Topics

دخان

اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

”پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا ، وجود میں آجاؤ خواہ تم چاہو نہ چاہو۔ دونوں نے کہا ، ہم آگئے فرماں برداروں کی طرح۔“ (حٰمۤ السجدۃ : ۱۱)

”اچھا انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا۔“     (الدخّان : ۱۰)

قرآن کریم میں لفظ ” دخان “ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ ”دخان“ کا ترجمہ تقریباً سارے اردو مترجمین نے دھواں کیا ہے۔ ” دخان “ کے انگریزی اور دوسری زبانوں میں متراجم بھی دھوئیں کے مفہوم میں کئے گئے ہیں۔

پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ ترجمہ کبھی بھی اصل لفظ کا نعم البدل نہیں ہوتا بلکہ قریب قریب مفہوم بیان کرتا ہے اس لئے لفظ کو صحیح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ لفظ کو اس کی اصل زبان میں سمجھا جائے۔

عربی لغات میں دخان کے اوپر تشدید (       ّ    )  بھی نظر آتی ہےجیسے دخّان جب کہ قرآن کریم میں تشدید کے بغیر ہے۔ اسم کے اوپر تشدید عموماً اسم کی کیفیت میں شدت پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ بہرحال مترجمین نے تشدید یا تشدید کے بغیر دونوں کا مفہوم یکساں بیان کیا ہے۔

قرآن کریم کے لیے مختص لغات کے مطابق دخان کا مصدر ” دَخنَ “ ہے۔ جس کے معانی آگ کا دھواں ، وغیرہ ہیں۔ بخارات کا اکٹھا ہو کر بادلوں کی صورت اختیار کرنا یا دھند کی شکل اختیار کرنابھی دخان کے معانی میں لیا گیا ہے۔

قارئین کرام! قرآن کریم آخری آسمانی دستاویز ہے جو خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا کی گئی۔ اس میں تخلیق کائنات سے متعلق فارمولے بیان کئے گئے ہیں۔ قرآنی اصطلاح دخان ، کائنات کی تخلیق اور تخلیقی فارمولوں سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ نوع آدم تخلیقی فارمولوں سے آگاہی حاصل کر کے ” احسن تقویم “ کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہو۔

” انسان “ اللہ کا نائب ہے۔ اللہ احسن الخالقین ہے ۔ کوئی بھی بات قرآن کریم میں تبرکاً بیان نہیں کی گئی بلکہ یہ کتاب عملی قوانین کی دستاویز ہے۔

خالق کائنات نے قرآن میں تفکر ، تدبر اور حکمت تلاش کرنے پر زور دیا ہے۔ تفکر صالح عمل ہے جو بندہ کو حیوانی انداز فکر سے آزاد کر کے اشیا کی کنہ تک پہنچاتا ہے۔ اشیا کا کھوج لگانا اور یہ جان لینا کہ شے کس بساط پر قائم ہے ، انسانی صفت ہے۔ ہم درجہ بدرجہ دھوئیں یا دخان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس اہم قرآنی اصطلاح کی حقیقت کو سمجھا جا سکے ، جتنا اللہ چاہے۔

دھوئیں کی سائنسی تفہیم : سائنس بتاتی ہے کہ دھواں عموماً قدرتی یا مصنوعی نامیاتی مادے (Material Organic)  جیسے لکڑی ، گھاس پھوس ، کوئلہ ، پیٹرولیم ، پلاسٹک وغیرہ کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ جلنے کا عمل کرہ   زمین پر بنیادی طور پر آکسیجن کے ساتھ کیمیائی تعامل(oxidation) ہے جس کے نتیجہ میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ جو مادہ (matter) جلنے کے عمل کے دوران صحیح طرح جل نہیں پاتا یعنی اس کا آکسیجن کے ساتھ تعامل ادھورا رہ جاتا ہے وہ دھوئیں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جیسے لکڑی جلتے ہوئے دھواں پیدا کرتی ہے۔ لکڑی بنیادی طور پر کاربن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے جس میں پانی بھی کیمیائی طور پر کاربن کے جال میں موجود ہے۔ لکڑی میں دوسرے بے شمار پیچیدہ کیمیائی مرکبات ان تین اجزا کی نسبت کم مقدار میں شامل ہے۔

جلنے کے عمل کے دوران کاربن ہوا کی آکسیجن کے ساتھ مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ ( شفاف بے رنگ و بو گیس) اور ہائیڈروجن ، آکسیجن کے ساتھ تعامل کر کے پانی کے بخارات ( گیسی حالت ، شفاف ، بے رنگ و بو ) بناتے ہیں۔ دوسرے کیمیائی مرکبات کچھ تو جل جاتے ہیں ، بعض جذوی مقدار میں جلتے ہیں۔ کچھ جلنے کے عمل میں حصہ نہیں لیتے ، بخارات یا راکھ کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ جلنے کے عمل میں کاربن کے اَن جلے ذرّات پانی کے بخارات کے ساتھ مل کر ہوا میں اڑتے ہیں۔ اس عمل کے دوران بننے والی دوسری گیسیں بھی ساتھ شامل ہوتی ہیں۔ چناں چہ دھوئیں کی ایک مساوات (equation) یہ بنی :

