیاہی ہے کہ دنیا میں لاکھوں سال میں رائج الفاظ میں اس تاریکی کو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سیاہ توے یا سورج پر جب لطیف روشنیاں پڑتی ہیں تو سورج سے منعکس ہو کر زمین پر آتی ہیں اور یہی وہ روشنی ہے جس کو دھوپ کہتے ہیں۔“

قارئین ! مذکورہ اقتباس میں روحانی علوم کے رموز ہیں۔ موجودہ تحقیق کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ” بلیک باڈی ریڈی ایشن“ کے نظریے سے کسی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

سیاہ جسم سے شعاعوں کا اخراج :

” بلیک باڈی ریڈی ایشن“ نظریے کے مطابق ایک مثالی سیاہ جسم روشنیاں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مخصوص فریکوئنسی کی صورت میں روشنی خارج کر سکتا ہے۔ سیاہ اجسام اور ان سے مخصوص روشنیوں کا اخراج ایسا میدان ہے جس پر تحقیق ہو رہی ہے۔

محققین ستاروں کورنگین اور روشن تصور کرتے ہیں تاہم ستاروں کا طرزِ عمل دیکھتے ہوئے وہ کشمکش میں مبتلا ہیں کہ رنگین نظر آنے والے ستارے سیاہ اجسام ہو سکتے ہیں۔ وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ جب ستارے روشنی خارج کرتے ہیں تو یقیناً کہیں سے روشنی جذب بھی کرتے ہیں۔ یہ طریقِ کار سیاہ اجسام کے ذریعے عمل میں آسکتا ہے کیونکہ سیاہ رنگ میں رنگوں کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔

محققین کہکشاں یا ستاروں کو تصویر کے نیگیٹو کی مدد سے گننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ آسمان کو مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر حصے کی تصویر کے نیگیٹو کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیگیٹو میں سیاہ آسمان سفید اور بظاہر سفید نظر آنے والے ستارے سیاہ نقطوں کی مانند نظر آتے ہیں جس سے گننے میں آسانی ہوتی ہے۔

طبیعات میں سیاہ اجسام کی تشریحات سے اخذ کرنا آسان ہے کہ زمین کے باطن سے خارج ہونے والی روشنیاں سورج پر پڑتی ہیں تو سورج انہیں جذب کر کے مخصوص مجموعے  (spectrum) کی صورت میں خارج کرتا ہے جسے مادی ذرائع سے دیکھا یا محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے خارج ہونے والی روشنیوں  میں سے بہت سی دریافت ہونا باقی ہوں لیکن جو دریافت ہو چکی ہیں ، نظر انے والی روشنیاں ان کا مختصر جزو ہیں۔ اس سے وضاحت ہوتی کہ مادی دنیا میں نظر آنے والی اشیا حقیقت کے برعکس ہیں کیونکہ ہم ان کی اصل نہیں دیکھ ۔ مرزا غالب فرماتے ہیں،

ہیں     کواکب  کچھ     نظر      آتے    ہیں      کچھ

دیتے    ہیں     دھوکا    یہ      بازی    گر      کھلا

ستاروں کے گرد سیارے اور ان کی تخلیق :

شے کی بنیاد لہروں پر ہے اور لہریں مختلف نوعیت کی روشنیاں ہیں۔ آئن اسٹائن نے اخذ کیا کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ محققین نے ثابت کرنے کے لیے تجربات کئے۔ ایک تجربے میں مخالف چارج کے حامل مگر کمیت میں مساوی دو برقی ذرّات کو یکجا کیا گیا۔ وہ دو گاما شعاعوں (روشنی کی ایک طاقت ور قسم) میں تبدیل ہوگئے۔ جس نقطے پر وہ یکجا ہوئے وہاں جھماکا ہوا اور گاما روشنی کی دو شعاعیں(فوٹان) اس نقطے سے مخالف سمتوں میں نکل گئیں۔

مزید تجربات سے ثابت ہوا کہ شعاعوں کی توانائی میں بتدریج اضافے سے پیدا ہونے والے ذرّات زیادہ کمیت اور نسباً بڑا حجم رکھتے ہیں۔

روشنی کی شعاعوں سے مادے کی تخلیق پر تجربات اور تحقیقات کا سلسلہ دراز ہوا اور ذرّات کی طبیعات کا شعبہ (two photon physics) وجود میں آیا۔ ثابت ہے کہ مختلف فوٹانوں کو مخصوص طریقوں اور قواعد کے تحت یکجا کیا جائے تو ان میں توانائی کے مطابق مادی ذرّات تخلیق ہوتے ہیں۔

 نکتہ :  روشنی سے مادے کی تخلیق قدرت کا ایسا عمل ہے جس کو موجودہ سائنس میں کسی حد تک دریافت کیا گیا ہے۔ تاہم کائنات میں اس عمل سے کیا کچھ اور کس پیمانے پر تخلیق ہو رہا ہے ، دریافت ہونا باقی ہے۔

روحانی ماہرین نے ستاروں کی روشنیوں سے سیاروں کی تخلیق کا حقیقی نظریہ بیان کیا ہے۔

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ لکھتے ہیں،

” فوٹان کا ایک وصف یہ ہے کہ اس اسپیس (space) نہیں ہوتا۔ اسپیس سے مراد ڈائی مینشن (dimension) ”ابعاد“ ہیں یعنی اس لمبائی چوڑائی موٹائی نہیں ہے۔ اس لیے جب یہ  کرنوں کی شکل میں پھیلتے ہیں تو نہ دوسرے سے ٹکراتے ہیں ، نہ ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں، بالفاظ دیگر یہ جگہ نہیں روکتے، اس وقت تک جب تک کہ دوسرے رنگ سے نہ ٹکرائیں۔ یہاں دوسرے رنگ کو پھر سمجھیے۔ فضا میں جس قدر عناصر موجود ہیں ان میں کسی عنصر سے فوٹان کا ٹکراؤ اسے اسپیس دیتا ہے۔ دراصل یہ فضا کیا ہے؟ رنگوں کی تقسیم ہے۔ رنگوں کی تقسیم جس طرح ہوتی ہے وہ اکیلے فوٹان کی رو سے نہیں ہوتی بلکہ حلقوں سے ہوتی ہے جو فوٹانوں سے بنتے ہیں۔ جب فوٹانوں کا ان حلقوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو اسپیس یا رنگ وغیرہ کئی چیزیں بن جاتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرنوں میں یہ حلقے کیسے پڑے؟ ہمیں علم ہے کہ ہمارے کہکشانی نظام میں بہت سے اسٹار یعنی سورج ہیں ، وہ کہیں نہ کہیں سے روشنی لاتے ہیں ، ان کا درمیانی فاصلہ کم سے کم پانچ نوری سال بتایا جاتا ہے۔ جہاں ان کی روشنیاں آپس میں ٹکراتی ہیں، وہ روشنیاں  چونکہ قسموں پر مشتمل ہے اس لئے حلقے بنا دیتی ہیں جیسے ہماری زمین یا اور سیارے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورج سے یا کسی اور اسٹار سے جن کی تعداد ہمارے کہکشانی نظام میں دو کھرب بتائی جاتی ہے، ان کی روشنیاں سنکھوں کی تعداد پر مشتمل ہیں اور جہاں ان کا ٹکراؤ ہوتا ہے وہیں ایک حلقہ بن جاتا ہے جسے سیارہ کہتے ہیں۔ اب فوٹان میں اسپیس پیدا ہو جاتا ہے اور اسپیس کے چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کو الیکٹران کہتے ہیں ۔ جہاں فوٹان اور الیکٹران دونوں ٹکراتے ہیں وہیں سے نگاہ رنگ دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔“  

 (کتاب : رنگ اور روشنی سے علاج)

محقق واقف ہو چکے ہیں کہ فوٹان میں اسپیس سے الیکٹران ( اور ضد الیکٹران) تخلیق ہوتے ہیں۔ الیکٹران مادی ذرّات کی بنیاد ہے اور مادی ذرّات کو دوام نہیں ہے جب تک کہ ان کے گرد الیکٹران محیط نہ ہوں۔ چناچہ matter الیکٹران ( اور ضد الیکٹران) کی مرکب شکل ہے۔ جب فوٹانوں کےاپس میں ٹکرانے سے الیکٹران ( اور ضد الیکٹران) ظاہر ہوتے ہیں تو ان میں توانائی الیکٹران کی مقدار ِ مادہ میں اضافہ ہوتا ہے ، بڑے اور زیادہ وزنی ذرّات تخلیق ہوتے ہیں۔ اگر فوٹان دور دراز ستاروں سے آرہے ہیں اور اپنے اندر کسی سیارے کی مقدار ِ مادہ برابر توانائی رکھتے ہیں تو وہ توانائی ، فوٹانوں ( روشنیوں) کے مخصوص زاویوں میں ٹکرناے سے اسی نوعیت کے سیاروں میں تبدیل ہو جائے گی۔

 سیارے میں لاشمار عناصر ہیں ۔ عناصر کا تنوع اور سیارے میں مخصوص تناسب سے وضاحت ہوتی ہے کہ مختلف فریکوئنسی کے فوٹان کے یکجا ہونے سے متفرق رنگ اور عناصر وجود میں آتے ہیں۔

ستاروں سے ہمارا تعلق:

دور دراز مقام پر قائم رصد گاہ میں محقق رات کے پچھلے پہر ، آسمان کے مشاہدے میں مصروف ہے۔ چمکتے ، ٹمٹماتے روشن ستاروں کا جم غفیر نگاہوں کے سامنے ہے۔ ستاروں سےآنے والی روشنی ہزاروں نوری سال کا فاصلے طے کر کے ، محقق اور دوسرے دیکھنے والوں کو کیا پیغامات دینا چاہتی ہے؟

اگر ستارے پیغامات ارسال کریں تو ہمیں ان کی اطلاعات کیسے ملیں گی؟ ستارے بتانا چاہتے ہیں کہ خالق کائنات اللہ نے آسمان و زمین کی مخلوقات میں رشتہ رکھا ہے۔ وہ رشتہ کیا ہے؟ روشنی ہمہ وقت ایک نظام سے دوسرے نظاموں میں محو سفر کیوں ہے؟ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ روشنی سے واقف ہو کر ہم اس میڈیم کے ذریعے دوسرے نظاموں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ستاروں سے آنے والے فوٹان سفر میں ہیں تاکہ اپنے اندر  اور باہر کی داستانیں اور احوال ، کائنات کے دور دراز مکینوں تک پہنچائیں۔ ستاروں کے پیغامات نظر انداز کر دیں تو ہماری مثال یہ ہے۔

” کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر کچھ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ نہیں وہ تو مگر جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں۔“        (الفرقان     :   ۴۴)

قرآن کریم نے ستاروں کے پیغامات میں تفکر کو دانائی قرار دیا ہے ۔ ساتھ ہی انکشاف کیا ہے کہ اجرامِ فلکی انسانوں کے تابع کر دیئے گئے ہیں۔

” اور سورج اور چاند اور سب ستارے بھی اس کے حکم سے مسخر ہیں۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لئے جو صاحب ِ عقل و فہم ہے۔“        (النحل  :  ۱۲)


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم