Topics
1831ء میں برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے قریب پل
پر شاہی فوج کا دستہ پریڈ کرتا ہوا گزر رہا تھا۔ پل دفعتاً مکمل طور پر ٹوٹ گیا
کیوں کہ سپاہیوں کے مارچ کرنے کا ردھم اور پل کی قدرتی فریکوئنسی ہم آہنگ ہو گئی
تھی۔ یہ سپاہیوں کے قدموں کی قوت سے نہیں ہوا۔
خالق کائنات اللہ رب العالمین فرماتے ہیں :
”پھر جب ایک دفعہ صور میں پھونک مار دی جائے گی اور زمین
اور پہاڑوں کو اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا اس روز وہ ہونے
والا واقعہ پیش آئے گا۔ اس دن آسمان پھٹے گا اور اس کی بندش ڈھیلی پڑ جائے گی۔“ (الحاقتہ : ۱۳۔۱۶)
قرآن کریم میں ہر شے تفصیل سے بیان ہے۔ آیات کے مطالعے سے
واضح ہے کہ صورمیں پھونکنے سے مراد مخصوص آواز کے پیدا کرنے کا میکانزم ہے جس کے
نتیجے میں زمین ( بشمول عمارتیں، درخت یا جو کچھ زمین کے اندر باہر ہے) اور پہاڑ
اپنی ہیئت کھو کر ذرّوں میں تبدیل ہو جائیں گے حتی کہ اس آواز سے آسمان بھی قائم
نہیں رہ سکیں گے اور پھٹ جائیں گے۔
آواز میں ایسی قوت اور تاثیر ہے جو موجودات کو خواہ زمینی
ہوں یا آسمانی ، تحلیل کرنے صلاحیت رکھتی ہے۔ صوتی علم کا یہ کائناتی اور لامحدود
رخ ، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم میں
تقریباً پندرہ سو سال قبل بیان کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں بھی
آواز کا قانون مذکور ہے۔
قارئین کرام ! آواز کے آفاقی رخ میں تفکر سے قبل جائزہ لیتے
ہیں کہ اس کا ہماری زندگی میں کیا کردار ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے۔ بصارت موجود لیکن
اتنی نحیف ہے کہ بچہ پوری آنکھیں نہیں کھولتا۔ لہذا کسی شے کو دیکھ کر پہچاننے اور
حافظے میں محفوظ کرنے کے مراحل تقریباً غیر فعال ہیں۔ جسم اتنا توانا نہیں کہ بچہ
مرضی سے پہلو بدل سکے۔ سماعت کے حوالے سے تجربہ ہے کہ نومولود میں یہ حس دوسرے
حواس کی نسبت زیادہ فعال ہوتی ہے۔ بچہ آواز کے اتار چڑھاؤ ، تخاطب اور آہٹ پر ردِ
عمل ظاہر کرتا ہے۔
·
نومولود کے
کان میں آزان کے کلمات ادا کر کے ہم بچے کے ننھے شعور کو کیا پیغام دیتے ہیں__؟
·
اس عمر میں یہ
پیغام بقیہ حواس کے ذریعے دینا کیوں ممکن نہیں__؟
زندگی کی تخلیق آواز سے ہوتی ہے۔ بچے کا پیدائش کے بعد رونا
ڈاکٹر ، والدین اور عزیز و اقارب کے لیے باعث اطمینان ہوتا ہے کہ بچہ صحت مند ہے۔
بڑا ہوتا ہے تو اپنی اور دوسروں کی آوازیں انفرادی پہچان رکھتی ہیں۔ افراد کا ربط
، گفتگو ، زبانیں ، موسیقی اور آواز کی جتنی طرزیں ہیں ، زندگی کا لازمی جزو بن
جاتی ہیں۔ تفصیل کی گنجائش نہیں لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آواز کسی بھی فرد کے
تعارف کا جزو اعظم ہے۔
کتابوں میں لکھے الفاظ بظاہر شکلیں یا علامتیں ہیں جو
دیکھنے کی حس سے متعلق ہیں۔ درحقیقت الفاظ آوازوں کو ریکارڈ کرنے کی علامتی شکل
ہیں یعنی جس آواز سے متعلق کوئی علامت لفظ کی صورت میں ہے اسے دوبارہ اسی آواز میں
حاصل(decode) کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جن علامات کے
صوتی مفہوم کو بھلا دیا جاتا ہے ان کی حیثیت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال مردہ
زبانیں ہیں۔ کئی ایسی زبانوں کی تحریریں موجود ہیں جن کی صوتی تفہیم کا ریکارڈ فی
الحال کسی کے حافظے میں نہیں ہے اس لئے ان زبانوں کے بارے میں قیاسات اور مفروضات
باقی رہ گئے ہیں۔
آواز کیا ہے؟ دور حاضر کے علوم کے مطابق آواز توانائی کی
مخصوص شکل ہے جو لہروں کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ محققین کے مطابق آواز کی لہروں کے
پیدا ہونے اور سفر کرنے کے لیے مادی میڈیم ضروری ہے۔ شے میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی
ہے تو یہ تھرتھراہٹ اس شے سے متصل میڈیم جیسے ہوا، پانی ، لوہے وغیرہ میں منتقل
ہوتی ہے اور لہروں کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ یہ لہریں تنی ہوئی جھلی نما ساخت سے
ٹکرائیں تو اس میں بھی ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔
کوئی بھی شے جس میں لچک ہو اور اور اپنی حالت میں تبدیلی کے
خلاف مخصوص مزاحمت ہو ، ارتعاش پیدا کرنے اور وصول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہمارے کان جھلی دار میکانزم کی بہترین مثال ہیں۔ اسکول کی
گھنٹی بجتی ہے۔ گھنٹی کے چپٹے اور پتلے جسم پر ہتھوڑے کی ضرب پڑتی ہے۔گھنٹی ضرب کی
توانائی کو جذب کر کے توانائی کی مقدار اپنے جسم کی ساخت ، حجم ، محیط اور وزن کی
مقداروں کو یکجا کر کے تھرتھراتی ہے۔ تھر تھراہٹ یا وائبریشن (ارتعاش) کی مخصوص
شرح ہے۔ یعنی مخصوص وقفے (مثلاً سیکنڈ) میں گھنٹی ارتعاش کو جتنی دفعہ دہراتی ہے
وہ گھنٹی کی فریکوئنسی ہے۔ ایک سیکنڈ میں گھنٹی 70 یا 100 مرتبہ تھر تھرائے تو
فریکوئنسی 70 یا 100 ہوگی۔
ماحول میں ہر طرف ہوا میں موجود ہے۔ ہوا کے ذرّات ، ٹھوس
اور مائع کے ذرّات کی نسبت آپس میں فاصلے پر موجود ہیں لیکن یہ فاصلہ اتنا زیادہ
نہیں کہ ماحول میں کوئی جگہ ان سے خالی رہ جائے۔ چناں چہ گھنٹی کی تھر تھراہٹ بلا
تعطل ہوا کے ذرّات میں منتقل ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہوا کے ذرّات بھی گھنٹی
کی فریکوئنسی سے تھرتھرانے لگتے ہیں اور ہوا کے ذرّات میں سفر کرتا ہوا ارتعاش
سماعت بنتا ہے۔
کان کا پردہ انتہائی حساس جھلی ہے۔ یہ ارتعاشات یعنی آوازوں
کی وسیع رینج (20 ہزار سے 20 ہزار ہرٹز ارتعاش فی سیکنڈ) کو وصول کر کے اس
فریکوئنسی میں حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گھنٹی کے مخصوص ارتعاش کو اسی
فریکوئنسی میں دہراتے ہوئے کان کا پیچیدہ مگر حساس نظام صوتی سگنل کو برقی سگنل
میں تبدیل کرتا ہے جو بالآخر دماغ میں سماعت کے لیے مخصوص خلیات تک پہنچتا ہے اور
ہمیں گھنٹی کی آواز اور اس کی مقداروں ( شدت ، بلندی ، سریلا پن وغیرہ ) کا احساس
ہوتا ہے۔
سارے عمل میں غالباً زیادہ دلچسپ مرحلہ گھنٹی کی آواز کان
کے پردے سے ٹکرانا ہے۔ پردہ اسی فریکوئنسی میں نہ تھر تھرائے تو ہم آواز نہیں سن
سکتے۔ یا اگر گھنٹی کی آواز کی فریکوئنسی کے بجائے اس سے کم و بیش فریکوئنسی میں
تھر تھرائے تو گھنٹی کی اصل آواز کی بجائے اور طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
جب تک کان کے پردے ٹکرانے والی آواز کے مطابق من و عن حرکت
نہ کریں ، ہم آواز کو اس کی اصل حالت میں نہیں سن سکتے۔ اور جن آوازوں پر کان کے
پردوں میں ارتعاش نہ ہو، وہ سنائی نہیں دیتیں۔ مثال وہ آوازیں ہیں جو ہماری سماعتی
فریکوئنسی سے ماورا ہیں یعنی 20 ہرٹز سے کم اور 20 ہزار ہرٹز کی فریکوئنسی سے
زیادہ سطح کی آواز۔ ایک شے کا دوسری شے کے ارتعاش کو من و عن قبول کر کے مظاہرہ
کرنے کو صوتی طبیعات میں resonance (ہم آہنگ) ہونا کہتے ہیں۔
قدرتی فریکوئنسی : سبز مائل پیلا رنگ آنکھ کو دیگر رنگوں سے
روشن اور شوخ لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں زیادہ قابل توجہ عوامل یا اشیا میں
اس رنگ کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ایمبولینس ، پولیس ، انجینئر وغیرہ۔ اس رنگ کو
ہائی الرٹ کے نقطہ نظر سے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
ہماری آنکھ جن روشنیوں کو دیکھ سکتی ہے ان میں سبز مائل
پیلی روشنی کی فریکوئنسی ایسی ہے جو آنکھ موجود حسی نظام کو باقی تمام روشنیوں سے
زیادہ متاثر کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہماری بصری حس اس روشنی سے دوسری روشنیوں کی
نسبت زیادہ ہم آہنگ ہے۔ چناں چہ اس روشنی کی فریکوئنسی آنکھوں کی قدرتی فریکوئنسی
کہلائے گی۔
بالکل اسی طرح ہمارے کان کے پردے یا کوئی بھی شے جس میں لچک
اور ارتعاش کی صلاحیت ہو ، مخصوص قدرتی فریکوئنسی رکھتی ہے۔ اس فریکوئنسی پر آواز
ہمیں بلند ترین سنائی دیتی ہے۔ گھنٹی کی قدرتی فریکوئنسی 100 ہرٹز ہے۔ ہتھوڑے کی
ضرب گھنٹی پر صحیح مقام اور مقدار میں اس طرح لگے کہ ارتعاش فی سیکنڈ 100 مرتبہ ہو
تو اس ضرب پر گھنٹی کی آواز بلند ترین ہوگی۔ کیوں کہ یہ گھنٹی کی قدرتی فریکوئنسی
کے مساوی ہے۔
کیا ضرب لگائے بغیر فاصلے سے گھنٹی بجانا یعنی ارتعاش پیدا
کرنا ممکن ہے؟ دلچسپ امر ہے کہ یہ ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ تمام لاسلکی ذرائع
مواصلات میں بنیادی اصولِ کار ہے۔
مثال نمبر ۱: اسکول میں0.5 سینٹی میٹر موٹی اور دو فٹ قطر لوہے کی گھنٹی
میدان کے ایک سرے پر ہے۔ اس جیسی دوسری گھنٹی اسی کی سیدھ میں کچھ فاصلہ پر ہے۔
دونوں کی قدرتی فریکوئنسی ایک ( مثلاً300 ہرٹز ) ہے۔اگر ان کے درمیان فاصلے ، رخ
اور پوزیشن کا تعین درست ہو اور ایک گھنٹی پر اس طرح ضرب لگے کہ وہ اپنی قدرتی
فریکوئنسی میں تھر تھرائے__ جیسے ہی تھر تھراہٹ آواز کی صورت میں دوسری گھنٹی سے
ٹکرائے گی، دوسری گھنٹی بھی اسی فریکوئنسی میں تھر تھرانے لگے گی اور بالکل پہلی
گھنٹی جیسی آواز پیدا کرے گی۔ چوں کہ یہ عمل قدرتی فریکوئنسی کی حدود میں ہو رہا
ہے اس لئے تھر تھراہٹ اپنی بلند ترین سطح پر ہوگی۔ دونوں گھنٹی کے اجسام مضبوط اور
چھوٹے ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ عمل ارتعاش سے آگے بڑھے۔ البتہ بڑے حجم یا کم
زور اجسام میں اس طرح کی صورت حال بعض اوقات اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ اجسام ٹوٹ
پھوٹ سکتے ہیں اور ریزہ ریزہ بھی ہو جاتے ہیں۔
مثال نمبر ۲: مشہور ہے کسی ساز کے بجانے یا گلوگار کے گانے سے سامنے رکھے
شیشے کے ظروف ٹوٹ گئے۔ بظاہر یہ افسانوی باتیں لگتی ہیں لیکن جدید صوتی طبیعات کی
رو سے یہ قدرتی فریکوئنسی کے ہم آہنگ ہونے کی بہترین مثالیں ہیں۔
بر صغیر پاک و ہند میں ایسے ماہر گلوکار اور سازندے موجود
رہے ہیں جو مخصوص لے ، سُر یا ساز کی خاص دھن پیدا کرتے تو ان سُروں یا دھنوں کی
فریکوئنسی سامنے رکھے شیشے کے ظروف کی قدرتی فریکوئنسی سے ہم آہنگ ہو جاتی__ ظروف
اسی فریکوئنسی میں لرزتے تھے۔ بلا شبہ یہ فنکاروں کی مہارت اور فنِ موسیقی پر
دسترس تھی کہ وہ حسب منشا ایسی فریکوئنسی کی آوازیں پیدا کرتے تھے۔
موسیقی میں تحقیق سے واضح ہو گیا ہے کہ شیشہ یا کسی بھی
مادے کی کوئی قدرتی فریکوئنسی موجود ہے۔ اگر کسی شے پر اس کی قدرتی فریکوئنسی کے
مساوی لہریں ڈالی جائیں تو وہ شے اسی فریکوئنسی میں تھر تھرانے لگتی ہےاور شدت کی
صورت میں ٹوٹ سکتی ہے
مثال نمبر ۳ : 1831 ء میں برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے قریب پل پر شاہی فوج
کا دستہ پریڈ کرتا ہوا گزر رہا تھا۔ پل دفعتاً مکمل طور ٹوٹ گیا کیوں کہ سپاہیوں
کے مارچ کرنے کا ردھم اور پل کی قدرتی فریکوئنسی ہم آہنگ ہو گئی تھی۔ یہ سپاہیوں
کے قدموں کی قوت سے نہیں ہوا۔ ان کے قدموں کی قوت پل کی مضبوطی اور پائیداری سے
کہیں کم تھی۔
محققین نے اس واقعے کے پیچھے کار فرما ہم آہنگی (resonance) کے عمل کا
سراغ لگایا اور تب سے پلوں پر فوجی دستوں کو منظم پریڈ کے بجائے بے ترتیب یعنی عام
طریقے سے گزرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
مثال نمبر ۴: امریکی ریاست واشنگٹن میں جزیرہ نما مقام Kitsap کو قریبی قصبے Tacoma سے
ملانے کے لیے پل تعمیر کیا گیا۔ اس پل کا افتتاح یکم جو لائی 1940 ء کو ہوا۔ لوہے
، تانبے اور کنکریٹ سے بنا یہ معلق پل(suspension
bridge) تعمیر کے وقت دنیا کا تیسرا بڑا پل اور انجینیرنگ
کا شاہکار تھا۔ لمبائی 1810 میٹر اور نیچے پانی کی بلندی 60 میٹر تھی۔
افتتاح کے تقریباً چار ماہ بعد 7 نومبر 1940ء کی صبح تیز
ہوائیں چلیں۔ آندھی کی رفتار 64 کلو میٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی۔ یہ رفتار ایسی
تیز اور شدید نہیں کہ لوہے اور کنکریٹ سے بنے بھاری اجسام خطرے سے دو چار ہوں۔
لیکن ہوا کے رخ اور رفتار سے ایسا ردھم پیدا ہوا کہ پل اپنی قدرتی فریکوئنسی سے
لرزنے لگا اور چند ہی لمحوں میں اس عمل میں اتنی شدت پیدا ہوئی کہ نیچے موجود
آبنائے پیوجٹ(Puget) میں جا گرا۔
یہ ڈرامائی اور عجیب و غریب صورتِ حال تھی۔
جلد عقدہ کھلا کہ ہوا کے پیدا کردہ ردھم ( جو پل کی قدرتی
فریکوئنسی کے مساوی تھا) کی وجہ سے ہوا ہے۔یہ واقعہ تصویری اور فلمی ریکارڈ میں
محفوظ ہے۔
بیان کئے گئے واقعات سے سمجھنا آسان ہے کہ ہر مادی جسم کی
قدرتی فریکوئنسی ہے جسے معلوم کرنے کے بعد اس جسم کو اسی فریکوئنسی میں کسی بھی
طریقے سے مرتعش کیا جائے تو جسم شدت سے لرزتا ہے۔ یہ عمل مسلسل ہو تو شدت کی بنا
پر ٹکڑے ہو سکتا ہے۔
محققین وضاحت کرتے ہیں کہ قدرتی فریکوئنسی اکثر ایک عددی
مقدار کے بجائے مقداروں کے ایک سیٹ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس سیٹ میں یہ مقداریں
ایک دوسرے کے بہت قریب لیکن جدا ہوتی ہیں۔ ان مقداروں میں پھر ایسی مقداریں ہیں کہ
جن کی عددی قدر کے عین مطابق اگر ہم آہنگ لہریں پیدا ہو جائیں تو شے ٹوٹ پھوٹ کے
بجائے ذرّات میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ مضمون کی ابتدا میں آیات کے
مطابق صور پھونکنا ایسا میکانزم ہے جس پر مقرر فرشتے اللہ کے حکم سے جب اسے حرکت
دیں گے تو کائنات میں موجودات اپنی مقرر کردہ فریکوئنسی کے اعتبار سے مرتعش ہونا
شروع ہوں گی۔ یہاں تک کہ اپنی بنیادی مقداروں میں تحلیل ہو جائیں گی۔
صوتی طبیعات کے ماہرین دریافت کر چکے ہیں کہ بے شک کوئی شے
بظاہر ارتعاش پذیر نہ ہو لیکن اگر کسی نظام کا حصہ ہو ( جیسے سیارہ زمین) تو اس نظام
کی اپنی قدرتی فریکوئنسی موجود ہے۔ جب کسی نظام کو اس کی قدرتی فریکوئنسی سے مرتعش
کیا جائے تو وہ نظام ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔
الٹرا ساؤنڈ: 20 ہزار ہرٹز سے زیادہ فریکوئنسی کی آوازیں
الٹرا ساؤنڈ کہلاتی ہیں۔ حضرت صالح کی قوم نے دعوتِ توحید کو ٹھکرایا اور اپنی ہی
فرمائش کے نتیجے میں رونما ہونے والے عظیم معجزے اونٹنی کو ہلاک کر دیا۔ ان پر
عذاب نازل ہوا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
” اور ظالموں کوچنگھاڑنے آلیا تو صبح اپنے گھروں میں اوندھے
پڑے رہ گئے۔“ (ھود : ۶۷)
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں:
”چنگھاڑ یا صور آواز کی ایسی لہر ہے جو انفرادی شعورکی سکت
سے زیادہ ہے۔ زیادہ کرخت آواز چنگھاڑ بن جاتی ہے، چنگھاڑ آواز کی ایسی لہروں کا
مجموعہ ہے جو زندگی میں کام کرنے والی لہروں کو درہم برہم کر دیتی ہے ، شعور بکھر
جاتا ہے ، آدمی بھس کی طرح ہو جاتا ہے۔ جب لہری نظام ٹوٹ جاتا ہے تو زندگی موت میں
تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنگھاڑ آواز کی ایسی لہر ہے جو سماعت کے سسٹم کو توڑ دیتی ہے۔
سسٹم کا ٹوٹنا حواس کا ٹوٹنا ہے۔ عام حالات میں دیکھا گیا ہے کہ 'دھماکا' سے سماعت
ختم ہو جاتی ہے ، کان کے پردے پھٹ جاتے ہیں۔“
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے آواز کے ذریعے زندگی کی لہروں
کے نظام کے درہم برہم ہونے اور بنیادی مقداروں میں تحلیل ہونے کے قوانین ، حکمت
اور فارمولے بیان فرمائے ہیں۔
تفکر طلب ہے کہ جو شے زندگی کو موت میں تبدیل کر سکتی ہے،
زندگی کو قائم رکھنے والی مقداروں کو درہم برہم کر سکتی ہے وہ یقیناً زندگی کی
ابتدا اور قیام میں بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