کاربن کے ذرّات+ پانی کے بخارات +  کاربن ڈائی آکسائیڈ + گرد و غبار + راکھ + دوسری گیسز= دھواں

زمین کی کشش ثقل ہر شے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ دھوئیں پر زمین کی کشش دوسری اشیاء کی طرح عمل پیرا ہوتی ہے۔ دھواں مجموعی طور پر ہوا سے ہلکا ہونے کی بنا پر اوپر کو اٹھتا ہے ، یہ عمل (buoyancy) کہلاتا ہے۔ فضا میں جب تک ہوا کی کثافت دھوئیں کی کثافت سے زیادہ رہتی ہے ، دھواں اوپر اٹھتا رہتا ہے۔ اوپر اٹھنے کے عمل کے دوران چوں کہ دھواں مسلسل پھیلتا ہے لہذا

۱۔ درجہ حرارت کم ہونے کی بنا پر دھوئیں کے ذرّات مزید نمی اور ہوا میں معلق رہتے __یا

۲۔ ہوا کے دوش پر سفر کرتے ہیں __ یا

۳۔ گرم ہوا نسبتاً کثیف ہوتی ہے۔ اگر ٹھنڈی ہوا کی تہ پہلے ہی دھوئیں ( گرم ہوا) کو اوپر جانے سے روک دے تو فضا میں دھواں ایک سائبان کی مانند معلق نظر اتا ہے ۔ جہاں زمین کی کشش موجود نہ ہو۔ یعنی خلا میں دھواں سیدھا اوپر اٹھنے کے بجائے چہار جانب یکساں پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ذرّات کا فاصلہ آپس میں مسلسل بڑھتا رہتا ہے اور جتنی اسپیس میں یہ ذرّات پھیل سکتے ہیں ، پھیل جاتے ہیں۔

دھوئیں کی مزید طبعی خصوصیات میں سے چند اہم خصوصیات کا ذکر ضروری ہے۔

¬   دھواں ہوا کی نسبت زیادہ کثافت (density) رکھتا ہو تو زمین کی سطح پر مائع کی طرح پھیلتا ہے۔ فاسفورس اور گندھک پر مشتمل کچھ بارودی مادوں کے جلنے کی صورت میں عموماً ایسا دھواں پیدا ہوتا ہے۔

¬  خلا میں دھوئیں کے ذرّات کو چوں کہ ہوا کی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوتا لہذا دھواں پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ ہر ذرّہ غلیل سے چھوڑے ہوئے کنکر کی طرح اپنی سمت میں بڑھتا چلا جاتا ہے

¬  چپک دار یا لیس دار مادے دھوئیں کے ذرّات کو چمٹا لیتے ہی۔ سوراخ دار(porous) مادے دھوئیں کو جذب کرتے ہیں جب کہ ٹھوس مادی سطحوں سے دھوئیں کے ذرّات ٹکرا کر سودری سمت میں چلے جاتے ہیں۔

¬  دھواں مادہ کی تینوں حالتوں پر مشتمل ہے۔ ٹھوس ذرّات ، مائع کے بخارات اور گیس__ تینوں دھوئیں کے اجزا ہیں۔

¬  بادل بھی ساخت ، طبعی طرز عمل ، حرکت اور دوسری کئی طبعی خصوصیات کی وجہ سے دھوئیں سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ بادل دھوئیں کی نسبت زیادہ لطیف ذرّات پر مشتمل ہوتے ہیں اور نامیاتی سالمیات کی جگہ پانی کے بخارات سے بنتے ہیں۔

محترم قارئین ! کسی مظہر کی صفات اس مظہر کو جانتے کا ذریعہ ہیں اس لئے ہر صفت اہم اور لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاح دخان اللہ تعالیٰ کی تخلیقی صفات اور تخلیقی طرز عمل سے متعلق ہے۔

مادی و طبعی طرزوں میں تفکر کی مدد سے ہم کسی شے کو آفاقی وغیرہ مادی اور اصلی صورت میں سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ بشرط یہ کہ ذہن غیر جانب دار ہو۔ ہم تفکر کا سلالہ جاری رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بظاہر غیر اہم اور ناخوش گوار شے یعنی دھواں اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں کو ظاہر کرتا ہے۔

دھواں حرکت ہے :  دھوئیں کی ایک بنیادی صفت پھیلنا ہے۔ پھیلنے کا مطلب تمام سمتوں میں حرکت ہے دھواں اگر اپنے منبع سے نہ پھیلے تو وہ دھواں نہیں کہلائے گا۔ دھوئیں کے ذرّات نہ صرف سامنے کی جانب بڑھتے ہیں بلکہ ارتعاشی اور دائروی صورتوں میں بھی حرکت پذیر ہوتے ہیں۔ کچھ منفی پیچیدہ راستوں پہ چلتے ہیں جیسے مکھی کی ہوا میں حرکت ۔ غور طلب یہ ہے کہ دھواں اپنے اندر تمام قسم کی حرکات سمیٹے ہوئے ہے۔

دھواں ، تخلیق کے لئے درکار مسالا ہے :

ماہرین فلکیات نے خلاؤں میں لامحدود وسعتوں پہ مشتمل ایک مظہر Nebula  دریافت کیا ہے۔ ان کے مطابق Nebula ایسا دھواں ہے جو کہکشاؤں ، ستاروں اور سیاروں کی تخلیق کی اولین صورت ہے۔

ایک عام نیبولا کی جسامت __ لمبائی اور چوڑائی میں سینکڑوں نوری سال پر محیط ہوتی ہے۔ نیبولا عموماً گرد و غبار ، ہائیڈروجن ، ہیلیم اور دوسری آیو نائزڈ گیسوں پر مستمل ہوتا ہے۔ محققین نیبولاؤں کو ستاروں اور سیاروں کی پیدائش کی نرسریاں کہتے ہیں۔ محققین کے بقول نیبولا میں موجود ذرّات جب ایک مرکز میں کشش ثقل کی بنا پر جمع ہوتے ہیں تو ذرّات کی مقدار اور نوعیت کی بنیاد پر اجرام فلکی یعنی ستارے اور سیارے وجود میں آتے ہیں۔

ایک معروف نیبولا “Eagle Nebula”  میں گرد و غبار اور گیسوں پہ مشتمل   دھوئیں کی انتہائی بلند ستون نما ساختیں بن گئی ہیں جنہیں تخلیق کے ستون (Pillars Of Creation) کا نام دیا گیا ہے۔ کیوں کہ دھوئیں کی ان ستون نما صورتوں میں ستارے اور سیارے تخلیق پا رہے ہیں۔

دخان__ روحانی سائنس کی روشنی میں :

اولی الالباب وہ قدسی نفس ہستیاں ہیں جو کائناتی مظاہر کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور فراست سے دیکھتی ہیں اور شک و شبہ سے بالا تر ہو کر شے کی حقیقت سے واقف ہو جاتی ہیں ۔ ان کی فہم رسا سے عوام الناس کو نہ صرف چیزوں کی اصل سے واقفیت میں مدد ملتی ہے بلکہ عوام کا ذہن بھی روحانی طرز ادراک کی طرف راغب ہوتا ہے۔

اسرار تخلیق کے امین اور علم الاسما کے حامل ، حضرت بابا تاج الدین ناگپوری ﷭ فرماتے ہیں :

” کائنات زمانی مکانی فاصلوں کا نام ہے۔ یہ فاصلے انا کی چھوٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں۔ ان لہروں کا چھوٹا بڑا ہونا ہی تغیر کہلاتا ہے۔ دراصل زمان اور مکان دونوں اسی تغیر کی صورتیں ہیں۔ دخان جس کےبارے میں دنیا کم جانتی ہے اس مخلوط کا نتیجہ اور مظاہر کی اصل ہے۔ یہاں دخان سے مراد دھواں نہیں ہے۔ دھواں نظر آتا ہے اوردخان ایسا دھواں ہے جو نظر نہیں آتا۔ انسان مثبت دخان کی اور جنات منفی دخان کی پیداوار ہیں۔ رہا فرشتہ ، ان دونوں کے مخلص سے بنا ہے۔ عالمین کے یہ تین اجزائے ترکیبی غیب و شہود کے بانی ہیں۔ ان کے بغیر کائنات کے گوشے امکانی تموج سے خالی رہتے ہیں۔ نتیجہ میں ہمارا شعور اور لاشعور حیات سے دور نابود میں گم ہو جاتا ہے۔ ان تین نوعوں کے درمیان عجیب و غریب کرشمہ برسر عمل ہے۔ مثبت دخان کی ایک کیفیت کانام مٹھاس ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار انسانی خون میں گردش کرتی رہتی ہے۔ دخان کی منفی کیفیت نمکین ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار جنات میں پائی جاتی ہے ۔ ان ہی دونوں کیفیتوں سے فرشتے بنے ہیں۔ اگر ایک انسان میں مثبت کیفیت کم ہو جائے اور منفی بڑھ جائے تو انسان میں جنات کی طرح عمل کرنے لگتا ہے۔ اگر کسی جن میں مثبت کیفیت بڑھ جائے اور منفی کیفیت کم ہو جائے تو اس میں ثقلِ وزن پیدا ہو جاتا ہے۔ فرشتہ پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ اگر مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے اوپر آجائیں تو مثبت کے زور پر وہ انسانی صلاحیت پیدا کر سکتا ہے اور منفی کے زور پر جنات کی۔ بالکل اسی طرح اگر انسان میں مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے کم ہو جائیں تو اس سے فرشتہ کے اعمال صادر ہونے لگیں گے۔“

شہنشاہ ہفت اقلیم ؒ کی بصیرت افروز تحریر سے ذہن میں روشنی کے جھماکے  ہوتے ہیں اور تفکر سے شعور کو نئی توانائی کا احساس ہوتا ہے۔ انا کی لہریں دخان کی اصل ہیں اور دخان مظاہر کی اصل ہے۔ انا کی لہریں ہمہ وقت اور ہر جگہ موجود ہیں اور کائناتی فاسلے ان لہروں کے سامنے لامجود ہیں۔ انا کی لہریں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں جو برت در پرت جمع ہو کر کبھی انسان، کبھی جن کبھی فرشتہ اور کبھی دوسری نوع کو تخلیق کرتی ہیں۔ حتی کہ جس شے کو ہم خلا یعنی خالی جگہ تصور کرتے ہیں وہ بھی انا کی لہروں کی ایک شکل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسپیس کا وجود اور کائنات ، انا کی لہروں کی بساط پہ قائم ہیں۔

نانا تاج الدین ؒکے ارشاد میں بنیادی طور پر تین اقسام کی انا کی لہروں کا تذکرہ ہے۔ یعنی انسان ، جنات اور فرشتے ۔ تینوں نوعیں اپنی انا کی لہریں کائنات میں مسلسل نشر کرتی رہتی ہیں۔ یہ لہریں جب آپس میں ملتی ہیں تو ان کے اختلاط کے نتیجہ میں دخان پیدا ہوتا ہے۔ یعنی انا کی لہریں دھوئیں جیسی chaotic    کیفیت پیدا کر لیتی ہیں۔ یہ دخان کائنات کے مظاہرات کی تخلیق کا بنیادی سامان ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ دخان انا کی مختلف لہروں کا ایسا ملخّص (خلاصہ) ہے جس میں مظاہرات کو تخلیق کرنے والی مقداریں موجود ہیں۔ ملحوظ خاطر رہے کہ منفی یا مثبت یہاں اچھے یا برے کے معانی میں ہرگز نہیں ہیں بلکہ مختلف ہونے کے معانی میں ہیں۔ جیسے مقناطیس کے دو قطب یا برقیات کے منفی اور مثبت چارجز ہیں۔

دوسری  اہم بات یہ کہ تینوں نوعوں میں ایک مخصوص دخان ہر وقت برسر عمل رہتا ہے اور اسی دخان کی بنا پر ایک نوع کی صفات دوسری نوع سے مختلف ہیں۔

مثلاً نوع انسانی کے اندر مثبت دخان ہے۔ نانا تاج الدین ؒنے مثبت دخان کی ایک خصوصیت ( نہ کہ تمام مثبت دخان) کو مٹھاس فرمایا ہے۔ اور یہ بات ہمارے پیشِ نظر ہے کہ ہم جو کچھ بھی بطور غذا استعمال کرتے ہیں۔ وہ بالآخر مٹھاس (گلوکوز) کی صورت اختیار کرتا ہے۔

گلوکوز کیا ہے؟ کاربن کے جال میں ہائیڈروجن اور آکسیجن یعنی پانی بند ہے۔ کاربن سانس لینے ( یعنی جلنے) کے عمل کے دوران آکسیجن کے ساتھ جل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ جسے ہم انسانوں اور حیوانات کے عمل تنفس کے نتیجہ میں زائد گیس سمجھتے ہیں، درحقیقت دخان کے اوصاف سے مزین ہے۔

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی ؒفرماتے ہیں:

”روحانی ہستیاں تشریح کرتی ہیں کہ آکسیجن زندگی کا ایک ذریعہ ہے ، آکسیجن زندگی نہیں ہے۔ جب آکسیجن اندر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت ایک Chip  لگی ہوئی ہے۔ اس chip سے جب آکسیجن ٹکراتی ہے تو اسپارکنگ (Sparking) ہوتی ہے۔ آکسیجن جلتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی ہے۔ یعنی انسانی زندگی کا دارومدار کاربن ڈائی آکسائیڈ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دخان کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دخان سے کہا کہ __ تو داخل ہو جا ، انسان کے اندر خوشی سے یا زبردستی ۔ دخان نے کہا ، میں آپ کا فرماں بردار ہوں ، خوشی سے داخل ہوتا ہوں۔“۔


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم