Topics
قارئین ! اللہ تعالی ٰ نے فرمایا
ہے کہ ہم نے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا ہے۔ اسی ضمن میں ان الفاظ کی مدد سے دوسری
آیتیں تلاش کیجئے۔۔ یعلمون ، تعلمون ، تعقلون ، تعقلون ، یذکرون ، یتفکرون ، یا
اولی الالباب، اولی الابصار ، فبای ا لاء ربکما تکذبان ، فھل من مدکر ۔ قرآن کریم
کی آیت کا مفہوم ہے کہ جو لوگ ہماری صفات میں غورو فکر کرتے ہیں، ہم انہیں ضرور
ہدایت دیں گے تاکہ ان پر تخلیق کے رموز ظاہر ہوں۔
اللہ رب العالمین فرماتے ہیں :
”اور ہم نے لوہا نازل کیا۔ اس میں
شدید سختی اور لوگوں کے لئے فوائد ہیں۔“ (الحدید
: ۲۵)
لوہے کے خواص ، اہمیت اور نوع
انسانی کے لیے اس میں موجود فوائد کی نشان دہی قرآن کریم میں اختصار اور جامعیت کے
ساتھ کی گئی ہے۔
لوہا قدیم زمانہ سے آدمی کے استعمال
میں ہے۔ اس میں موجود متعدد خواص اور فوائد دریافت ہو چکے ہیں لیکن بہت کچھ منکشف
ہونا باقی ہے۔
قارئین کرام ! لوہا کثیر استعمال
دھات ہونے کے علاوہ ایک عجوبہ ہے__وہ کیسے__؟
لوہے کو باآسانی زنگ لگ جاتا ہے اس
کے باوجود یہ دھات کرہ ارض کی باقی تمام دھاتوں میں اہم ہے اس کی طلب اور ضرورت سب
سے زیادہ ہے۔ دیگر دھاتوں کی نسبت لوہے کی تخلیص (refining) 90 فیصد ہے۔ معمولی ملاوٹ سے پاک خالص لوہا نقرئی مائل سرمئی رنگ
کی دھات ہے جس کی مخصوص چمک ہے ۔ عام لوہے کے مقابلہ میں خالص لوہا اندر موجود
سختی ، مضبوطی اور دوسری گونا گوں خصوصیات کا اظہار کاربن ، سلیکان ، کرومیم اور
درجنوں دھاتی یا غیر دھاتی عناصر کی معمولی مقدار سے کرتا ہے۔
خالص لوہے میں انتہائی مقدار میں
(تقریباً دو فی صد) کاربن شامل ہو جائے تو حاصل شدہ مرکب فولاد (steel) کہلاتا ہے۔ فولاد کی کئی قسمیں ہیں جو کاربن
سمیت دیگر عناصر سے مرکب ہوتی ہیں اور مختلف مقاصد کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔ اگر
لوہے کے ساتھ شامل کئے جانے والے عناصر کی نسبت دو فی صد سے زیادہ ہو تو اس مرکب
کو بھرت(alloy)
کہتے ہیں۔
ایک مثال اسٹین لیس اسٹیل ہے جس
میں لوہا تقریباً 88.3
فی صد ، کرومیم 10.5
فی صد اور کاربن 1.2
فی صد کے تناسب سے شامل ہے۔ یہ مقداریں اسٹین لیس اسٹیل کی مختلف اقسام میں کم و
بیش ہو سکتی ہیں۔
مثال سے وضاحت مقصود ہے کہ لوہے
میں دوسرے دھاتی عناصر کو مخصوص درجہ حرارت اور معین مقداروں میں شامل کرنے سے بے
شمار خصوصیات کے فولاد اور بھرت بنائے جاتے ہیں۔ کسی میں بے پناہ سختی اور کسی میں
لچک زیادہ ہے۔ کسی میں زنگ سے محفوظ رہنے کی صلاحیت ہے اور کسی میں درجہ حرارت کے
خلاف زبردست مزاحمت ہے یعنی وہ دیر سے پگھلتے ہیں۔
لوہے کی خصوصیات کثیر الجہت ہیں۔
تقریباً تمام دھاتی عناصر کے خواص لوہے میں مجتمع نظر آتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے
کہ قرآن کریم میں جہاں لوہے کو بیان کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد کائنات میں موجود
تمام دھاتی مادہ ہے۔
محققین نے زمین کے ماحولیاتی نظام
میں جن عناصر کو اب تک شناخت کیا ہے ، ان کے بقول ان عناصر کی تعداد 94 ہے۔ ان میں
دھاتی اور غیر دھاتی ٹھوس ،دھاتی اور غیر دھاتی مائع اور گیسی عناصر شامل ہیں۔
عناصر کے جدول (چارٹ) میں
ہائیڈروجن گیس پہلا عنصر ہے جو ایٹمی اعتبار سے سادہ ترین اور سب سے ہلکا ہے جب کہ
اس چارٹ میں یورنیم دھات 92 نمبر پر ہے۔
یورنیم کے مرکزہ(NUCLEUS) میں پروٹان کی تعداد 92 اور
نیوٹران 146 ہیں یعنی کل 238 نیو کلیائی ذرّات ( پروٹان+نٹران ) یورنیم کے مرکز میں موجود ہے۔ یہ
ذرّات مرکزہ میں رہ کر آپس میں انتہائی مضبوطی کے ساتھ پیوست ہیں۔ اگر یورنیم کا
مرکزہ(nucleus)
قدرتی یا مصنوعی تاب کاری کی بنیاد پر ٹوٹ جائے تو جن عناصر کی تخلیق ہوتی ہے وہ
وزن کے اعتبار سے مجموعی طور پر یورنیم سے ہلکے ہوں گے۔ نتیجہ میں مادہ کا زیادہ
تر حصہ توانائی ہے جو یورنیم پر مشتمل ایٹم بم ، یا ایٹمی ری ایکٹر سے حاصل ہوتی
ہے۔
یورنیم یا اس سے کم ایٹمی نمبر کے
قدرتی تاب کار عناصر میں تاب کاری اس لئے ہے کہ ان کے ایٹمی مرکزوں میں ذرّات کی
باہمی پیوستگی کمزور ہے۔ چناچہ یہ ایٹم قدرتی طور پر خاص عرصہ میں ٹوٹ کر دوسرے
عناصر میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
اگر ہم چاہیں تو ان عناصر کو بھی
توڑ سکتے ہیں جن میں تاب کاری نہیں ہے لیکن اس کے لیے کثیر مقدار میں توانائی
درکار ہے۔
جیسے جیسے ہم عناصر کے چارٹ میں کم
وزن عناصر کی طرف آتے ہیں، ایٹموں کو توڑنے میں درکار توانائی کی مقدار بڑھتی جاتی
ہے۔ یہاں تک کہ جب لوہے کا نمبر آتا ہے تو اسے توڑنے کے لیے اتنی توانائی کی ضرورت
پڑتی ہے جو جوہری بم سے حاصل ہونے والی توانائی سے زیادہ ہے۔ یعنی لوہے کے ایٹم کو
توڑنے کے لیے زیادہ توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے۔ نتیجہ میں اس سے کم توانائی خارج
ہوتی ہے۔
لہذا اضافی توانائی کا حصول ممکن
نہیں۔
جوہری انشفاق جسے ایٹمو کے توڑنے
کا عمل کہتے ہیں ، کے علاوہ جوہری فیوژن سے بھی کثیر مقدار میں توانائی حاصل ہوتی
ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے دو ایٹموں کے مراکز یک جان (fuse) ہو جائیں تو ہیلیم کا نسبتاً بھاری مرکز تخلیق پاتا ہے۔ اس عمل
میں بھی بے پناہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ ہلکے ایٹموں کا آپس میں یک جان ہو کر بھاری
ایٹم تخلیق کرنا عمل ایتلاف ( نیوکلئیر فیوژن) کہلاتا ہے۔
جیسے جیسے ہم بھاری عناصر کی طرف
بڑھتے ہیں، فیوژن (عمل ایتلاف) سے حاصل ہونے والی توانائی کم ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح
لوہے کے ایٹموں کو آپس میں یک جان کرنے کی صورت میں حاصل شدہ توانائی ، خرچ شدہ
توانائی سے کم ہوگی۔
یعنی دونوں طرح کے نیوکلیائی
تعاملات (انشقاق اور ایتلاف) کی صورت میں لوہا ایسا عنصر ہے جس کے ایٹموں کو توڑ
یا آپس میں یک جان کر کے مزید بھاری عناصر بنانا سب سے مشکل ہے۔
لوہا واحد عنصر ہے جس کے ایٹموں کے
مراکز میں موجود ذرّات ( پروٹان+نیوٹران) اپس میں
سب سے زیادہ مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ لوہے کے ایٹم
باقی تمام عناصر کے ایٹموں سے زیادہ مضبوط اور قائم رہنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
ستاروں کی مدت حیات (عمر) کا اندازہ لوہے کی مقدار سے کیا جاتا ہے۔
ستاروں میں عمل ایتلاف ( فیوژن) کے
نتیجہ میں ہلکے عناصر بھاری میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ نتیجہ میں حاسل توانائی سے
ستارہ کی روشنی اور حرارت برقرار رہتی ہے۔ لیکن جب ہلکے عناصر کا ایندھن ختم ہوتے
ہوئے ایتلاف کے عمل میں لوہا بنتا ہے تو ستارہ کی بھٹی میں خرچ ہونے والی توانائی
کی مقدار زیادہ اور حاصل شدہ توانائی کم ہو جاتی ہے۔۔ ستارہ کی بتدریج موت واقع ہو
جاتی ہے۔ ستاروں کے حوالہ سے محققین کا یہ نظریہ اگرچہ مفروضہ سے زیادہ نہیں ہے،
لیکن ا س سے دھاتوں میں لوہے کے منفرد مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔
لوہے کے حیاتیاتی خواص :
زمین پر موجود تقریباً تمام قسم کے
جانوروں اور پودوں کی زندگی میں لوہے کا اہم اور عملی کردار ہے۔ صحت مند آدمی کے
جسم میں اوسطاً تین سے چار گرام تک لوہا موجود ہے۔ خون کے خلیات میں لوہے کے بغیر
خون کا وجود ممکن نہیں۔ لوہے کے مرکبات پر مشتمل ایک پروٹین ہیموگلوبن خون کا اہم
جزو ہے جو آکسیجن دوسرے خلیات تک پہنچاتا ہے۔ اس طرح عضلات میں تنفس کا عمل جاری
رہتا ہے۔
بالغ مرد اور عورت کو روزانہ 10 سے
18 ملی گرام لوہے کی ضرورت ہے۔ جسم میں لوہے کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی (انیمیا)
کے مرض کا خطرہ ہے۔ آدمی کے علاوہ چوپایوں اور دوسرے جانوروں میں لوہے کی اہمیت
ناگزیر ہے۔
مقدار کے اعتبار سے لوہا زمین میں
پائے جانے والے وافر عناصرمیں اہم ہے۔ ارضیاتی ماہرین کے مطابق زمین کے مرکز کے
بیرونی اور اندرونی حصے پرتوں پر مشتمل ہیں۔ زمین کے اوپری پرت ، قشرِ ارض میں
فراوانی کے اعتبار سے عناصر کی ترتیب پڑھیں۔
۱۔ آکسیجن (Oxygen)
۲۔ سلیکان (Silicon)
۳۔ ایلومینیم (Aluminium)
۴ ۔ لوہا (Iron)
۵۔ کیلشیم (Calcium)
لوہا اور سائنسی ترقی :
ایجادات اور ایجادات میں ارتقا سے
معمولات میں تیزی آگئی۔ ذرائع آمد و رفت ، مواصلات ، صنعت اور تعمیرات وغیرہ کے
شعبوں میں نمایاں تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ ترقی کے اس کھیل میں لوہے کی حیثیت مرکزی
اور بنیادی ہے۔ معاشی لحاظ سے مضبوط اقوام اس لئے ترقی یافتہ ہیں کہ انہوں نے لوہے
کے خواص کو جاننے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،
ہمارے اسلاف قرآن سے ہی تمام
ایجادات اور سائنسی فارمولے بناتے تھے۔ یہ تفکر ہی تھا جس نے ان کے ذہن کے بند
دریچے اور نئے راستے کھول دیئے تھے۔ کچھ عرصہ قبل جب میں امریکہ میں تھا وہاں کئی
اسٹیٹس میں گیا۔ میں نے غور کیا کہ ان لوگوں کی اس مادی ترقی کا کیا راز ہے؟ میں
نے دیکھا کہ وہ عنصر تھا لوہا۔ اگر وہاں 110 منزلہ عمارت کھڑی ہے تو اس کا پورا
ڈھانچہ (نقشہ) لوہے کا ہے۔ اگر انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشن ہیں تو سب لوہے اور
کنکریٹ سے بنے ہوئے ہیں۔ پل اوپر نیچے بنے ہوئے ہیں تو وہ لوہے کی کارفرمائی ہے ،
جہاز اور ہر قسم کی مشینوں میں بھی بنیادی عنصر لوہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
”اور ہم نے لوہا نازل کیا۔ اس میں
شدید سختی اور لوگوں کے لئے فوائد ہیں۔ “ (الحدید :۲۵)
سائنسی ایجادات پر غور کریں ، کسی
نہ کسی درجہ میں لوہے کا استعمال ہے اور ایجادات کا پس منظر تفکر ہے۔ ٹیلی فون ،
ریڈیو ، ٹیلی وژن ایک دن میں ایجاد نہیں ہوئے۔ سالوں تک بے شمار لوگوں کی خیال
آزمائی ، تفکر اورتجربات کے بعد وہ وجود میں ائے ہیں۔ اگر مسلمان تفکر نہیں کریں
گے تو یہ جتنے محروم اب ہیں اس سے کہیں زیادہ مفلوک الحال ہوں گے۔
اللہ تعالی حاکم ہیں ، خالق ہیں ،
رب ہیں۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ کو پہچاننا چاہتے ہیں تو کائناتی نظام میں تفکر کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” جو لوگ میرے لیے جدہ جہد کرتے
ہیں میں ان کے لئے اپنی راہیں کھول دیتا ہوں۔“ (العنکبوت : ۶۹)
قدیم ادوار کے بنے ہوئے لوہے کے
بنیادی نوعیت کے الات ، ہتھیار اور اوزار وغیرہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ
لوگ لوہے سے مختلف قسم کے فولاد بنانے کے اصولوں سے واقف تھے ۔علاوہ ازیں وہ لوہے
سے متعلق ایسی ٹیکنا لوجی کا علم رکھتے تھے جو حیرت انگیز ہے۔ قرآن کریم میں
بادشاہ ذوالقرنین کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
” جب وہ پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو
اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل سے کوئی بات سمجھتی تھی۔ ان لوگوں نے کہا ، اے ذوالقرنین
! یا جوج اور ماجوج اس شر زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ، تو کیا ہم تجھے کوئی نیلس
اس کام کے لئے دیں کہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے؟ اس نے کہا،
جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔ تم بس محنت سے میری مدد کرو۔ میں
تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں۔ مجھے لوہے کی چادریں لا دو۔ آخر جب
دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں نے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ حتی
کہ جب چادریں آگ کی طرح سرخ ہو گئیں تو اس نے کہا ، لاؤ اب میں اس پر پگھلا ہوا
تانبا انڈیلوں گا۔ باجوج ماجوج اس پر چڑھ کر نہ آسکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان
کے لئے اور بھی مشکل تھا۔ ذوالقرنین نے کہا، یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب
کا وعدہ کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق
ہے۔“
(الکہف
: ۹۳۔۹۸)
قارئین! غور کریں کہ ایت میں لوہے
اور تانبے سے متعلق دھات کاری کی سائنس میں وسیع اور عظیم منصوبہ یعنی دو پہاڑوں
کے درمیان پہاڑی چوٹیوں کی بلندی تک لوہے کے تختوں سے دیوار کی تعمیر ، اس پر
پگھلا ہوا تانبا انڈیل کر دیوار کو یک جان اور زنگ سے محفوظ کرنا ، دھاتوں کی
تخلیص (refining)
کا عمل اور اتنی وسیع و بلند دیوار کی تعمیر میں استعمال ہونے والے آلات اور ٹیکنا
لوجی ___
یہ سب اس دور کے ترقی یافتہ ہونے کی دلیل ہیں۔