Topics

نظر باہر نہیں اندر دیکھتی ہے

یہ دنیا غیب ظاہر غیب ہے۔ غیب ظاہر کے نظام کا ایک جز یہ ہے کہ دریافت ہونے والی تخلیقات کے علاوہ دنیا میں ایسی مخلوقات ہیں جو اب تک آدمی کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

کیسے__؟ جاننے کے لئے آگے پڑھئے۔

ہماری زمین کا پہلا اور آخری کنارہ کون سا ہے، کس مقام پر پہنچ کر زمین ختم ہوتی ہے اور کس مقام سے شروع ہوئی ہے ، خبر نہیں لیکن مصدقہ امر ہے کہ زمین کا پہلا آخری کنارہ موجود ہے ، زمین کا پہلا اور آخری مقام بھی اسی زمین پر ہے۔ یقیناً وہاں کوئی نہ کوئی مخلوق آباد ہوگی ، آدمی نہ سہی ، پرندے ، حشرات یا آبی مخلوقات کا بسیرا ہوگا۔ لبِ لباب یہ ہے کہ اس زمین پر ایسی مخلوقات ہیں جن کو ہم نے نہیں دیکھا اور نہ ان کے بارے میں سنا ہے۔ وہ کسی ایسے علاقے اور مقام پر ہیں جہاں اب تک آدمی کی رسائی نہیں اور نہ خبر ہے۔

زمین پر آدمی کا بسیرا ہے تو فضا پرندوں سے آباد ہے۔ دریافت شدہ پرندوں میں شکر خورہ دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہے۔ اس کا اوسط قد 8.5 سینٹی میٹر اور وزن دو سے 20 گرام تک ہے۔ پرندوں میں سب سے زیادہ تیزی سے پر پھڑپھڑانے کا اعزاز شکر خورے کے پاس ہے۔ یہ ایک سیکنڈ میں پر پھڑپھڑاتے ہوئے 50 سے 80 مرتبہ پروں کو اوپر نیچے کرتا ہے۔

قارئین ! ہاتھ پروں کے مماثل ہیں۔ دائیں بائیں ہاتھ کھول کر پرندوں کی طرح ہلائیں اور بتائیں کہ ایک سیکنڈ میں ہاتھ کتنی مرتبہ اوپر نیچے ہوا۔ تجربے سے اندازہ ہوگا کہ شکر خورے کی رفتار کتنی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ فی سیکنڈ پانچ مرتبہ پرہلائیں تو آدمی پروں کی حرکت کو واضح طور پر دیکھ سکتا ہے۔ تعداد زیادہ ہونے سے پروں کی دو حرکت کے درمیان فاصلہ دھندلا ہونے لگتا ہے، پر نظر آتے ہیں لیکن غیر واضح ہوتے ہیں۔ رفتار تیز ہو جائے تو پر ساکن نظر آتے ہیں۔

تیزی سے پھڑ پھڑاتے ہوئے پروں کو ساکن دیکھنے کی نوعیت ہوائی جہاز ، ریل گاڑی اور گاڑی جیسی ہے۔ ہوائی جہاز اور ریل گاڑی میں بیٹھنے کا تجربہ کسی کو نہ ہو تو گاڑی کا سفر سب نے کیا ہے۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے فرد کو گاڑی کی رفتار اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ وہ باہر کے مناظر کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ اگر باہر کے مناظر ایک سے ہو جائیں تو فرد کو گاڑی ساکن محسوس ہوگی اس لئے کہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے فرد کی حرکت کی رفتار گاڑی کی رفتار کے برابر ہو جاتی ہے۔ ہوائی جہاز اور موجودہ دور کی تیز رفتار ٹرینیں اس کی بہترین مثال ہیں۔ اگر مسافر بردار جہاز 550 میل فی گھنٹے کی رفتار سے سفر کر رہا ہے تو اندر بیٹھے مسافروں کی رفتار بھی اتنی ہوجاتی ہے۔ دونوں کی رفتار ایک ہونے سے دونوں کی حرکت کی فریکوئنسی ایک ہو گئی یعنی neutralize یا صفر ہو گئی جس کی وجہ سے جہاز کو تو اپنی حرکت محسوس ہو رہی ہے لیکن آدمی چونکہ جہاز کی حرکت کے تابع ہوا ہے، وہ جہاز اور اپنی حرکت کو محسوس نہیں کر رہا اور اسے ساکن سمجھ رہا ہے۔ وہ جہاز کے دیکھنے کو دیکھنے کی وجہ سے فضا میں جہاز کی رفتار کو محسوس نہیں کرتا۔

مسافر الوژن میں ہے اور سمجھتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں جب کہ وہ جہاز کی رفتار کو قبول کر کے جہاز کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہے۔

دیکھنے اور دکھانے کا میڈیم روشنی ہے۔ روشنی کے انعکاس کو بنیاد بنا کر روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار دو سو 82 میل فی سیکنڈ بتائی جاتی ہے۔ انعکاس دو طرفہ سفر ہے__الف سے بے اور پھر ب سے الف تک پہنچنا۔ روشنی کے ایک سمت میں سفر کی رفتار معلوم نہیں کی جا سکی۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، روشنی کی بتائی گئی رفتار قیاس (illusion) ہے۔

دیکھنے کے عمل کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ باہر سے روشنی آنکھوں میں داخل ہو کر برقی رَو کی شکل میں دماغ تک پہنچتی ہے اور عکس بنتا ہے۔ واضح رہے کہ ہر فرد عکس کو اپنے رجحان یعنی اپنے دماغ(سوچ) کے مطابق دیکھتا ہے۔ سائنسی تحقیقات کہتی ہیں کہ ذہن ہمیں تصویر کا صرف تین سے پانچ فیصد حصہ دکھاتا ہے اور وہ بھی تحریف شدہ ہوتا ہے۔

ایسے میں سوالات قائم ہوتے ہیں۔

۱۔ دیکھنے کی حقیقت کیا ہے؟

۲۔ دیکھنے کا میڈیم روشنی ہے۔ روشنی کیا ہے اور یہ کس رفتار سے سفر کرتی ہے؟

۳۔ چونکہ روشنی کائنات کے احاطے میں سفر کرتی ہے اور کائنات خود بھی حرکت میں ہے، کائنات کی رفتار کیا

ہے؟

۴۔ خواب ہو یا بیداری ، ہم اندر دیکھتے ہیں۔ اندر میں عکس کا ماخذ (source) کیا ہے؟

۵۔ نظر کا کردار کیا ہے؟

روحانی سائنس کی وضاحت : زید باغ میں چہل قدمی کر رہا ہے۔ نظر خوب صورت گلاب پر پڑتی ہے۔ وہ گلاب کے قریب جاتا ہے، اسے چھوتا ہے، خوش بو سونگھتا ہے اور چند لمحوں بعد آگے بڑھ جاتا ہے۔ ہوا کیا__؟

زید نے تحریک کے بغیر گلاب نہیں دیکھا۔ گلاب دیکھنے سے پہلے ، گلاب کی اطلاع ذہن پر وارد ہوئی۔ اطلاع کی دستک گلاب کی خوشبو سے زیادہ لطیف ہے کہ ذہن پر دستک کا دباؤ محسوس نہیں ہوا۔ اندر کی دنیا میں دیکھنے والے خواتین و حضرات ماہرین جن کا علم مشاہداتی ہے ، وہ اس مرحلے کو اطلاع کی پہلی منزل کہتے ہیں اور واہمہ کا نام دیتے ہیں۔

اطلاع ، واہمہ میں قیام کرتے ہی اگلی منزل کا رخ کرتی ہے جس کا نام خیال ہے۔ ذہن کی اسکرین پر بہت ہلکا خاکہ بنتا ہے یعنی زید گلاب کے ہونے کو محسوس کر لیتا ہے لیکن ابھی تصویر پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔ خیال میں انہماک سے زمین میں رنگوں اور ثقل کی مقداریں جن سے گلاب بنا ہے، اپنی گرفت بتدریج مضبوط کرتی ہیں تو زید کو گلاب رنگ اور خوشبو کے ساتھ نظر آجاتا ہے۔

گلاب کے خیال میں یکسو ہو کر زید سمجھتا ہے کہ گلاب باہر ہے جبکہ یہ اندر میں اسکرین ہے جہاں گلاب کی پتیاں کھلی ہوئی ہیں اور بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ چند لمحوں بعد زید کی نظر اندر میں گلاب سے ہٹتی ہے اور توجہ ہونے نہ ہونے کا عمل اسی ترتیب سے واپس پلٹتا ہے جس ترتیب سے ظاہر ہوا تھا۔ نظر ہٹنے کے بعد چند ثانیوں تک گلاب کا تصور ذہن میں رہتا ہے پھر ہلکے خاکے یعنی خیال میں منتقل ہوتا ہے، مزید ہلکا ہو کر واہمہ میں جاتا ہے اور وہاں سے اپنے سورس کی جانب لوٹ جاتا ہے۔

ہم دن رات مسلسل ایک کے بعد ایک شے اور مناظر دیکھتے ہیں۔ نظر ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری شے پر پڑتی ہے۔ نیند میں بھی دیکھنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ ہمیں دو مناظر کے درمیان وقفہ یا تعطل نظر نہیں آتا بلکہ فلم کی طرح تسلسل سے مناظر ظاہر اور غائب ہوتے ہیں۔ اطلاع کے وارد ہونے ، واپس لوٹنے اور نتیجے میں غیب ظاہر غیب ہونے والی کائنات کی رفتار کیا ہے؟

ابدالِ حق قلندر بابا اولیا ءؒ کے شاگردِ رشید محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں:

” یہ بات بہت غور طلب ہے کہ اس کائنات میں کو کچھ بھی ہے ، دو محوری اور طولانی گردش میں سفر کر رہا ہے۔ محوری گردش کا مطلب یہ ہے کہ حرکت کا ایک نقطے سے شروع ہو کر اُسی نقطے پر ختم ہونا۔ محوری گردش کا یہ قانون بھی دراصل پوری کائنات کو متحرک کئے ہوئے ہے۔ نزول و صعود کا یہ عمل سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہوتا ہے اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں پلٹ جاتا ہے اور بار بار اس کا اعادہ ہوتا ہے ۔ اعاداہ جس رفتار سے ہوتا ہے، وہ رفتار اتنی تیز ہے کہ ہم ہر چیز کو اپنے سامنے ساکت محسوس کرتے ہیں جبکہ کائنات میں کوئی شے ساکت نہیں ہے۔ اگر کوئی شے ساکت ہو جائے تو پوری کائنات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ہم اسے ساکت محسوس کرتے ہیں۔“

کن یعنی تخلیق کی ابتدا کو سمجھنے کے لیے محترم عظیمی صاحب کی تحریر مینارہ نور ہے۔ صاحبِ مشاہدہ ہستی نے علم ِ حضوری کے رموز قرطاسِ بیض پر بکھیر دیے ہیں۔

تفکر سے منکشف ہوتا ہے کہ اطلاع میں شے کی پوری صفات ہوتی ہیں۔ جب اطلاع وارد ہوتی ہے تو محض اطلاع وارد نہیں ہوتی، اطلاع میں شے کا تخلیقی فارمولا نزول کرتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ غیب سے آنے والی اطلاع میں ہم شے کی کامل صفات دیکھ لیں لیکن کوتاہ نظری ہے کہ جب اطلاع کی نزولی حرکت کی تعداد فی سیکنڈ پانچ سے تجاوز کر جائے تو منظر دھندلا جاتا ہے۔ وجہ ہماری ناقص طرزِ فکر اور ذہنی رجحان ہے جس نے ذہن کی رفتار کو تقریباً جامد کر دیا ہے۔ شے جب نزولی مراحل کے آخری درجے میں مادی لباس پہنتی ہے تو ذہن رنگوں میں گم ہوکر رہ جاتا ہے اور نزولی رنگوں کو اصل سمجھتا ہے ۔ وہ یہ سمجھنے کے قابل نہیں رہتا کہ شے مادی لباس پہننے سے پہلے کس حال میں تھی اور اصل کیا ہے۔

حاصل ِ تحریر : اطلاع __ واہمہ ، خیال ، تصور اور احساس کے مراحل طے نہ کرے تو شے کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ ہر مرحلہ اپنی جگہ اطلاع کا عکس ہے یعنی شے ذہن میں اطلاع کے مراحل کا عکس ہے۔ ہم شے کو نہیں دیکھ رہے ، عکس کو دیکھ رہے ہیں۔ مظاہرہ کرتے ہی عکس یعنی روشنی اصل کی طرف جاتی ہے۔ مادی حواس سے مغلوب ذہن عکس کی روشنی کو اصل گمان کرتا ہے جبکہ وہ عکس کے دیکھنے کو دیکھتا ہے۔

صاحبِ مشاہدہ خواتین و حضرات فرماتے ہیں،

” ہم اندر میں دیکھتے ہیں لیکن الوژن طرز ِ فکر قبول کرنے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ باہر دیکھ رہے ہیں ۔ جو دیکھتے ہیں ، اس کا نقش دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتا ہے۔ ہم دماغ کی اسکرین پر دیکھتے ہیں مگر لاعلمی کی بنا پر اسے آنکھوں سے دیکھنا گمان کرتے ہیں ۔ اسکرین پر تصویر نمایاں نہ ہو تو نہیں دیکھتے۔“

اطلاع کو ظاہر کرنے کا میڈیم روشنی ہے اور روشنی کی بنیاد نور ہے۔ ارشادِ ربانی ہے،

” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔“  (النور : ۳۵)

صاحبانِ شہود ، نزول وعروج اور اندر میں دیکھنے والے اذہان سے درخواست ہے کہ اس مضمون پر تبصرہ کریں۔

        (فقیر عظیمی)


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم